کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں


میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں
میرے شہر جل رہے ہیں میرے لوگ مر رہے ہیں

کوئی غنچہ ہو کہ گل ہو کوئی شاخ ہو شجر ہو
وہ ہوائے گلستاں ہے کہ سبھی بکھر رہے ہیں

کبھی رحمتیں تھیں نازل اسی خطۂ زمیں پر
وہی خطۂ زمیں ہے کہ عذاب اتر رہے ہیں

عبیداللہ علیم نے شاید آج ہی کے حالات کے لیے یہ نظم لکھی تھی جب عمران خان صاحب کی حکومت اپنے اقتدار کے دو سال پورے کرنے کو ہے اور وہ خطۂ زمیں جہاں حالات مشکل ضرور تھے مگر الم اتنے بھی نہ تھے کہ ہر خاص و عام صرف دو سال میں ہی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی حکومت کے خاتمے کے لیے اوپر والے کی جانب دیکھا شروع کردیں۔

وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے محض دو سال میں پاکستان کے حالات اس نہج پہ لا کھڑے کیے ہیں کہ لوگ بھوک بدحالی سے خودکشیاں کرنے پہ مجبور ہو گئے ہیں پچھلے دنوں جب سوشل میڈیا پہ نارووال کے علاقے ظفر وال میں ایک مزدور اور اس کے تین بچوں کی بھوک کے ہاتھوں مجبور ہو کر خودکشی کرنے کی تصاویر وائرل ہوئیں جس میں مزدور جان کی بازی ہار گیا جبکہ بچے بچا لیے گئے تو دل جیسے دہل کے رہ گیا۔ نجانے کیوں ہم من حیث القوم بے حسی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں، امریکہ میں جارج فلائیڈ کی موت نے ساری امریکن قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور پورا امریکہ نسل پرستی کے خلاف متحد ہوکے کھڑا ہو گیا اور حکومت کو اپنے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، مگر ہماری قوم شاید کسی بہت ہی بڑے سانحے کے انتظار میں ہے جب وہ اپنے حقوق اپنے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتیوں اور نا انصافیوں کے خلاف کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہو کر فسطائیت اور رجعت پسند حاکمیت کے خلاف صدائے حق بلند کرے گی۔

وزیراعظم عمران خان صاحب نے فرمایا تھا کہ جب ڈالر پہ ایک روپیہ بڑھتا ہے تو سمجھ لو کہ آپ کا وزیراعظم چور ہے، آج الحمدللہ ان کے برسر اقتدار آنے کے بعد ڈالر کے ریٹ میں 45 روپے کا اضافہ ہو چکا ہے لیکن پھر بھی وزیراعظم نہ چور ہیں نہ ڈاکو بلکہ صادق و امین ہیں، وہ فرماتے تھے کہ پیٹرول چالیس سے پینتالیس روپے کا ہونا چاہیے آج خدا کا شکر ہے کہ ان کی حکومت میں پیٹرول دوگنی سے بھی زیادہ قیمت میں عوام کو دے رہی مگر وزیراعظم کو سلام ہے کہ وہ آج بھی خطے کے دیگر ممالک سے کم قیمت میں پیٹرول فراہم کر کے عوام پہ احسان عظیم کر رہے ہیں۔ عمران خان نے حکومت سنبھالی تو چینی 52 روپے کلو تھی آج دو سال میں خیر سے سینچری مکمل کر کے خان صاحب کے نوٹس کی لاج رکھ چکی ہے، آٹا تیس روپے کلو ملتا تھا مگر چینی کی ضد میں آٹے نے بھی اڑان بھرنے کی ٹھانی اور آج خان صاحب کے سرٹیفائیڈ صداقت و امانت کی مرہون منت ستر سے پچھتر روپے کی حد کو چھونے لگا ہے۔

خان صاحب کے دور حکومت میں بجلی، گیس سمیت اشیاء ضروریہ کی قیمتیں بار بار کئی بار بڑھائی گئیں، خان صاحب نوٹس پہ نوٹس لے کر قیمتوں میں مزید اضافے کا سبب بنتے گئے، ادویات جو نہ غریب دیکھتی ہیں نہ امیر اس قدرتی آفت اور مسلط کی گئی بیماری میں سب کی ضرورت ہیں ڈھائی سؤ فیصد مہنگی ہو چکی ہیں، نیند کی گولی زینیکس جو 570 میں تیس گولیوں کا پیکٹ ملتا تھا آج 2550 روپے کا ہو گیا اور وہ بھی نایاب ہو کر کہہ رہا ہے کہ کوئی پوچھے کہ اتنا مہنگا کیوں ہوا تو کہنا کہ خان آیا تھا۔ خان صاحب نے فرمایا تھا کہ کسی مافیا کسی ذخیرہ اندوز کو نہیں چھوڑیں گے، چینی مافیا اور گندم مافیا کے خلاف اتنے سخت اقدامات اٹھائے گئے کہ شاید ملکی تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے کہ اتنی سخت کارروائی کے بعد دونوں اشیاء کی قیمتوں کو پر لگ گئے مافیاز کو خود سرکاری پروٹوکول میں ملک سے باہر بھیج دیا گیا اور سخت نوٹس کا یہ حال ہوا کہ آج چینی اور گندم پیدا کرنے والا پاکستان لاکھوں ٹن گندم اور چینی برآمد کرنے جا رہا ہے۔

عمران خان ماشاءاللہ اپنے فرمودات اور منشور کے مطابق پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں انہوں فرمایا تھا کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا، میں رلاؤں گا ان سب کو اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ خان صاحب اپنے وعدے کے کتنے پکے نکلے کہ کسی کو بھی نہ چھوڑا دیہاڑی دار مزدور سے لے کر سرکاری ملازم، بیوروکریسی سے لے کر تاجر صنعت کار ہر امیر غریب سارے ملک ساری قوم کو صرف دو سال میں ہی خون کی آنسو رلایا ہے۔ خان صاحب کے دعوؤں اور وعدوں کی تکمیل کی رفتار اگر یہی رہی تو یقیناً پاکستان کی تیزی سے بڑھتی آبادی میں بھی نہ صرف روک لگ جائے گی بلکہ کم ہونا بھی شروع ہو جائے گی اور جب آبادی کم ہو جائے گی تو خوراک کی کمی جیسے مسائل بھی پیدا نہیں ہوں گے اور سب کو وافر مقدار میں اشیاء خورد و نوش میسر آ سکیں گی اس وقت پیداوار اور طلب میں واضح فرق کی وجہ سے سب چیزیں دباؤ کا شکار ہیں اس لیے قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔

عبیداللہ علیم نے اسی خطے کے لیے کہا تھا کہ اس خطے پہ چور حاکم تھے سارے کے سارے کرپٹ تھے منی لانڈرنگ کر کے دولت باہر بھیج رہے تھے مگر ڈالر اپنی حد میں تھا مہنگائی کنٹرول میں ہر خاص و عام اپنے بچوں کا گزر بسر کر رہا تھا خطہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے سائے میں تھا مگر جیسے ہی فرشتے اترے اسی خطۂ زمیں پہ تو خطے کے رنج و الم بھی بڑھ گئے اور خطہ عذاب لگنے لگا، خان صاحب نے سارے چور ڈاکو نیب کے ذریعے جیلوں میں ڈالے ہوئے ہیں یا پھر ان پہ مقدمے بنوا کر انہیں انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا ہوا ہے مگر ان چوروں ڈاکوؤں کے ساتھ جو لوٹ مار میں ملوث تھے سارے کے سارے اپنے ہم رکاب بنا لیے ۔ دس ارب روز ہونے والے کرپشن ختم کردی، آٹھ ہزار ارب ٹیکس بھی اکٹھا کر کے خزانے میں جمع کروایا، نیب کے ذریعے لوٹے گئے کھربوں روپے بھی واپس لے کر خزانے میں جمع کروا دیے، ملک پہ قرضوں کے بوجھ میں پانچ ہزار ارب واپس کر کے کمی کر دی، مگر ان سب اقدامات کے باوجود الم ہیں کہ کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ عبیداللہ علیم نے نجانے کس بات کو مد نظر رکھ کر یہ غزل لکھی تھی مگر ان کی یہ خوبصورت غزل خان صاحب کی مثالی طرز حکمرانی کی عکاسی کرتی ہے اس لیے ان کی غزل کے آخری اشعار پہ اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ!

وہی طائروں کے جھرمٹ جو ہوا میں جھولتے تھے
وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں

بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں

کوئی اور تو نہیں ہے پس خنجر آزمائی
ہم ہی قتل ہو رہے ہیں ہم ہی قتل کر رہے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments