عوامی انگوٹھوں سے منتخب شدہ حکومت اور پھوکی اپوزیشن


پٹرول کی قیمت بڑھے یا چینی آٹے کی قلت ہو، کراچی کے سڑکیں تالاب بن جائیں یا لاہور کی سڑکیں کوڑے کے انبار۔ اپوزیشن سمیت میڈیا اور عوام حکومت وقت کو ہی کوستی ہے۔ جسے کوسنے والی عوام خود اپنے انگوٹھوں سے منتخب کر کے اقتدار میں لاتی ہے۔

تاہم اگر سوچا جائے اور سوچ کر ان انگوٹھوں کی طرف دیکھا جائے۔ جن کے استعمال سے نہ صرف حکومت بلکہ اپوزیشن بھی منتخب کی جاتی ہے۔ تو معاشرتی علوم کی کتابوں پر یقین کرنے والی عوام کو سمجھ آئے گا کہ منتخب کردہ حکومت تو نا اہل ہے ہی، منتخب کردہ اپوزیشن بھی حکومت سے کم نہیں ہے۔ جو اس قابل بھی نہیں کہ متحد ہو کر حکومت کو ٹاکرا دے سکے۔

سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ پاکستان میں آج تک کوئی ایسی حکومت بر سر اقتدار آئی ہی نہیں۔ جس سے عوام خوش ہوئی ہو۔ لیکن ہر حکومت کے جانے کے بعد عوام کو جانے والی حکومت، برسر اقتدار حکومت سے بہتر لگتی ہے اور المیہ یہ ہے کہ آج بھی عوام حکومت وقت کو گالیاں دے رہی ہے اور جانے والی حکومتوں کی مثالیں۔

جولائی 2018 میں ہونے والے عام انتخابات سے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ حکومت منتخب کرنے والے جس کو بھی منتخب کریں، عوام تو خوش ہونے والی نہیں۔ چاہے وہ ماضی میں برسراقتدار رہنے والی جماعتیں ہوں یا استعمال شدہ پرزوں کو جوڑ کر ایک نئے لیڈر کے زیر قیادت بنائی گئی جماعت کی حکومت۔

پاکستان کے حالات اب یہ ہوچکے ہیں کہ اگر منتخب کرنے والے پاکستان مسلم لیگ نواز یا پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی منتخب کرتے تو ان سے بھی عوام نے خوش نہیں ہونا تھا اور اس بار چونکہ منتخب کرنے والوں نے ذرا ہٹ کر نئے لیڈر کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ تو نتائج بھی ہٹ کر ہی آرہے ہیں۔

پاکستان کی انتخابی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ پاکستان میں انتخابات کے ذریعے صرف حکومت نہیں منتخب کی جاتی۔ بلکہ پارلیمان میں منتخب شدہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے اپوزیشن بھی منتخب کی جاتی ہے۔ بلکہ یوں کہہ لیں کہ پاکستان میں انتخابات ہوتے ہی اپوزیشن کے انتخاب کے لیے ہیں۔ کیونکہ حکومت تو انتخابات سے پہلے ہی منتخب کر لی گئی ہوتی ہے۔

اس بار منتخب کرنے والوں کی سیلیکشن کا اندازہ اس سے لگائیں کہ انہوں نے اس بار اپوزیشن بھی ایسی پھوکی چنی ہے کہ عوام کو سمجھ نہیں آ رہی کہ منتخب کی جانے والی حکومت کو کوسیں یا منتخب کردہ اپوزیشن کو۔ جو بظاہر تو عوام کی سگی بنتی ہے۔ مگر پس پردہ حکومتی پیش کردہ بلز کی سینیٹ میں منظوری دیتی ہے۔

پاکستان میں ہونے والے انتخابات دیکھ کر لگتا ہے کہ سیلیکٹ کرنے والے اپنی خواہشات، ضروریات اور مفادات سے متعلق کی جانے والی قانون سازی کرانے کے لیے ایسی اپوزیشن چنتی ہے۔ جس کے ذاتی مفادات کو پورہ کرنے کے بدلے ان کی پارلیمان میں حمایت حاصل کی جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اکثریت چاہے برسر اقتدار جماعت کی ہو یا برسر اپوزیشن جماعتوں کی۔ قانون سازی ہو جاتی ہے۔ جس کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نورا کشتی دوبارہ سے شروع ہو جاتی ہے۔

دوسری طرف دنیا میں ہونے والی ترقی اور جدید تقاضوں کو دیکھتے ہوئے رواں صدی کے آغاز میں نئی جماعت بنانے کے تجربے کو اس بار بھی آزمایا گیا۔ فرق صرف یہ تھا کہ مذکورہ جماعت کا سربراہ پہلے سے منتخب شدہ تھا۔ بس حسب ضرورت اس کی جماعت میں عوامی انگوٹھوں سے منتخب ہونے والے منتخب کر لیے گئے۔ جن کی اکثریت کو ماضی میں بھی منتخب کیا جاتا رہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے دو سال مکمل ہونے کے بعد بس ہم پاکستانیوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان میں انتخابات کے ذریعے حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن منتخب کی جاتی ہے اور وہ بھی یہ لالچ دے کر کہ اگلی باری آپ کی۔ اس طرح پاکستان میں جمہوریت کا غیر متزلزل سلسلہ سنہ 2002 سے چل رہا ہے۔ جو کہ بنیادی طور پر ایک ڈکٹیٹر کی طرف سے شروع کیا گیا تھا۔ جس نے مجبوراً اپنی وردی اتاری اور وردی اترتے ہی وہ عہد صدارت سے بھی اتر گئے۔

نئی صدی کے آغاز میں پاکستان میں جمہوریت کی داغ بیل رکھے جانے سے متعلق جن لوگوں کو ایک ڈکٹیٹر کی سربراہی میں انتخابات کے ذریعے تشکیل شدہ حکومت کے جمہوری ہونے پر اعتراض ہے۔ وہ سنہ 2018 میں نئی حکومت کی تشکیل پر بھی ذرا سوچیں۔ کیونکہ سنہ 2002 میں تو پھر بھی ایک باوردی ڈکٹیٹر نے انتخابات کرائے تھے۔ جس کے نتائج سنہ 2018 میں ہونے والے انتخابات کی طرح عوام کو پہلے سے ہی معلوم تھے۔ فرق اس بار صرف اتنا تھا کہ اس بار کوئی باوردی ڈکٹیٹر ایوان صدر میں براجمان نہیں تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments