کورونا: انڈیا میں معاشی بحران میں سونے کی چمک میں اضافہ


سونا

انڈیا میں لوگ بینکاری کے بحران کے بعد وبائی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اپنے قدیم ترین اثاثوں کی طرف لوٹ رہے ہیں۔ بی بی سی کی ندھی رائے کی رپورٹ۔

انڈیا میں لوگ سونے کی قیمت سے بخوبی واقف ہے۔ صدیوں سے یہاں گھروں کے ساتھ ساتھ مندروں نے اس قیمتی دھات کو جمع کرنے میں کافی دلچسپی دکھائی ہے۔

عالمی گولڈ کونسل کے گذشتہ سال کے تخمینے کے مطابق انڈیا کے گھروں میں سونے کے کل ذخائر تقریباً 25 ہزار ٹن تھے جو کہ دنیا میں کسی بھی ملک کے زخائر سے زیادہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سونے کی ’عالمی ذخیرہ اندوزی‘ اس کی قیمتوں میں اضافے کا باعث ہے

انڈیا: اماراتی قونصل خانے کے نام پارسل سے 30 کلو سونا برآمد

اس وقت یہ قدیمی آزمودہ سرمایہ کاری دوبارہ مقبولیت کی منازل طے کر رہی ہے کیونکہ انڈیا کی معیشت کورونا کی عالمی وبا کے تباہ کن اثرات کے زیر اثر ہے۔

جب انڈیا کووڈ 19 کی زد میں آیا اس سے قبل ہی بینکنگ کے شعبے میں بحران کی وجہ سے انڈیا کی ڈھائی کھرب ڈالر کی معیشت بے ربطی کا شکار تھی۔

اس کے نتائج میں سے ایک لیکویڈیٹی یعنی نقدی کی روانی میں کمی تھی۔ اور اسی لیے بہت سے شہریوں نے سرمایہ کاری کے طور پر سونے کی جانب رُخ کیا۔

زیورات

سونے کے زیورات انڈیا کی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہیں

بیوپار کی منڈی کے ماہر کنال شاہ کا کہنا ہے کہ ان وجوہات کے سبب وہ اس کا استعمال تیزی سے رقوم اکٹھی کرنے کے لیے کررہے ہیں۔

ایسے وقت میں جب روایتی بینکوں سے قرضے حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے، سونے کی قیمتوں میں اضافے نے ان قرضوں کی مقبولیت کو بڑھاوا دیا ہے۔

سونے کی قیمتوں میں رواں سال 28 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور اس کی قیمت فی 10 گرام 50 ہزار روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔

سونے کی قیمت میں اچانک اچھال کی کئی وجوہات ہیں۔

ایک تو یہ ہے کہ مغربی بینک طویل مدتی سکیورٹی کے طور پر بین الاقوامی منڈی میں کرنسی چھاپ رہے ہیں اور سونا خرید رہے ہیں۔

دوسری یہ کہ دنیا بھر میں سٹاک مارکیٹس غیر مستحکم ہیں جس سے لوگ سونے میں سرمایہ کاری کرنے پر مجبور ہیں اور اس کی قیمت کو بڑھا رہے ہیں۔ اور متعدد ممالک میں سود کی شرح میں کمی کے سبب بینکوں میں رقم رکھنا فائدہ مند نہیں رہا ہے۔

اس سب سے سونے کی قیمت متاثر ہوئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے مہینوں میں اس کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا۔

انڈیا کے مغربی شہر پونے سے تعلق رکھنے والی دیشا دنیش پر اب ان لوگوں میں شامل ہیں جنھوں نے وبائی امراض کے دوران اپنے کاروبار کو جاری رکھنے کے لیے سونے کے قرض پر بھروسہ کیا ہے۔

پچھلے دس سالوں سے وہ ایک دن میں تقریباً 40 سے 50 ڈبے کھانا بنا کر فروخت کررہی ہیں۔ لیکن حالیہ مہینوں میں جزوی طور پر کھلی معیشت میں کم طلب کی وجہ سے انھیں اپنے کھانے کی قیمت میں 20 فیصد کی کمی کرنا پڑی ہے۔

جو ڈبہ وہ پہلے سو روپے میں فروخت کرتی تھیں اب 80 روپے میں کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود پہلے کے مقابلے وہ ایک چوتھائی ڈبے ہی فروخت کر پا رہی ہیں۔

سونا

انڈیا میں سونے کے زیورات کو عام طور پر اثاثے کے طور پر دیکھا جاتا ہے

وہ کہتی ہیں کہ سونے کا قرض ’سب سے تیز اور آسان راستہ تھا۔‘

انھوں نے مقامی کوآپریٹو بینک سے سونے کے قرض کے طور پر سونے کے چھ زیورات 3340 امریکی ڈالر میں حاصل کیے۔ وہ تین سال تک ہر سال 9.15 فیصد سود ادا کریں گی۔ اگر انھوں نے ذاتی قرض کا انتخاب کیا ہوتا تو اسی مدت کے لیے انھیں 11 فیصد سے زیادہ سود ادا کرنا پڑتا۔

انڈیا میں کسان بھی سونے کے قرضوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ مغربی ریاست مہاراشٹر کے ایک کسان ہوسی لال مالویہ نے اپنے کھیتوں میں بوائی شروع کرنے کے لیے پانچ ہزار ڈالر سے زیادہ کے سونے کے قرض لیے۔

انھوں نے کہا: ’ہم نے بینکوں سے قرض لینے کی کوشش کی لیکن انھوں نے بہت سارے سوالات پوچھے اور پس و پیش کا مظاہرہ کیا لیکن مقامی کوآپریٹو بینک (سونے کے قرض سے) مدد کرنے کے لیے تیار تھے۔‘

سونا اور ذاتی قرض دینے والے دونوں ان افراد کو اپنی خواہش کے مطابق فنڈز کے استعمال کی اجازت دیتے ہیں۔

لیکن بہت سے لوگوں کے لیے دونوں آپشنز میں سے سونے کے قرض تک رسائی زیادہ آسان ہے۔ اس کے لیے انھیں کم دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے۔ سونا اکثر اثاثے کے طور پر گھر کے ساتھ آسانی سے دستیاب ہوتا ہے اور فی الحال سونے کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے سونے کے قرض زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔

سونے کے قرضوں کے لیے کم شرح سود ایک اضافی فائدہ ہے۔ اس وقت سونے کے قرض پر سود کی شرح سات فیصد سے شروع ہو کر 29 فیصد تک جاتی ہیں اور یہ مدت اور ادائیگی کے طریقوں پر منحصر ہوتا ہے۔

اس کے مقابلے ذاتی قرض پر سود آٹھ سے 26 فیصد سالانہ تک ہے۔

بینک

بینکوں نے سونے کے قرض کے ذریعے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے

سونے کے قرضے میں ذاتی قرضوں کے مقابلے زیادہ تیز شرح سے ترقی کا امکان رہتا ہے۔ سونے کے قرض میں ماہر ایک غیر بینکاری مالیاتی کمپنی مناپورم فنانس کے سربراہ وی پی نند کمار کہتے ہیں: ‘ہم توقع کرتے ہیں کہ رواں سال ان میں 10 سے 15 فیصد اضافہ ہوگا۔’

سونے کے قرضوں کا حصول اب آسان ہے کیونکہ باقاعدہ تجارتی بینکوں نے اپنے خزانے میں سختی کا مظاہرہ کیا ہے۔

بُرے قرضے دینے کے فیصلے کی تاریخ نے انڈین بینکوں کو قرضوں کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بُرا ملک بنایا ہے۔

خراب یا بُرے قرض کا مطلب کہ جب اس کی وصولی مشکل ہو جائے۔

اس کے علاوہ وبائی مرض نے مزید خراب صورتحال پیدا کردی ہے، جس سے بینکوں کو زیادہ قرض لینے والوں کے ڈیفالٹ ہونے کا خدشہ زیادہ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے بینک جتنا قرض دے رہے تھے اب اتنا قرض نہیں دے رہے۔

گھریلو ریٹنگ ایجنسی کرائسل کے مطابق سنہ 2019 میں انڈین بینکوں نے پچھلے سال کے مقابلے میں رواں سال چھ فیصد زیادہ قرضوں کی منظوری دی ہے۔

رواں سال ان سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ معمول کے مقابلے میں صرف ایک فیصد زیادہ قرض دیں گے۔ تاریخی اعتبار سے قرض کی ترقی کی رفتار دو ہندسوں میں رہی ہے۔

سونے کے قرضے دینے والی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک موتھوت فنانس کے منیجنگ ڈائریکٹر جارج الیگزینڈر موتھوت کا کہنا ہے کہ ’چھوٹی کمپنیاں ہمارے پاس آرہی ہیں کیونکہ بینک کے قرضوں میں وقت لگے گا۔ انھیں کم مدتی کاروباری سرمایے کی ضرورت ہے کیونکہ لاک ڈاؤن نے ادائیگی کے تمام سلسلے موخر کردیے ہیں۔‘

یہاں تک کہ باقاعدہ بینک جو سونے کے قرضوں میں مہارت رکھتے ہیں وہ اس موقع کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ فیڈرل بینک اور انڈین بینک میں بنیادی طور پر چھوٹے شہروں اور قصبوں میں سونے کے قرضوں کی طلب میں دس گنا اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اور ماہرین نے پیش گوئی کی ہے کہ سونے کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی سونے کے قرضوں میں بھی اضافہ ہوتا رہے گا۔ مارچ میں لاک ڈاؤن سے پہلے یہ قیمت 38 ڈالر فی گرام تھی ابھی یہ فی گرام 44 ڈالر کے قریب ہے۔ لہذا سونے کے قرض میں مارچ سے اب تک سات ڈالر فی گرام اضافہ ہوا ہے۔

ورلڈ گولڈ کونسل میں انڈیا کے مینیجنگ ڈائریکٹر سوماسندرم پی آر کہتے ہیں: ’سونے کی زیادہ قیمتیں قرض لینے اور دینے والوں دونوں کو خوش کرتی ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32508 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp