اسلامی تحریک – اصلاح


اسلامی تاریخ کے مختلف ادوار میں اصلاحی تحریکیں وجود میں آتی رہی ہیں۔ مسلمان عمومی طور پر یقین کے ساتھ توقعات رکھتے ہیں کہ ہر صدی میں ایک یا ایک سے زیادہ مصلح پیدا ہوتے رہے ہیں اور عملی طور پر یہ صرف اور صرف اصلاحی تحریکیں رہی ہیں۔ اس لیے اصلاح، مصلح، اصلاحی تحریکوں جیسے الفاظ سے مسلمانوں کے کان مانوس ہیں۔

اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکوں کا بغور مطالعہ اور ان کا عملی تجزیہ معاشرے کے سنجیدہ اور علم دوست افراد کے لیے مفید اور قوی ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ تمام تحریکیں جن کا مقصد اصلاح ہو، ایک ہی طرح کی نہیں رہی ہیں، بعض ایسی تھیں جن کا بنیادی مقصد اصلاح تھا اور اس طرح وہ قدرتی طور پر اصلاحی تھیں۔ کچھ ایسی تھیں جنہوں نے اصلاح لانے کی آڑ میں فساد برپا کیا۔ اور کچھ ایسی بھی تھیں جو شروع میں اصلاحی پہلو لے کر ابھریں لیکن بعد میں اپنے راستے سے بھٹک گئیں۔

اصلاح کا مطلب نظم و باقاعدگی پیدا کرنا ہے جس کا متضاد فساد ہے۔ اصلاح و فساد جیسے متضاد الفاظ کے جوڑوں کا ذکر کثرت کے ساتھ قرآن مجید میں بیان ہوا ہے جیسے توحید و شرک، ایمان و کفر، اتحاد و تفرقہ، تقوی و فجور، وغیرہ۔ یہ متضاد اصطلاحیں از جملہ اصلاح و فساد ایک دوسرے کا مفہوم سمجھنے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

قرآن نے پیغمبروں کو بھی مصلح قرار دیا ہے، جیسا کہ حضرت شعیبؑ نے فرمایا

” میں اپنی استطاعت کے آخری امکان تک صرف اصلاح کرنا چاہتا ہوں۔ میری کامیابی صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، میں صرف اسی پر بھروسا کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں“ (سورہ ہود 88 )

اس کے برعکس قرآن منافقانہ مصلحتوں کی سختی سے سرزنش کرتا ہے۔ جیسا کہ سورہ بقرہ آیت 11 میں بیان ہوا ہے کہ:

” اگر ان کو کہا جائے کی زمین پر فساد نہ پھیلاؤ تو کہتے ہیں کہ وہ تو صرف اصلاح کر رہے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں، وہ تو زمین پر فساد پھیلا رہے ہیں، لیکن وہ اس کا شعور نہیں رکھتے“

قرآن میں اصلاح کی چاہت پیغمبری کا جزو قرار دی گئی ہے اور اس کی اہمیت ”امر بالمعروف و نہی عن المنکر“ جیسی ہے جو کہ اسلام کی اجتماعی تعلیمات کا اہم ترین رکن ہے۔ یہ امر قابل ستائش و تحسین ہے کہ موجودہ نسل بالخصوص جوانوں کے اندر اجتماعی تحریک اور اصلاح کو سمجھنے کا احساس پیدا ہو رہا ہے لیکن اس رجحان میں افراط اور بے اعتدالی پیدا ہو گئی ہے۔ وہ اس طرح کہ ہر خدمت کو اجتماعی اصلاح کے زمرہ میں پرکھا جاتا ہے۔ اجتماعی اصلاح یقیناً معاشرے کی خدمت ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر خدمت اجتماعی اصلاح ہو۔ کرونا وائرس کا علاج خدمت تو ہے اصلاح نہیں ہے، اسی طرح جو ڈاکٹر صبح سے شام تک مریضوں کا علاج کرتا ہے، اس نے اجتماعی خدمت تو کی ہے لیکن اجتماعی اصلاح نہیں کی کیونکہ اجتماعی اصلاح کے لیے معاشرے کو ایک خاص سمت میں موڑنا ڈاکٹر کے بس میں نہیں ہے۔ ان کی یہ خدمت گو کہ اجتماعی اصلاح کے زمرے میں نہیں آتی لیکن اس کو کوئی اہمیت نہ دینا قطعاً ًدرست نہیں ہے۔ تاریخ بھر میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں جہاں لوگوں نے اپنی نیک اور مثالی زندگی میں ناقابل فراموش خدمات انجام دی ہیں لیکن انہوں نے معاشرے کی اصلاح کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

امام حسینؑ نے اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کے نام وصیت میں اپنی اجتماعی اصلاحی و انقلابی تحریک کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا

”میرا مقصد ذاتی مفاد اور ظلم و فساد برپا کرنا نہیں بلکہ میں نے اپنے جد امجد کی امت کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہے، میرا ارادہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرنا اور میرا مقصد اپنے والد اور نانا کی سیرت پر چلنا ہے“

اسی طرح تاریخ میں کچھ اسلامی تحریکیں فکری تھیں اور کچھ اجتماعی جبکہ بعض اسلامی تحریکیں دونوں فکری اور اجتماعی پہلو اپنے اندر رکھتی تھیں۔ ان تمام عملی یا فکری تحریکوں کے عمیق مطالعہ، تجزیہ اور وسیع تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ مملکت خداداد پاکستان کے اندر بارہا اسلامی تحریک یا اصلاح معاشرہ کے نام پر فعالیت شروع کی جاتی رہی ہے جب کہ عوام کی اکثریت تحریک، انقلاب، نہضت اور اجتماعی اصلاح جیسے بنیادی نظریات سے ناآشنا ہیں۔

طاغوتی عناصر جب کسی بھی انقلابی تفکر یا نظام کو منحرف کرنے کی ٹھان لیتے ہیں تو اس کے اندر موجود انقلابی و اصلاحی روح کو ایسی آفات سے دوچار کر دیتے ہیں جس سے یہ تحریک و نہضت یا تو راستے میں ہی دم توڑ جاتی ہے یا انحراف کا شکار ہو کر اپنے حقیقی مقصد سے کوسوں دور چلی جاتی ہے۔ لہذا بالعموم تمام افراد اور بالخصوص نوجوان نسل کا ان بنیادی و اہم موضوعات کو سمجھنا لازمی ہے جیسا کہ شہید مرتضی مطہری نے فرمایا:

”میں اپنا اولین فریضہ سمجھتا ہوں کہ اسلامی تحریک کے بڑے بڑے رہنماؤں کہ جن کی میری نظر میں بہت قدر و منزلت ہے، کو آگاہ کر دوں کہ وہ بیرونی نظریات پر اسلامی فکر کی مہر ثابت کر کے ارادی یا غیر ارادی طور پر اس کا پرچار کر رہے ہیں اور یہ بات اسلام کی بنیادوں کے لیے بہت ہی خطرناک ہے۔ یہ یقینی بات ہے کہ اگر ہم نے پاک و صاف پانی جمع کیا ہوتا تو لوگ آج گندے پانی سے خود کو سیراب نہ کرتے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم اسلامی مکتب کے نظریات کو آج کی زبان میں متعارف کروائیں۔ ہمارے دینی رہنماؤں کو ان عظیم تعلیمی اور فکری ذمہ داریوں سے آگاہ ہونا چاہیے جو ان کے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں۔ وہ صرف فقہ اور بنیادی امور تک خود کو محدود نہ رکھیں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ دور جدید کے جوانوں کی ضروریات کو پورا نہ کر سکیں گے“

(اسلامی تحریک کے عنوان سے یہ سلسلہ تحریر آئندہ اقساط میں اس موضوع کے دیگر پہلوؤں کو بیان کرے گا)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments