ناسا کے خلا باز آج سمندر میں لینڈنگ کریں گے


امریکی خلا باز ڈگ ہرلے اور بوب بینکن نے بین الاقوامی خلائی سٹیشن سے اپنے ڈریگن کیپسول کو جدا کر لیا ہے اور اب ان کے زمین کی جانب سفر کا آغاز ہو چکا ہے۔

دونوں خلاباز اتوار کے روز پاکستان کے مقامی وقت کے مطابق رات 11 بج کر 45 منٹ پر فلوریڈا کے ساحل کے قریب سمندر میں لینڈ کریں گے۔

اگر ان دونوں کی لینڈنگ کامیاب ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ امریکہ کے پاس ایک مرتبہ پھر سے اپنے خلابازوں کو خلا میں لے جانے اور واپس آنے کا قابلِ استعمال ذریعہ موجود ہے۔

یاد رہے کہ یہ صلاحیت ملک کے پاس اس وقت نہیں رہی تھی جب اس نے سنہ 2011 میں اپنی شٹلز کو ریٹائر کر دیا تھا۔

امریکی خلائی ایجنسی ناسا اور اس کے کمرشل شراکت دار سپیس ایکس نے ایک ’سپلیش ڈاؤن‘ یا لینڈنگ کی ایک ایسی جگہ کا تعین کیا ہے جو سمندری طوفان ایسایئس سے خاصی دور ہے۔ یہ سمندری طوفان فلوریڈا کے مشرقی ساحل سے ٹکرائے گا۔

ان خلابازوں کو باحفاظت ساحل تک پہنچانے والے بحری جہازوں کو خلیجِ میکسیکو کی جانب بھیج دیا گیا تھا جو مغربی فلوریڈا کی جانب پینساکولا کی جانب ہے۔

مشن کنٹرولرز سمندری لہروں اور ہوا کے پیمانوں کے حوالے سے ماہرین کی ہدایت پر سختی سے عمل کر رہے ہیں اور وہ موسم کے حال کا بغور جائزہ لینے کے بعد ہی واپس پہنچنے کے حوالے سے حتمی فیصلہ کریں گے۔

Bob Behnken (L) and Doug Hurley (R)

NASA

جب یہ ہو جائے گا تو ہرلی اور بینکہن کے کیپسول کے تھرسٹرز جل جائیں گے اور وہ مدار سے نیچے آنے کے سفر کا آغاز کر دیں گے۔

یہ انتہائی تیز رفتار واپسی ہو گی اور یہ رفتار آغاز میں کئی کلومیٹر فی سیکنڈ ہو گی۔ اس کے باعث کیپسول کم از کم دو ہزار سینٹی گریڈ تک گرم ہو جائے گا جیسے جیسے یہ فضا میں نیچے کی طرف آنا شروع کرے گا۔

اس دوران جب کیپسول زمین سے 5500 میٹر کے فاصلے پر ہو گا تو ڈروگ نظام کے تحت دو پیراشوٹ کھلیں گے۔ اس دوران کیپسول اپنا سفر 560 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جاری رکھے گا۔

اس کے بعد 1800 میٹر کی بلندی پر چار مزید پیراشوٹ کھلیں گے جو کیپسول کی سمندر پر آہستہ سے لینڈنگ یقینی بنائیں گے۔

جیسے عام طور فضا میں واپسی کے دوران ہوتا ہے کچھ منٹ کے لیے ریڈیو سائلینس ہو گا کیونکہ گرم گیسز کچھ دیر کے لیے کیپسول کو گھیر لیں گی۔

Splashdown

NASA

ایسا 45 برس بعد پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ کوئی امریکی کیپسول کریو سمندر میں لینڈ کرے گا۔ 45 برس قبل ایک اپولو خلاگاڑی نے بحرالکاہل میں لینڈ کیا تھا۔

ڈگ ہرلی نے کہا کہ انھوں نے ان دنوں کی چند رپورٹس میں پڑھا کہ اس وقت خلابازوں کی پانی کے اوپر تیرتے وقت طبیعت خراب ہوئی تھی جس کے بعد انھیں بحفاظت وہاں سے لے جایا گیا تھا۔

انھوں نے جمعے کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ضرورت پڑنے پر ہمارے پاس لفافے موجود ہیں۔ ہمارے پاس تولیے بھی ہیں جو اس وقت میں کام آ سکتے ہیں۔ اگر یہ ہونا ہی ہے تو یہ پہلی مرتبہ نہیں ہو گا۔ جو افراد خلا میں سفر کر چکے ہیں انھیں معلوم ہے کہ کبھی کبھار اوپر جاتے ہوئے اور بعض اوقات نیچے آتے وقت آپ کے جسم کے نظام پر اثر پڑتا ہے۔

https://twitter.com/NASA/status/1289552262076010497?s=20

خیال رہے کہ خلابازوں نے مئی کے اختتام پر بین الاقوامی خلائی سٹیشن کے لیے سفر کا آغاز کیا۔ انھوں نے آغاز میں سپیس ایکس کے فیلکن نائن راکٹ کے ذریعے فضا میں بلندی کے سفر کی شروعات کیں اور اس طرح امریکہ میں خلابازی کے ایک نئے دور کا بھی آغاز ہوا۔

اس سے قبل ناسا نے فیصلہ کیا تھا کہ اب وہ خود عملے کو خلاء میں لے جانے والے راکٹ کی بعض مشینیں یا ہارڈ وئیر کو نہ خود بنائے گا نہ ان کو خود چلائے گا۔ بلکہ وہ کہ کام کمرشل کمپنیوں کو دے دے گا۔

کلیفورنیا کی اسپیس ایکس کمپنی پہلی کمپنی ہوگی جو ناسا کو یہ سازوسامان فراہم کرے گی

اس کمپنی کے بنائے ہوئے زیادہ تر ہارڈوئیر جس میں فیلکن راکٹ کی بعض مشینیں بھی شامل ہیں ان کو دوبارہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔

“ہم نے بنیادی طور پر راکٹ کے ‘ پے لوڈ’ اور اس کی حفاظت کے اعلی معیار قائم کردیے ہیں۔ تاہم ہم تمام مراحل کی ڈیزاننگ میں شامل نہیں ہوتے ہیں تھے۔ ہم نے نجی کمپنیوں کو نئے ڈیزان بنانے کی مکمل آزادی دی ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم اس نہج پر پہنچ گئے ہیں جہاں ہم اب ان راکٹوں اور کیپسول کا دوبارہ استعمال کررہے ہیں اور اب ہم یہی کام چاند اور بالآخر مریخ کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں”۔

بوئنگ کمپنی بھی خلائی اسٹیشن کے لئے ایک “ٹیکسی سروس” بنارہی ہے۔

لیکن کمپنی اس کےکو سٹارلائنر کیپسول ميں بعض سافٹ وئیر میں دشواریوں کے بعد اس کے تعارف کو معخر کرنا پڑا .

سپیس ایکس


اگر سمندر میں لینڈ کرنے کا مشن پورا ہوجاتا ہے تو ناسا اپنی معمول کی سپیس ایکس کی فلائٹس چلانے کا کام دوبارہ شروع کرے گا اور یہ کام بہت جلد ستمبر کے ماہ کے آخر میں شروع ہوجائے گا۔

ناسا کی یہ کوشش ہوگی کہ ان کیپسولس کی صاف ستھرائی اور ان کو درکار جدت فراہم کیے جانے کے بعد انہیں آئندہ برس کی شروعات میں راکٹ میں نصب کیا جاسکے۔

خلا باز ڈگ ہرلے اور بوب بینکن اس یادگاری امریکی پرچم کو بھی اپنے ساتھ لا رہے ہیں جس کو اس سے پہلے والے شٹل مشن کے خلاء بازوں نے خلائی سٹیشن پر چھوڑ دیا تھا۔ اس خلائی مشن میں ڈگ ہرلی بھی شامل تھے۔

1981 کے پہلے شٹل مشن کے ساتھ بھی امریکی پرچم لے جایا گیا تھا۔ امید یہ پرچم دوبارہ خلاء میں اس وقت جائے گا جب امریکہ اس دہائی کے آخر میں دوبارہ خلاء بازوں کو چاند پر بھیجے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp