امجد محمود چشتی کی کتاب ”سیاست کا جغرافیہ“ اور اینیمل فارم


پاکستان کی قومی سیاست کو ضابطہ تحریر میں لاؤ یا عالمی حالات حاضرہ کو زیر بحث، عموماً دونوں پر ہی دل جلتا ہے چنانچہ اس بار یہ طے کیا کہ جی چاہے جلے مگر جلانا نا تو سیاست کی ستم ظریفیوں پر ہے نہ ہی عالمی منظر نامے کی چیرہ دستیاں اس کا سبب بننا چاہیے۔ ادب اور وہ بھی عالمی ادب زمانہ طالب علمی سے ہی اس طالب علم کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ دل تو اس کو بھی پڑھ کر بسا اوقات بہت جلتا ہے لیکن فکشن کا تصور کر کے جی ہلکا بھی ہوجاتا ہے۔

جی ہلکا کرنے کے لیے سوچا کہ کچھ طنز و مزاح کی ورق گردانی سے ابتدا کی جائے سامنے میز پر امجد محمود چشتی کی طنز و مزاح کی کتاب ”سیاست کا جغرافیہ“ دھری تھی۔ سو اس کی ورق گردانی کرنے لگا اور ورق گردانی کرتے ہوئے جارج آرویل کے شہرہ آفاق ناول ”Animal Farm“ کے تذکرے پر نظر پڑی اور ٹھہر گیا۔ کیا خوبصورت حوالہ دیا زمانہ طالب علمی میں جب لائبریریاں چھانتا پھرتا تھا اس ناول کا مطالعہ کیا اور بلاشبہ اس طنزیہ ناول کے اثرات اور اس کے نتائج آج بھی قلب و دماغ پر اپنا اثر رکھتے ہیں۔

جارج آرویل ایک معروف ناول نویس تھے۔ سوشلسٹ خیالات کے حامی تھے مگر اندھے حامی نہ تھے۔ اسپین کی سول وار کے ان کے ذہن پر گہرے اثرات تھے۔ اس ناول کو تخلیق کرتے ہوئے ان کے ذہن میں روس میں برپا 1917 کا کمیونسٹ انقلاب اور اس کے بعد کے حالات تھے۔ اسٹالن کے عہد کو وہ سوشلزم کے لیے ایک گالی تصور کرتا تھا جب دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں یہ یہ ناول تخلیق ہوا تو اس وقت نازی جرمنی اپنے کل پرزے مکمل طور پر نکال چکا تھا اور اس کی روک تھام کی غرض سے برطانیہ اور سوویت روس ایک پیج پر تھے ایک پیج پر ہونے کے کیا اثرات ہوتے ہیں یہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں بہرحال جب کوئی ایک پیج پر ہوتا ہے تو جو اس کو ایک پیج پر لایا ہوتا ہے وہ صفحہ پھٹنے تک ایک دوسرے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے ہے اور اس وقت کا برطانوی میڈیا یہی کردار ادا کر رہا تھا۔

جب میڈیا کو مثبت خبریں دکھانے کا حکم ہو تو ایسی صورت میں جس کے لیے مثبت خبریں دکھانے کی فرمائش کی جا رہی ہوتی ہے اس کے حوالے سے پسینے کو بھی عطر ہی ثابت کیا جا رہا ہوتا ہے اور گو کے تذکرے پر پابندی ہوتی ہے۔ لہذا کسی پبلشر نے بھی اس ناول کو چھاپنے کی حامی نہیں بھری لیکن وقت سدا ایک سا نہیں رہتا صفحہ پھٹ گیا اور 1945 میں اس ناول کو چھاپنے کے لیے ایک پبلشر نے حامی بھر لی اور اس وقت سے آج تک مستقل اس کے ایڈیشن پر ایڈیشن آ رہے ہیں ہیں اور جو صفحہ پھٹا تھا وہ پھر کبھی جڑ نہ سکا۔

بہرحال اس ناول نے دنیا کو کسی قسم کی ایسی تبدیلی یا انقلاب کی حقیقی صورتحال دکھا دیں جس سے نفرت کرنے اور اپنے آپ کو تنہا ایماندار اور حکمرانی رکھنے والا سمجھ آ جائے اب یہ کوئی ایک فرد ہو یا مختلف افراد کا گروہ معاملہ سب کا ایک سا ہی ہوتا ہے۔ ابتدا میں امجد محمود چشتی کی کتاب ”سیاست کا جغرافیہ“ میں سے خوبصورت حوالے کا تذکرہ کیا تھا سو وہ نذر قارئین ہے۔ ”جونز نامی شخص نے ہر قسم کے جانوروں پر مشتمل ایک فارم بنایا۔

جس میں گھوڑے گدھے مرغیاں بطخیں بندر بھیڑیں بکریاں اور اونٹ سب شامل تھے ایک دن بوڑھے پگ ”old major“ نے سب جانوروں کو اکٹھا کر کے خطاب کیا کہ انسان صدیوں سے ہمارا استحصال کر رہا ہے ہم سے فائدہ اٹھاتا ہے اور ہماری زندگی موت کا بھی مالک ہے ہمیں اس سے آزادی حاصل کرنی چاہیے سب نے اتفاق کیا جدوجہد کی اور جنگ آزادی جیت لی۔ نپولین نامی پگ سربراہ بنا اور انصرام ریاست چلانے لگا ایک مشترکہ منشور مرتب ہوا اس کا لب لباب یہ تھا کہ 1 : تمام جانور برابر ہے 2 : کوئی جانور کسی کو قتل نہیں کرے گا 3 : کوئی جانور شراب نہیں پئے گا 4 : کوئی جانور بیڈ پر نہیں سوئے گا 5 : دو ٹانگوں والے انسان برے ہیں وغیرہ۔

وقت گزرتا گیا اور ریاستی امور میں عملی شمولیت پر فطری مسائل آشکار ہونے لگے برابری کے دعوے دار جانور حکمرانوں کے سر پر چڑھنے لگے تو منشور کی پہلی شق میں یوں بدلاو ہوا ”سب جانور برابر ہے مگر کچھ اہم ہیں“ اب قائدین کی راہ میں حائل ہونے والے عناصر کے سدباب کے لیے نظریہ ضرورت نے کام دکھایا اور دوسری شق میں نظرثانی ہوئی کہ ”کوئی جانور بغیر کسی وجہ کے کسی کو قتل نہیں کرے گا“ پھر جب معاملات سے ریاست مزید پڑھیں تو حکمرانوں کی ٹینشن میں ایکسٹینشن ہونے لگی جس کے مداوے کے طور پر مے نوشی مجبوری بنی تو تیسری شق ایسے بدلی ”کہ کوئی جانور زیادہ شراب نہیں پئے گا“ اقتدار کے نشے میں ارباب اختیار کا ہیلی اور نا اہلی کا شکار ہونے لگے اور آرام پرستی کو اس انداز میں تحفظ دیا کہ ”کوئی جانور شیٹ سمیت بیڈ پر نہیں سوئے گا“ اور اس طرح چار ٹانگوں والوں کو حقیر اور فسادی کہا جانے لگا۔

اقتباس تو یہاں ختم ہو گیا لیکن خیال رہے کہ نپولین پگ کا ایک ساتھی سنوبال بھی تھا دونوں نے اختیارات بانٹ لیے تھے جب سنو بال نے نپولین پر تنقید شروع کی تو نپولین نے کچھ کتے پالے ہوئے تھے جو کسی کے علم میں نہیں تھے وہ ایک دن سنو بال پر چھوڑ دیے وہ بہت مشکل سے جان بچا کر بھاگ سکا۔ جو اختلاف کرتا حالانکہ انقلاب کا ساتھی ہوتا اور بلاشبہ قوم کا مخلص ہوتا مگر غدار قرار دے کر سزائے موت سے ہمکنار کر دیا جاتا۔

نپولین پگ اب سپریم لیڈر قرار پا چکا تھا۔ آپ مہاتما ایمانداری و حب الوطنی تصور کرلو۔ لیکن اس سب کے سبب سے فارم تباہ ہو چکا تھا جانور جو اپنی فطری زندگی جونز کے فارم میں گزار رہے تھے اس سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ فارم کی تباہ حالی کی وجہ صرف جونز سے نفرت تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے جونز سے جان چھڑانی ہے آخر کو وہ انسان ہے اور ہم جانور ہے۔ آخر میں اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے نپولین نے ان انسانوں سے ہاتھ ملا لیا جو حقیقت میں فارم کے دشمن اور اس پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ نپولین اور ان میں بھی تو تکار ہو گئی اور فارم اپنی خودمختاری تک کھو بیٹھا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments