جب سنہ 1967 میں چین کے دارالحکومت بیجنگ میں انڈین سفارتخانے کا محاصرہ ہوا


بیجنگ

چین کے دارالحکومت بیجنگ میں تعینات 1962 بیچ کے انڈین فارن سروس کے افسر کرشنن رگھوناتھ کے لیے چار جون سنہ 1967 کا دن معمول کے دن کے طور پر شروع ہوا تھا۔

دوپہر ایک بجے وہ انڈیا سے آنے والے اپنے دوست پی وجے کے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھے اور ’سلیپنگ بدھا‘ کا مندر دیکھنے مغربی پہاڑوں کی طرف نکل پڑے۔

راستے میں انھیں ایک پرانے مندر کے کھنڈرات نظر آئے۔ انھوں نے اپنی کار روکی اور اس مندر کی تصاویر لینے لگے۔ وہ ابھی کچھ اور تصاویر کھینچنے کے لیے اپنے کیمرے کے لینز میں سے دیکھ ہی رہے تھے کہ انھیں لگا کہ کسی نے ان کے کندھے کو تھپتھپایا ہے۔

سادہ لباس میں ملبوس ایک شخص نے ان سے پوچھا: ’آپ ایک حساس فوجی علاقے میں تصاویر کیوں کھینچ رہے ہیں جہاں تصاویر لینا منع ہے؟‘

اس سے پہلے کہ رگھوناتھ سمجھا پاتے کہ ماجرا کیا ہے، انھیں چینی فوج کے سپاہیوں نے گھیر لیا تھا۔

پریشان رگھوناتھ نے انھیں اس بات پر راضی کرنے کی کوشش کی کہ ان کا جاسوسی کے لیے تصاویر کھینچنے کا ارادہ نہیں تھا، وہ صرف مندر کی باقیات کی تصاویر کھینچ رہے تھے، لیکن اس کا چینی اہلکاروں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا،چین تنازع: کب کیا ہوا؟

انڈیا چین تنازع، اقوام عالم کی دلچسپی

چین کا مارشل آرٹ ٹرینرز کو تبت بھیجنے کا فیصلہ، انڈیا بھی ’جواب دینے کے لیے تیار‘

شام تک یہ خبر ہر جگہ پھیل گئی کہ چین نے جاسوسی کے جرم میں دو انڈین سفارتکاروں کو گرفتار کر لیا ہے۔

جیروم ایلن اور ہونگڈا چیو اپنی کتاب ’پیپلز چائنا اینڈ انٹرنیشنل لا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’چینی حکومت نے فوری طور پر رگھوناتھ کی سفارتی حیثیت ختم کر دی اور عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی وجے کو ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دے دیا۔‘

رگھوناتھ اور وجے کو چین سے نکلنے کا حکم

ایک ہفتہ بعد یعنی 13 جون کو بیجنگ کی میونسپل پیپلز ہائیر کورٹ میں 15 ہزار افراد کے سامنے ان دونوں سفارتکاروں کے خلاف جاسوسی کا مقدمہ چلایا گیا اور وہ چین میں جاسوسی کے قصوروار پائے گئے۔

عدالت نے رگھوناتھ کو فوری طور پر چین چھوڑنے کا حکم دیا جبکہ وجے کو تین دنوں میں چین چھوڑنے کا حکم دیا گیا۔

انڈین اخبار دی ہندو نے اپنے مضمون ’انڈین سفارت کاروں کو بیکنگ ایئرپورٹ پر رسوا کیا گیا‘ میں لکھا کہ ’ان دونوں کے بارے میں عدالت کے الگ الگ احکامات کے باوجود انھیں اگلی صبح پیکنگ ایئرپورٹ لایا گیا جہاں ان کی توہین کے لیے ایک بہت بڑا ہجوم کھڑا تھا۔

’وہاں موجود ریڈ گارڈز نے انڈین سفارتکاروں پر گھونسے برسائے اور انھیں لاتوں سے مارا۔ جب انڈین سفارتخانے کے کچھ لوگوں نے ان کے گرد گھیرا بنانے کی کوشش کی تو انھیں بھی نشانہ بنایا گیا۔

رگھوناتھ کو ریڈ گارڈز کے ایک گروہ کے سامنے سے گزارا گیا جنھوں نے نہ صرف ان کی توہین کی بلکہ ان پر تھوکا بھی۔‘

اخبار کے مطابق چینی فوجی وجے کی گردن پر ہاتھ رکھ کر انھیں وہاں موجود صحافیوں کے سامنے سے لے گئے۔ اس ہنگامے میں وجے کا جوتا پھٹ کر چھوٹ گیا اور وہ صرف موزوں میں چلتے نظر آئے۔

’دہلی کے پالم ہوائی اڈے پہنچنے پر سخت گیر ہندو سیاسی پارٹی جن سنگھ (بی جے پی اسی پارٹی کو ختم کرکے بنی ہے) نے ان سفارتکاروں کا اس طرح استقبال کیا جیسے وہ کوئی جنگ جیت کر آئے ہوں۔‘

کتاب

انڈیا کی جوابی کارروائی

دہلی میں اس واقعہ کو پر بہت حیرت اور غصے کا اظہار کیا گیا۔ چین میں انڈین سفارتخانے نے چینی وزارت خارجہ کو اپنے احتجاجی خط میں لکھا: ’انڈین حکومت کا خیال ہے کہ چینی حکومت نے دو انڈین سفارتکاروں کے اعترافی بیان کی فلم بنا کر انڈیا کے خلاف پروپگینڈے میں ان کا استعمال کر کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔‘

اور اس کا جواب دیتے ہوئے انڈیا نے دہلی میں تعینات چینی سفارتکار فرسٹ سیکریٹری چن لو چی پر جاسوسی کرنے اور نامعلوم سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا۔

انھیں ’سفارتی استثنیٰ‘ سے محروم کر دیا گیا اور غیر ملکی رجسٹریشن قواعد کے تحت انھیں رجسٹریشن کرنے کو کہا گیا۔

چینی سفارتخانے کے باہر زبردست مظاہرہ

چین کی طرح انڈیا نے مقدمہ چلانے کی زحمت گوارا نہیں کی اور 14 جون کو وزارت خارجہ نے انھیں فوری طور پر انڈیا سے نکالنے کا اعلان کر دیا۔

اس کے بعد انڈیا نے چینی سفارت خانے میں کام کرنے والے تیسرے سکریٹری سی چینگ ہاؤ پر ناجائز کام کرنے کا الزام عائد کیا اور فوری طور پر انھیں ’ناپسندید شخصیت‘ قرار دیا اور 72 گھنٹوں کے اندر انڈیا چھوڑنے کا حکم دیا۔

پروبل داس گپتا اپنی کتاب ’واٹرشیڈ 1967‘ میں لکھتے ہیں: ’انڈین حکومت نے کبھی بھی اس قدر جلدی اور جراتمندی کے ساتھ چینی کارروائی کا جواب نہیں دیا تھا۔ چینی سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کے حکم کے اگلے ہی دن دہلی میں چینی سفارت خانے کے باہر لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم جمع ہو گیا۔

’حزب اختلاف کی جماعتوں کی اشتعال انگیزی پر ہجوم چینی سفارت خانے کا گیٹ توڑ کر اس میں داخل ہو گیا۔ اس نے کھڑکیاں توڑ دیں، گیراج کو آگ لگا دی اور چینی جھنڈا پھاڑ دیا۔‘

کتاب کے مطابق اس دن چینی سفارت خانے کے سات ملازمین کو ولنگٹن ہسپتال (جسے اب رام منوہر لوہیا ہسپتال کہا جاتا ہے) میں داخل کرایا گیا۔

مظاہرے

بیجنگ میں انڈین سفارتخانے کے باہر مظاہرے

چینیوں نے بھی انڈین سفارت خانے کے ملازمین کو یرغمال بنا لیا

اس کے نتیجے میں چینی حکومت نے بیجنگ میں انڈین سفارتخانے کے امور کے انچارج رام ساٹھے کو ایک نوٹس بھیج کر کہا کہ اب وہ انڈین سفارتخانے کے ملازمین کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکتی ہے۔

جلد ہی چینیوں کا ہجوم ساٹھے کے گھر کے باہر جمع ہو گیا۔ انھوں نے ان کے گھر کی کھڑکیوں کے شیشے توڑ دیے۔ صرف یہی نہیں، انھوں نے بیجنگ میں انڈین سفارتخانے کو بھی گھیر لیا اور اس کے اندر موجود 63 مرد، خواتین اور بچوں کو بھی باہر جانے کی اجازت نہیں دی۔

سفارتخانے میں دودھ اور ضروری سامان کی فراہمی بھی بند کر دی گئی۔ جب چینی ہجوم نے انڈین سفارت خانے کو نہیں چھوڑا تو بیجنگ میں موجود مغربی ممالک کے سفارت کاروں نے محصور انڈین عملے کو کھانا بھیجنے کی کوشش کی۔

تاہم وہاں تعینات ریڈ گارڈز اور پولیس نے سفارت خانے کے اندر کھانا نہیں پہنچنے دیا۔ صرف یہی نہیں انڈین سفارتخانے میں کام کرنے والے چینی ملازمین کو بھی کام کرنے سے روک دیا گیا۔

اس وقت پالیسی پلاننگ کمیٹی کے سربراہ اور بعد میں انڈیا کے سکریٹری خارجہ جگت مہتا نے اپنی کتاب ’دی ٹرسٹ بٹیریڈ‘ میں لکھا: ’میں نے چینی مشن کے سربراہ کو وزارت خارجہ میں طلب کیا اور بتایا کہ اگر چین نے 24 گھنٹوں کے اندر انڈین سفارت خانے کا محاصرہ ختم نہیں کیا تو ہم بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جس طرح انھوں نے ہمارے ساتھ کیا ہے۔

’چین کو توقع نہیں تھی کہ انڈیا بھی ان کے ساتھ انہی کی زبان میں بات کرے گا۔ انڈیا نے بھی چینی سفارتخانے کے باہر مسلح فوجی بھیج دی۔ انھیں ہدایات تھیں کہ چینی سفارتکاروں کو عمارت سے باہر جانے نہ دیا جائے۔ اس کے ساتھ، ہم نے سفارت خانے میں کام کرنے والے تمام انڈین ملازمین پر چینی سفارت خانے میں داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ انڈیا نے فیصلہ کیا کہ وہ پیچھے نہیں ہٹے گا چاہے اس کا مطلب دونوں ممالک ملازمین کو یرغمال بنائے رکھنا کیوں نہ ہو۔‘

چین

چین کی زخمی سفارتکاروں کو لانے کے لیے ہوائی جہاز بھیجنے کی پیشکش

اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں چین نے سفارت خانہ پر حملے میں زخمی ہونے والے اپنے ملازمین کو لانے کے لیے اپنا طیارہ دہلی بھیجنے کی پیشکش کی۔

انڈیا نے اس پر اس شرط پر اتفاق کیا کہ چین بھی پھنسے ہوئے انڈین سفارت کاروں اور ان کے اہل خانہ کو انڈیا لانے کے لیے انڈین طیارے وہاں اتارنے پر راضی ہو لیکن چین اپنے فضائی حدود میں انڈین طیاروں کے داخلے کے لیے تیار نہیں ہوا۔

کچھ دنوں بعد دہلی میں چینی سفارت خانے نے انڈین وزارت خارجہ کو ایک نوٹ بھیجا کہ اگلے دن ان کا ایک طیارہ اپنے زخمی سفارتکاروں کو لے جانے کے لیے خصوصی کال سگنل کے ساتھ مشرقی پاکستان سے انڈیا میں داخل ہو گا۔

جگت مہتا اپنی کتاب ’دی ٹرایسٹ بٹریڈ‘ میں لکھتے ہیں: ’میں چین کی وزارت خارجہ کو یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ انڈیا چینی طیارے کو انڈین سرحد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔ چنانچہ ہم نے چینی وزارت خارجہ سے ان کے سفارت خانے کے ذریعے رابطہ کرنے کے بجائے ان کو براہ راست بغیر کوڈ والا ٹیلیگرام بھیجا کہ آپ نے انڈین طیارے کو بیجنگ نہیں جانے دیا، لہٰذا ہم بھی آپ کے طیاروں کو انڈین سرحد میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔

’دریں اثنا میں نے ایئر فورس ہیڈ کوارٹرز کو متنبہ کیا کہ اگر مشرق پاکستان سے کوئی چینی طیارہ ہماری فضائی حدود میں داخل ہوتا ہے تو پھر ہمارے جنگی طیارے انھیں قریبی ہوائی اڈے پر اترنے کے لیے مجبور کریں اور کسی بھی حالت میں انھیں دہلی نہیں پہنچنے دیں۔ میں نے تجویز پیش کی کہ اس طیارے کو زبردستی الہ آباد میں اتار لیا جائے۔ میں نے اپنا فیصلہ سکریٹری خارجہ سی ایس جھا کو بتانے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔‘

طیارہ

وزیر دفاع سوورن سنگھ کا غصہ

جگت مہتا مزید لکھتے ہیں: ’دیر رات وزیر دفاع سورن سنگھ کا فون آیا۔ انھوں نے غصے سے کہا کہ مجھے یہ فیصلہ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ اس سے انڈیا اور چین کے درمیان جنگ شروع ہوسکتی تھی۔ یہ فیصلہ کابینہ کی سطح پر ہونا چاہیے تھا۔

’میں نے انھیں یقین دلایا کہ چین ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ بالآخر میری توقع کے مطابق چینی طیارہ یہاں نہیں اترا۔ ویسے ہمارے پاس دوسرا منصوبہ بھی تھا کہ اگر چینی طیارہ دہلی پہنچنے میں کامیاب ہو بھی جاتا تو ہم اسے ایندھن بھرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور وہ بیجنگ کے لیے واپسی کی پرواز نہیں لے پاتا۔‘

چین نے نیپال کے راستے اپنے سفارتکاروں کو چین بلایا

دو دن بعد انڈین وزارت خارجہ کو خفیہ طور پر پتا چلا کہ چین نے ایئر نیپال کی پرواز سے اپنے سفارتکاروں کے کھٹمنڈو جانے کے لیے دو ٹکٹ بک کروائی ہے۔

جگت مہتا لکھتے ہیں: ‘ہمیں یہ اطلاع بھی ملی کہ یہ دونوں سفارتکار چینی مشن کے سربراہ کے ساتھ اپنی گاڑی میں پالم ایئرپورٹ جائیں گے۔ میں بھی خاموشی سے ائیرپورٹ پہنچا۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق ‘پرسنا نان گریٹا’ یعنی ناپسدندیدہ شخصیات قرار دیے جانے والے چینی سفارتکار کو تو جہاز میں سوار ہونے کی اجازت تھی لیکن دوسر سفارتکار کو، جن پر جاسوسی کا الزام لگایا گیا تھا، پہلے ایئرپورٹ کے دوسرے کونے میں لے جایا گیا۔

’جب تمام مسافر طیارے میں سوار ہوئے تو سفارت کار کو دو لمبے چوڑے پولیس اہلکاروں کے ساتھ طیارے کی پٹی پر مارچ کرایا گیا اور منصوبے کے مطابق ان کی تصاویر بین الاقوامی پریس کو ارسال کر دی گئیں۔‘

ان کی کتاب کے مطابق اس کے بعد انھیں بھی ہوائی جہاز میں سوار ہونے کی اجازت مل گئی۔ اگلے دن جب چینی جاسوسوں کی تصاویر کو پولیس اہلکاروں کے ساتھ انڈین اخباروں میں شائع کیا گیا تو، ممبران پارلیمان بشمول کمیونسٹ پارٹی کے ممبروں نے محسوس کیا کہ انڈیا کی عزت محفوظ ہے۔

مظاہرے واپس لیے گئے

جلد ہی بیجنگ میں انڈین سفارتخانے کے باہر ہونے والے مظاہرے واپس لے لیا گیا۔ ساٹھے کو بتایا گیا تھا کہ سفارت خانے کا عملہ صحن چھوڑ کر اپنے فلیٹوں میں جا سکتا ہے۔

انڈیا نے بھی اس کا جواب دیا اور دہلی میں چینی سفارت خانے کے سامنے سے رکاوٹیں ہٹا لیے۔ اب وہ سفارت خانے سے باہر جا سکتے تھے لیکن انڈین حکومت نے پھر بھی ان کی حفاظت کی ضمانت نہیں دی۔

یہ پہلا موقع تھا جب انڈیا نے نہ صرف چین کا اسی کے انداز میں جواب دیا تھا بلکہ کئی جگہوں پر وہ اس پر دباؤ ڈالنے میں بھی کامیاب رہا تھا۔ کچھ ہی دن میں یہ سفارتی تناؤ ختم ہو گیا اور وہ ایک بڑے فوجی شوڈاؤن میں تبدیل نہیں ہوسکا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp