لارنس روڈ پراجیکٹ: لاہور میں شہری سیلاب سے نمٹنے اور بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کا منصوبہ کیا ہے؟


لاہور، پانی، تحفظ، منصوبہ، ذخیرہ، بارش، سلاب

اربن فلڈنگ یعنی شہری سیلاب صرف پاکستان کے بڑے شہروں کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا میں اسے سنجیدگی سے لیا جاتا ہے تاہم بعض ماہرین کا خیال ہے کہ بارش کی نعمت کو زحمت بننے سے روکنا اب کافی حد تک ممکن ہو چکا ہے۔

ایسے میں وہ ان منصوبوں کی تجویز دیتے ہیں جن کے ذریعے سیلابی صورتحال ختم کی جاسکے اور بیک وقت پانی کی سنگین قلت جیسے دیرینہ مسئلے کا حل نکالا جاسکے۔

گذشتہ ماہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہونے والی مون سون بارشوں نے ایک خطرناک مثال پیش کیا۔

اس تناظر میں لاہور میں ایک ایسا منصوبہ سامنے آیا ہے جس سے حکام کے مطابق شہری سیلاب سے بچا جا سکے گا اور زیر زمین پانی کا مصنوعی ذخیرہ بھی تیار ہو جائے گا۔

مون سون میں ڈوبتے شہر

کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشم گریہ ناک

مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

ہمیں نہیں معلوم کہ میر تقی میر کے عہد میں بارش دلی اور لکھنؤ کو ڈبوتی تھی یا نہیں مگر ان ک ایہ شعراپنی تمام تر معنویت کے ساتھ ہمارے شہروں کی حالت پر ضرور صادق آتا ہے۔

ادھر مون سون کی جھڑی لگی نہیں اور شہر ڈوبے نہیں، کیا کراچی کیا لاہور، سب ایک ہی کشتی کے سوار ہوجاتے ہیں۔

لاہور، پانی، تحفظ، منصوبہ، ذخیرہ، بارش، سلاب

17 جولائی کو 40 ملی میٹر لاہور اور 41 ملی میٹر کراچی میں برسنے والی چند گھنٹوں کی باران رحمت ناقص انتظامات کے باعث شہریوں کی جان و مال کے لیے ہمیشہ کی طرح زحمت بن گئی۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ جو آبادی سال بھر پانی کی بوند بوند کو ترستی ہے وہی آبادی مون سون کے موسم میں ڈوب جاتی ہے۔

محکمہ موسمیات پاکستان کے ڈائریکٹر سید سرفراز کے مطابق پاکستان جغرافیائی طور پر ایک خشک اور نیم خشک خطہ زمیں ہے اور یہاں برسنے والی بارش کی اوسط (جولائی تا ستمبر) صرف 141 ملی میٹر سالانہ ہے جو اس پورے جنوبی ایشیا میں کم ترین اوسط ہے۔

دعا دیجیے کہ ہم محل وقوع کے اعتبار سے مون سون نظام کی مغربی سرحدوں کی انتہائی حد پر ہیں اور ہم تک پہنچتے پہنچتے یہ نظام کمزور ہوجاتا ہے۔

مگر اس کم تر اوسط کے باوجود بارش کے اس پانی کا بہتر انتظام اکیس ویں صدی میں بھی ہمارے لیے کسی راکٹ سائنس سے کم نہیں ہے۔

لاہور میں شہری سیلاب سے نمٹنے کا منصوبہ

لاہور، پانی، تحفظ، منصوبہ، ذخیرہ، بارش، سلاب

اس منصوبے کی تفصیلات کے مطابق پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں بارش کے پانی کا ذخیرہ کر کے اسے شجر کاری اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

اس منصوبے کے تحت لاہور کے لارنس گارڈن میں ایک زیر زمین ٹینک بنایا جا رہا ہے جس میں لاہور شہر کے گلی کوچوں میں بہتا ہوا بارش کا پانی ذخیرہ کیا جائے گا جسے بعد ازاں وقت ضرورت استعمال کیا جاسکے گا۔

صوبہ پنجاب میں پانی اور نکاسی آب کے ادارے واسا کے مینیجنگ ڈائریکٹر سید زاہد عزیز کے مطابق ’لارنس روڈ پراجیکٹ‘ نامی منصوبہ لاہور کے شہریوں کے لیے انتہائی اہم ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کیا لاہور میں پینے کا پانی ختم ہو رہا ہے؟

کیا دنیا پانی پر جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے؟

کیا انڈیا اپنا پانی پاکستان آنے سے روک سکتا ہے؟

’آدھا کراچی پانی میں، آدھا اندھیرے میں‘

لارنس گارڈن کے پارک میں تعمیر کیے جانے والے اس ٹینک کا رقبہ 14,000 سکوائر فٹ، گہرائی 15 فٹ اور پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش 14 لاکھ گیلن ہے۔ منصوبے کی مدت تکمیل تین ماہ اور اس پر 15 کروڑ لاگت آئی ہے۔

سید زاہد عزیز کے مطابق جب بھی لاہور میں بارش ہوتی ہے تو شہر کے تقریباً ہر علاقے کے پانی کو شہر کی مختلف گلیوں اور سڑکوں سے بہہ کر تقریباً دس کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے دریائے راوی تک پہنچنا ہوتا تھا۔

’بارش کے پانی کو ٹھکانے لگانے کا واحد یہی راستہ ہے اور پانی کو دریائے راوی تک پہنچنے تک چھ یا سات گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اس دوران شہر پانی میں ڈوبا رہتا۔‘

لاہور، پانی، تحفظ، منصوبہ، ذخیرہ، بارش، سلاب

چونکہ لاہور میں ایسا کوئی زیر زمین نظام موجود نہیں ہے جس کے ذریعے یہ پانی شہریوں کو پریشان کیے بغیر دریا تک پہنچ جائے لہذا یہ پانی بارش ختم ہونے کے بعد بھی کئی کئی گھنٹے سڑکوں کو تالاب بنائے رکھتا ہے۔ شہریوں کو اس عذاب سے بچانا، پانی کا ذخیرہ اور دوبارہ استعمال اس منصوبے کے اہم مقاصد ہیں۔

منصوبے پر عمل درآمد کے لیے جگہ کے انتخاب کے حوالے سے زاہد صاحب کا کہنا ہے کہ لارنس روڈ پر موجود لارنس گارڈن (نیا نام جناح پارک) ایک پیالہ نما نشیبی علاقہ ہے۔ اس نشیبی علاقے میں تین اطراف یعنی لارنس روڈ، چائنہ چوک اور چیرنگ کراس سے پانی بہہ کر آتا ہے۔ لہذا اس علاقے کو قدرتی ذخیرہ گاہ کہا جاسکتا ہے۔

یہ ٹینک جس میں 14 لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہوگی، اس میں پانی ایک بڑے کنکریٹ کے نالے کے ذریعے پہنچے گا۔ لاہور میں ہونے والی حالیہ بارش کی مقدار 40 ملی میٹر تھی اور اس ٹینک میں ذخیرہ ہونے والے پانی کی سطح صرف پانچ فٹ تک پہنچ سکتی تھی اور مزید دس فٹ سطح کے پانی کی گنجائش باقی رہتی۔

یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ 100 ملی میٹر بارش تک کا پانی اس ٹینک میں جمع ہوسکتا ہے۔

زاہد صاحب نے بتایا کہ ہمارے پیش نظر یہ امکان بھی ہے کہ زیادہ بارشوں میں اگر یہ ٹینک مکمل طور پر بھر جائے تو متبادل کے طور پر ہم نے اس کے قریب ہی ایک کھلا تالاب بنایا ہوا ہے اور ٹینک بھرنے کے بعد اضافی پانی اس میں جمع ہوجائے گا۔

اس تالاب میں دو لاکھ گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے اور اگر بارشیں اس سے بھی زیادہ ہوں اور یہ تالاب بھی مکمل بھر جائے تو پھر پانی نکاسی کے ذریعے دریائے راوی میں چلا جائے گا جو قریب ہی موجود ہے۔

لاہور، پانی، تحفظ، منصوبہ، ذخیرہ، بارش، سلاب

اس زیر زمین ٹینک کی چھت پر دو فٹ مٹی ڈال کر گھاس لگادی جائے گی۔ پارک کی ہیئت پر اس کا کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

زاہد عزیز پُرامید ہیں کہ یہ منصوبہ شہری ماحول، معیشت اور خصوصاً زیر زمین پانی کی سطح میں اضافے کے حوالے سے بہتر نتائج مرتب کرے گا:

اس منصوبے سے کئی فوائد کشید کیے جاسکیں گے:

  1. سڑکوں اور گلی کوچوں سے بارش کے پانی کی جلد نکاسی سے لوگوں کی مشکلات کم ہو سکیں گی۔
  2. سڑکوں پر پانی کھڑا ہونے سے آمد و رفت میں تاخی راور ایندھن کے اضافی خرچ سے ہونے والے معاشی نقصانات کا تدارک ہوسکے گا۔
  3. ذخیرہ شدہ پانی لاہور شہر کے درختوں اور پیڑ پودوں (ہارٹی کلچر) کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
  4. اور اس کا ایک بڑا فائدہ لاہور کے زیر زمین پانی کی سطح میں اضافہ ہوگا جو روز بروز گرتی جارہی ہے۔

زیر زمین پانی: بڑھتا استعمال، گھٹتی سطح

پاکستان میں زیر زمین پانی کا بڑھتا ہوا استعمال اور اس کی گرتی سطح آئے دن خبروں کی زینت بنتی رہتی ہے اور اب پاکستان زیر زمین پانی استعمال کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک بن چکا ہے جہاں کی ساٹھ سے ستر فیصد آبادی کا انحصار زیر زمین پانی پر ہے۔

زیر زمین پانی کے استعمال میں ہم دنیا کے بڑے ممالک امریکہ، چین اور انڈیا کی صف میں آچکے ہیں۔ ہمارے زیر زمین پانی کا ماخذ دریائے سندھ کے طاس کا علاقہ ہے جو ناسا کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کا دوسرا بڑا دباﺅ والا بیسن بن چکا ہے۔

ہماری قومی آبی پالیسی کے مطابق ملکی آبی وسائل کا 95 فیصد زراعت میں استعمال ہوتا ہے اور ملک بھر میں موجود تقریباً 10 لاکھ ٹیوب ویل زراعت کے لیے 55 ملین ایکڑ فٹ زیرِ زمین پانی نکالتے ہیں جو نہروں سے دستیاب پانی سے 20 فیصد زیادہ ہے۔

کنگز کالج لندن سے وابستہ آبی امور کے ماہر دانش مصطفی کے مطابق ’پانی کا سب سے بڑا صارف ہمارا زرعی شعبہ ہے اور سب سے زیادہ ضیاع بھی یہیں ہوتا ہے۔‘

اس شعبے میں پانی کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔

لاہور، پانی، تحفظ، منصوبہ، ذخیرہ، بارش، سلاب

ماہرین آب پاشی کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور خصوصاً لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گرتی جارہی ہے۔ ماہرین کو یہ بھی خدشہ ہے کہ اگلے دس برسوں میں لاہور کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہوگا۔

لیکن واسا کے مینیجنگ ڈائریکٹر سید زاہد عزیز اس خدشے کو ’بے بنیاد‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ضرور ہے کہ لاہور میں ہرسال زیر زمین پانی کی سطح ایک میٹر یا سوا تین فٹ نیچے گررہی ہے لیکن یہ غلط ہے کہ دس سال بعد پانی ختم ہوجائے گا۔ اس وقت پانی 160 فٹ پر دستیاب ہے۔

ان کے مطابق لاہور میں چھہ سو ٹیوب ویل ہیں جو واسا کے زیر انتظام ہیں اور ان سے 540 ملین گیلن یا 54 کروڑ گیلن روزانہ پانی زمین سے نکالا جا رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بی آر بی نہر کا پانی ٹریٹمنٹ پلانٹ کے ذریعے صاف اور پینے کے قابل بنایا جائے گا تاکہ شہر کی دس فیصد پانی کی ضرورت اس سے پوری ہوسکے۔ ’ٹیوب ویل کے استعمال پر واٹر میٹر لگائے جارہے ہیں تاکہ استعمال کم سے کم ہو۔ حالیہ لارنس روڈ پراجیکٹ سے ہارٹی کلچر کے لیے پانی کی ضرورت پوری ہوجائے گی اور اس کے لیے پانی زمین سے نہیں نکالنا پڑے گا۔‘

’80 سے زیادہ مساجد کے وضو کا پانی شجرکاری کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ گاڑیاں دھونے والے تین سو سٹیشنوں کا پانی ری سائیکل ہورہا ہے۔ جو بھی سڑک پر پانی ضائع کرے یا گاڑی کو بالٹی کے بجائے پائپ سے دھوتا نظر آئے تو اسے دو ہزار روپے جرمانہ کیا جاتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پانی کے تحفظ کے نفاذ کے لیے لاہور ہائی کورٹ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد بھی لی جا رہی ہے۔

کیا آپ بھی بارش کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں؟

لارنس روڈ پراجیکٹ اگرچہ ایک خوش آئند منصوبہ ہے لیکن اس سے بھی سادہ اور آسان طریقے موجود ہیں جن سے آپ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرسکتے ہیں۔

لاہور، پانی، تحفظ، منصوبہ، ذخیرہ، بارش، سلاب

ایسا ہی ایک منصوبہ ہم نے کوہستان ضلع ٹھٹھہ میں دیکھا جس سے 34 گاﺅں مستفید ہورہے ہیں۔

یہ منفرد منصوبہ ’آب برائے خواتین‘ تھا کیونکہ عموماً پورے پاکستان اور خصوصاً صوبہ سندھ میں پانی بھرنے کی ذمہ داری روایتی اور ثقافتی طور پر خواتین پر عائد ہوتی ہے۔

کوہستان ضلع ٹھٹھ میں ایک غیر سرکاری تنظیم انڈس ارتھ ٹرسٹ نے 34 گاﺅں کے لیے قدرتی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے پانی کو ذخیرہ کیا۔

ان دیہات میں پانی کا واحد ذریعہ بارش ہے۔ اس منصوبے کے تحت بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کے پہلے مرحلے کے طور پر ریزر وائر (بڑے تالاب) کھودے گئے یعنی پہلے سے موجود قدرتی نشیبی علاقوں کے گڑھوں کو گہرا کیا گیا۔

ان کے لیے ایسی جگہوں کا انتخاب کیا گیا جو بارش کے پانی کی قدرتی گزرگاہیں تھیں یعنی ایسے راستے جن سے پہاڑوں کا پانی بہہ کر آتا۔

پہلے سے موجود 18 قدرتی بڑے گڑھے جو خشک ہوچکے تھے، انھیں گہرا کیا گیا جبکہ 10 نئے تالاب کھودے گئے۔ جب مون سون کا موسم آیا اور بھرپور بارشیں ہوئیں تو کیرتھر کے پہاڑوں سے بہہ کر آنے والا پانی ان 28 تالابوں میں جمع ہوگیا۔

ان ذخیرہ گاہوں کو تقریباً 30 فٹ تک گہرا کیا گیا تھا اور ان کے قریب بہت سے مقامات پر واٹر پمپ لگائے گئے تاکہ صاف پانی خواتین کو آسانی سے مل سکے۔

اس کے علاوہ کیرتھر کی پہاڑیوں سے بہہ کر آنے والے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے مزید اقدام کے طور پر چار چھوٹے عارضی ڈیم (چیک ڈیم) بھی تعمیر کیے گئے جن سے تقریباً ایک ہزار ایکڑ اراضی قابل کاشت ہوسکے گی۔

اس کے علاوہ 20 مقامات پر کنوئیں گہرے کیے گئے جو ان تالابوں میں موجود پانی سے ریچارج ہوچکے تھے۔

زیر زمین پانی کی سطح میں اضافے سے ہر گاﺅں میں لگائے گئے ہینڈ پمپس بھی کام کرنے لگے جس سے نہ صرف خواتین کے وقت کی بچت ہوئی اور سب سے اہم بات آٹھ دس سال کی وہ بچیاں بھی جو پانی بھرنے ماں کے ساتھ جایا کرتی تھیں اب سکول جانے لگی ہیں۔

اس منصوبے کی تکمیل سے کوہستان یونین کونسل میں اب سارا سال پانی دستیاب رہتا ہے۔ اس منصوبے سے تقریباً 34 دیہات کے 15 ہزار افراد پر مشتمل 2200 گھرانے مستفید ہورہے ہیں۔ اور پانی کی کمی سے جو لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو کر بیراجی علاقوں میں چلے گئے تھے وہ بھی لوٹ آئے ہیں۔

کسی بڑے سول انفراسٹرکچر کے بغیر بھی اس نوعیت کا منصوبہ بہت سے علاقوں میں قابل عمل ہوسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp