انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کھلے آسمان تلے حسین ’اوپن ایئر سکول‘ لاک ڈاؤن کا انوکھا توڑ


کشمیر، اوپن ایئر کلاسز، سکول، بچے

انڈیا کے کئی علاقوں میں عالمی وبا کے دوران سکولوں کی آن لائن کلاسز میں حاضری بچوں کے لیے ایک مشکل بن گئی ہے۔

سکولوں کو وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے باعث تاحال بند رکھا گیا ہے۔ صحافی عابد بھٹ بتاتے ہیں کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اس کا آسان مگر انوکھا حل نکال لیا گیا ہے۔

ہر صبح بڈگام ضلعے کے ایک گاؤں دودھ پتھری میں طلبہ نہریں اور پُل پار کرتے ہوئے اپنی کلاس میں پہنچتے ہیں اور اس کے لیے انھیں پہاڑوں پر بھی چڑھنا پڑتا ہے۔

شاید کسی بھی کلاس روم کے اردگرد کا منظر اتنا حسین نہ ہو جس میں پڑھتے ہوئے آپ کو سامنے ہمالیہ کی برف سے ڈھکی چوٹیاں نظر آئیں۔

کئی ماہ سے جاری لاک ڈاؤن اور وبا کے پھیلاؤ کے دوران کھلے آسمان تلے یہ کلاسز بچوں اور ان کے والدین کے لیے باعث سکون ہیں۔ یہاں اب تک کووڈ 19 سے 19 ہزار سے زیادہ متاثرین اور قریب 365 اموات ہوئی ہیں۔

مشتاق احمد کا بیٹا اس اوپن ایئر سکول میں پڑھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بہتر ہے کہ ہمارے بچے ایسے سکول جائیں بجائے یہ کہ وہ گھر میں بیزار رہیں اور تنگ آجائیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ حکام کو مقامی لوگوں کے ساتھ تعاون کر کے ایسے مزید سکول قائم کرنے چاہییں۔

یہ بھی پڑھیے

سری نگر کا وہ کرکٹ میچ جو کئی ماہ سے پھنسا ہوا ہے

کشمیریوں کے دل و دماغ پر چھائی مایوسی کی چادر

کشمیر کی تاریخی امرناتھ یاترا وبا کے باعث منسوخ

’کشمیر میں تو حکومت کو مُردوں سے بھی خطرہ محسوس ہوتا ہے‘

کشمیر، اوپن ایئر کلاسز، سکول، بچے

کئی ماہ سے جاری لاک ڈاؤن اور وبا کے پھیلاؤ کے دوران کھلے آسمان تلے یہ کلاسز بچوں اور ان کے والدین کے لیے باعث سکون ہیں۔ یہاں اب تک کووڈ 19 سے 19 ہزار سے زیادہ متاثرین اور قریب 365 اموات ہوئی ہیں

انڈیا کی حکومت کا اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کا معاملہ، اور وادی میں پُرتشدد واقعات کے باوجود یہ اپنی قدرتی خوبصورتی کے لیے ایک مشہور سیاحتی مقام ہے۔

دودھ پتھری کا مقام بھی ایک ہِل سٹیشن کا درجہ رکھتا ہے لیکن موسمِ گرما میں چونکہ سیاحوں کی آمد بحال نہیں ہو سکی اس لیے مقامی آبادی نے حکام سے کہا ہے کہ انھیں یہ دلفریب علاقے کسی اور مقصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔

کشمیر، اوپن ایئر کلاسز، سکول، بچے

مشتاق احمد کا بیٹا اس اوپن ایئر سکول میں پڑھتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘یہ بہتر ہے کہ ہمارے بچے ایسے سکول جائیں بجائے یہ کہ وہ گھر میں بیزار رہیں اور تنگ آجائیں۔’

رمضان وانی تعلیم کے لیے ایک مقامی افسر ہیں جنھوں نے یہ کمیونٹی سکول قائم کرنے میں مدد کی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ان کلاسز کو حفاظتی تدابیر مدنظر رکھتے ہوئے قائم کیا جاتا ہے۔‘

’اوپر کی جگہوں میں ناقابلِ پیشگوئی موسم کی بدولت ہم نے کوشش کی ہے کہ ٹینٹ لگا کر بغیر کسی رکاوٹ کلاسز جاری رہیں۔‘

کشمیر، اوپن ایئر کلاسز، سکول، بچے

نجی سکولوں میں بھی اس دوران معاشرے میں ڈیجیٹل تقسیم آن لائن کلاسز کے دوران مزید واضح ہو گئی ہے

انڈیا میں ایسے طلبہ جو دیہی علاقوں میں پڑھتے ہیں یا کم حکومتی فنڈنگ والے سکولوں میں جاتے ہیں انھیں کورونا کے بحران کے دوران آن لائن کلاسز لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہاں انٹرنیٹ تک رسائی اور ایک گھر میں سمارٹ فونز کی قلت جیسے مسائل عام ہیں۔

نجی سکولوں میں بھی اس دوران معاشرے میں ڈیجیٹل تقسیم آن لائن کلاسز کے دوران مزید واضح ہو گئی ہے۔

یعنی جن طلبہ کے پاس گھر میں لیپ ٹاپ، آئی پیڈ اور سمارٹ فونز جیسی کئی ڈیوائسز ہیں وہ ایسے لوگوں کے ساتھ برابری کی سطح پر نہیں جن کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں۔

تو دیہی کشمیر میں اوپن ایئر کلاسز کا راستہ بہترین رہا جس نے ان مشکلات سے نجات دلائی۔

کشمیر، اوپن ایئر کلاسز، سکول، بچے

اگست 2019 میں انڈیا کی وفاقی حکومت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی

یہاں ایک استاد جو رضاکارانہ طور پر پڑھا رہے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ’ان میں سے اکثر بچوں کا تعلق کشمیر کی گجر بکروال کمیونٹی سے ہے۔‘ گجر بکروال ایک خانہ بدوش قبیلہ ہے۔

’بچوں کی دلچسپی نے تمام مراحل کو آسان بنا دیا اور اسی نوعیت کی مانگ دوسرے علاقوں میں بھی پیدا کردی۔‘

یہ طریقہ اس لیے بھی سازگار ثابت ہوا ہے کیونکہ عالمی وبا کے آغاز سے قبل بھی یہ بچے سکول نہیں جا پا رہے تھے۔

اگست 2019 میں انڈیا کی وفاقی حکومت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی۔ آئین میں کشمیر کو دوسری ریاستوں کے مقابلے زیادہ خود مختاری حاصل تھی۔

اس اقدام سے دلی اور سرینگر میں کشیدگی بڑھ گئی۔

خصوصی حیثیت ختم ہونے کے دوران کشمیر میں مکمل لاک ڈاؤن رہا اور یہاں فون اور انٹرنیٹ کی سروسز بھی معطل رہیں۔ اب فون سروس تو بحال ہو چکی ہے لیکن اچھی رفتار کا انٹرنیٹ جیسے فور جی اب بھی معطل ہے۔

گذشتہ ایک سال سے اس مسلمان اکثریتی علاقے میں زندگی معمول کے مطابق نہیں۔

کشمیر، اوپن ایئر کلاسز، سکول، بچے

اساتذہ کا کہنا ہے کہ حکام باقاعدگی سے جائزہ لینے آتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کلاسز کو وہ تمام سہولیات فراہم کی جائیں جن کی انھیں ضرورت ہے

حکام کا کہنا ہے کہ اوپن ایئر سکولوں میں کووڈ 19 کے حوالے سے جاری کردہ تمام ایس او پیز پر عمل ہو رہا ہے، جیسے چہرے پر ماسک پہننا اور ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ رکھنا۔

اساتذہ کا کہنا ہے کہ حکام باقاعدگی سے جائزہ لینے آتے ہیں اور اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ کلاسز کو وہ تمام سہولیات فراہم کی جائیں جن کی انھیں ضرورت ہے۔

لیکن ایک خامی یہ ہے کہ بارش سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔

جب بادل گرجتے ہیں تو بچے محفوظ مقام ڈھونڈتے ہیں اور یہ موسم گرما کی تیز بارش کی آواز ان کے قہقہوں اور چیخوں سے مدھم پڑ جاتی ہے۔

تمام تصاویر عابد بھٹ کی فراہم کردہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp