جوتی


کلاس ختم ہوتے ہی میں جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی اور تیز قدموں سے باہر نکل گئی۔ آج فائن آرٹس کی ایکسٹرا کلاس تھی اور کوئی بھی دوست لیکچر میں موجود نہیں تھا۔ تجریدی آرٹ کی تھیوری یوں بھی ہمارے سمجھ میں نہیں آتی ہے۔

صبح دیر سے آنکھ کھلی تھی۔ ہبڑ دبڑ میں چائے تک بھی نہ پی پائے تھے اور طرفہ یہ کہ جوتی بھی وہ پہن لی جس کا پٹہ ٹوٹنے کے قریب تھا۔ سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔ اب اس کو ہماری تیز قدمی کا نتیجہ ہی سمجھیں کہ ٹھوکر لگی اور جوتی ٹوٹ گئی۔ ہم نے اٹھا کر اسے بیگ میں رکھ لیا۔ آرٹس کالج کے باہر چائے کا ڈھابہ بہت مشہور تھا۔ راستے میں وہاں سے گرما گرم چائے لے لی۔ چائے تو ہمیں صرف گرم ہی پسند ہے۔ ابھی دو قدم ہی چلے تھے کہ فٹ پاتھ کے کنارے اس سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ دھوپ رنگت چہرے کی پیشانی پر خامہ وقت کی لکیریں خوب نمایاں تھیں۔ گفتگو شروع ہوئی، شخصیت دلچسپ لگی تو ہم پوچھ بیٹھے ”زندگی میں ایسی کون سی چیز ہے جو تم واقعی کرنا چاھتے ہو۔“ ہم سے وہ اس بے تکلفی کی توقع نہیں کر رہا تھا۔

وحشت بھری آنکھوں میں حیرت سمٹ آئی، اس نے گہری سانس لی اور ہاتھوں کی حرکت روکے بغیر کہا۔ ”آپ جاننا چاہتی ہیں تو سنئے۔ مجھے موتیے کی خوشبو کو کینوس میں بکھیرنا ہے۔ میں آبشار کی آواز کو مجسم کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے ہجر کے اضطراب کا خاکہ کھینچنا ہے، مجھے وصل کے لمحہ منجمد کو کاغذ کے حوالے کرنا ہے۔ مجھے تاج محل کی نیو میں دبی ذرہ ذرہ محبت کا پیکر تراشنا ہے۔ مجھے تھکن سے چور ایک ماں کی آنکھوں سے پھوٹتی اس بوند بوند خوشی کو رنگ آمیز کرنا ہے جو ایک نئے وجود کے اولیں لمس سے مربوط ہوتی ہے۔ مجھے اس احساس کی تصویر بنانی ہے جو نوبیاہتا لڑکی کو وہ پہلا خط چھو کر ہوتا ہے جس میں محبوب کے جذبات کی حدت لفظ لفظ دہکا رہی ہوتی ہے۔ مجھے ممتا کو آب رنگوں کے حوالے کرنا ہے۔ مجھے معصوم بچے کی کھلکھلاہٹ کو نقش کرنا ہے“ ۔

یہ کہتے ہوئے اس نے قینچی اٹھائی، دھاگہ کو کاٹا اور بولا ”لیجیے بی بی : آپ کا کام ہو گیا اور میری جوتی مجھے واپس کر دی“ ۔ ساکت ہاتھوں میں چائے کے کپ کی ٹھنڈک ریڑھ کی ہڈی تک اتر آئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments