کوئٹہ میں عید پر لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ: ’بیٹے کی واپسی چاہتے ہو تو بیٹی سے کہو مظاہروں سے دور رہے‘


بلوچستان

جہانزیب قمبرانی کی والدہ ہر عید پر اپنے بیٹے کے لیے نئے کپڑے سلوانے کے علاوہ جوتے بھی بنواتی ہیں۔

وہ ایسا اس لیے کرتی ہیں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جہانزیب عید کے روز اچانک گھر آئیں تو انھیں نئے کپڑوں اور جوتوں کے بغیر یہ تہوار منانا پڑے۔

جہانزیب قمبرانی کا تعلق کوئٹہ کے علاقے سریاب سے ہے اور وہ گذشتہ چار سال سے لاپتہ ہیں۔ جہانزیب کی والدہ کے مطابق ان کے بیٹے کو جبری طور پر لے جایا گیا ہے۔

بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت میں اب ہر عید پر لاپتہ افراد کی باحفاظت بازیابی کے مطالبے کے ساتھ مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

رواں عید الفطر کے موقع پر بھی مظاہرین پریس کلب کے باہر جمع ہوئے تھے اور اپنے پیاروں کی واپسی کے لیے ہڑتالی کیمپ میں شرکت کی تھی۔

پاکستان میں گمشدہ افراد کے حوالے سے مزید پڑھیے

بلوچستان کے مڈل کلاس طلبہ جو آزادی کی خاطر لڑ رہے ہیں

پاکستان میں انسانی حقوق کی پوشیدہ خلاف ورزیاں

ادریس خٹک: ’میرے والد کو اغوا کیا گیا اور مجھے نہیں پتہ کیوں؟‘

’واپس آنے والے اسی حکومت میں لاپتہ ہوئے‘

کوئٹہ میں عید پر لاپتہ افراد کی بازیانی کا مطالبہ

جہانزیب قمبرانی کی مبینہ گمشدگی اور والدہ کا مطالبہ

عید کے پہلے روز جب لاپتہ افراد کے رشتہ داروں نے کوئٹہ شہر میں اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے مظاہرہ کیا تو جہانزیب کی والدہ بھی بیٹے کے عید کے کپڑوں اور جوتوں کے ساتھ اس مظاہرے میں شریک ہوئیں۔

’جہانزیب کے لاپتہ ہونے کے بعد ہر عید پر نئے جوتے اور کپڑے اس امید کے ساتھ بنواتی ہوں کہ وہ آئے گا تو عید کے لیے ان کے نئے کپڑے اور جوتے تیار ہوں۔‘

انھوں نے بتایا کہ جب عید کے دن گزر جاتے ہیں اور بیٹا نہیں آتا تو وہ ان کے نئے کپڑے اور جوتے کسی مستحق شخص کو دے دیتی ہیں تاکہ وہ ان کی بازیابی کے لیے دعا کرے۔

بلوچستان، جہانزیب قمبرانی

جہانزیب قمبرانی کی والدہ

’بیٹے کی بازیابی چاہتے ہو تو بیٹی سے کہو وہ احتجاجی مظاہروں سے دور رہے‘

بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز گذشتہ کئی سال سے ہر عید پر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہروں کا اہتمام کرتی ہے۔

اس احتجاج میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق کوئٹہ شہر سے ہوتا ہے لیکن اس عید الاضحیٰ پرکوئٹہ شہر سے بہت دور آواران سے سیما بلوچ بھی اپنے چھوٹے بچے اور بھابی کے ساتھ اس مظاہرے میں شرکت کے لیے آئی تھیں۔

وہ طالب علم رہنما شبیر بلوچ کی بہن ہیں جنھیں چار سال قبل بلوچستان کے ضلع کیچ سے سیما بلوچ کے مطابق جبری طور پر لاپتہ کیا گیا تھا۔

سنہ 2019 کے آخر میں وہ پہلی مرتبہ اپنی بھابی کے ہمراہ 600 کلو میٹر دور آواران سے اپنے بھائی کی بازیابی کے لیے علامتی بھوک ہڑتال کے لیے کوئٹہ آئی تھیں۔

ان کی بھوک ہڑتال کے بعد کوئٹہ شہر میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ میں خواتین کی شرکت میں اضافہ ہونے لگا۔

سیما بلوچ بتاتی ہیں ’سرکاری حکام نے میری والدہ کو فون کر کے بتایا تھا کہ اگر اپنے بیٹے کی بازیابی چاہتے ہو تو اپنی بیٹی کو کہو وہ احتجاجی مظاہروں اور پروگراموں سے دور رہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس فون کے بعد میں نے ڈیڑھ سال تک کسی احتجاجی پروگرام میں شرکت نہیں کی لیکن بھائی پھر بھی بازیاب نہیں ہوئے۔

سیما بلوچ نے بتایا کہ جب کسی گھر کا کوئی شخص لاپتہ ہو تو اس کی خوشیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ اس لیے وہ گھر پر عید منانے کی بجائے کوئٹہ آئی تاکہ یہاں میڈیا کی ذریعے اپنی اور اپنے خاندان کے دکھ سے دنیا کو آگاہ کر سکیں۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج کرنے والوں میں کوئٹہ کے سریاب روڈ کے علاقے سے لاپتہ ہونے والے ایک اور نوجوان حسان بلوچ کی بہن بھی شریک تھیں۔

بلچستان

مظاہرے کے شرکا سے خطاب کے دوران حسان بلوچ کی بہن کی آنکھوں سے آنسو رواں رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے ایک بھائی کو پہلے لاپتہ کرنے کے بعد ان کی لاش پھینکی گئی اب دوسرے کو لاپتہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی نے اگر کوئی جرم کیا ہے تو ان کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ ’اگر لاپتہ کرنے والوں کو ان عدالتوں پر اعتماد نہیں ہے تو وہ اپنی عدالت بنا کر انھیں اس میں پیش کریں۔‘

مظاہرے میں ایک معذور نوجوان بیبرگ بلوچ بھی اپنے ویل چیئر پر شرکت کے لیے آئے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ اگرچہ ان کا کو کوئی رشتہ دار لاپتہ نہیں ہوا ہے لیکن وہ دوسرے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی دکھ میں شرکت کے لیے ایسے مظاہروں میں شرکت کرتے ہیں۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اب ہر عید پر احتجاج ان کا معمول بن گیا ہے کیونکہ نہ صرف لوگ لاپتہ کیے جا رہے ہیں بلکہ ان کو مبینہ طور پر حراست میں ہلاک کرکے ان کی لاشیں بھی پھینکی جاتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عید سے پہلے سے لاپتہ کیے جانے والے بگٹی قبیلے کے پانچ افراد کو ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاشیں پنجاب کے علاقے راجن پور میں پھینک دی گئیں۔

بلوچستان

تاہم ان پانچ افراد کی ہلاکت کے بارے میں انسداد دہشت گردی کے ادارے سی ٹی ڈی کا یہ موقف ہے کہ یہ پانچوں افراد عسکریت پسند تھے جو کہ ان کے ساتھ مسلح مقابلے میں مارے گئے۔

بلوچستان سے لوگوں کی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ 2000 کے بعد شروع ہوا تھا۔

لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم اور قوم پرست جماعتیں لوگوں کو ’جبری گمشدگی‘ کا نشانہ بنانے کا الزام ریاستی اداروں پر عائد کررہی ہیں لیکن سرکاری حکام اور محکمہ داخلہ کے حکام ایسے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے رہے ہیں۔

سرکاری حکام کا یہ موقف ہے کہ بعض عناصر لاپتہ افراد کے نام پر ملک اور ریاستی اداروں کو بدنام کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp