نواز شریف اور بلاول صاحب! بولنا ہے تو آج بولیں


پنجاب اسمبلی میں تحفظ بنیاد اسلام بل پیش ہوا۔ ویسے تو پاکستان کی اسمبلیوں ہر وقت تو تڑاخ اور الزام تراشی کے مناظر نظر آتے ہیں۔ لیکن محض عنوان کی برکت سے یہ بل متفقہ طور پر منظور ہو گیا۔ شاید کسی ممبر نے اس پر غور کرنے کا تکلف نہیں کیا تھا لیکن اب پورا ملک اس پر تبصرے کر رہا ہے۔ اس بل پنجاب میں شائع ہونے اور داخل ہونے والی کتب کی تطہیر کے لئے کئی اقدامات کا اعلان کیا گیا ہے۔

زندہ دلان پنجاب کے دلوں کی تطہیر کا کام ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلیشن کے سپرد ہوا ہے۔ یعنی ان کی ذات گرامی کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ جب پسند فرمائیں اشاعت کے کسی ادارے یا کتابوں کے کسی سٹور میں داخل ہوں اور جس کتاب کے متعلق وہ سمجھیں کہ اس کا ناپاک وجود قومی مفادات یا ہمارے کلچر کے خلاف ہے تو انہیں یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ اس کتاب کو ضبط کر لیں۔

اسی طرح جو کتاب صوبہ پنجاب میں شائع ہو یا کسی اور صوبے یا ملک میں جنم لے کر اس صوبے کی حدود میں داخل ہونے کی جرائت کرے، تو یہ لازم ہے کہ اس کے بارے میں ایک یادداشت ان صاحب کے حضور پیش کی جائے۔ اور اگر وہ محسوس فرمائیں کہ اس کتاب کی اشاعت قومی مفادات یا ہمارے کلچر کے خلاف ہے تو وہ اس پر پابندی لگا سکتے ہیں۔

اس قانون کے بعد صوبہ پنجاب میں اگر کتابوں کی اشاعت نہ بھی ہو تو ایک صوبے میں ہر سال مختلف شعبوں کی سینکڑوں ہزاروں کتابیں داخل ہو رہی ہوتی ہیں۔ یہ ڈائریکٹر صاحب یا ان کے معاونین ان کتب کے بارے میں یہ فیصلہ کس طرح فرمائیں گے کہ اس سے قومی مفاد کو کوئی نقصان پہنچ سکتا ہے کہ نہیں۔ اور یہ فیصلہ کون کرے گا کہ ”قومی مفاد“ یا ”کلچر“ سے کیا مراد ہے؟ شاید یہ سرکاری افسران یہ فیصلہ کتاب سونگھ کر فرمائیں گے کہ اس سے منافقت کی بو آ رہی ہے کہ نہیں۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ صاحبان اقتدار کو کتابوں کی الرجی لاحق ہوئی ہے۔ کورونا کی بیماری تو نئی ہے مگر یہ بیماری صدیوں سے وبائی صورت میں سر اٹھاتی رہی ہے۔ حکمران طبقہ خاص طور پر لکھے گئے مواد سے خوف زدہ رہتا ہے [اگر یہ مواد ان کی تعریف میں ہے تو اور بات ہے]۔ سولہویں صدی کے سپین میں حکومت تو مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی تھی مگر اب زبردستی ان کا مذہب تبدیل کرنے کی کوششیں عروج پر تھیں۔ اس سلسلہ میں ویلنشیا کی حکومت نے یہ پابندی لگا دی تھی کہ کوئی شخص عربی کی لکھی ہوئی کوئی کتاب یا تحریر بھی اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ چنانچہ حکومت کے کارندے یا چرچ کے خدائی فوجداریعنی اس دور کے ڈائریکٹر جنرل جاسوسی کرتے پھرتے تھے کہ کسی کے پاس عربی میں لکھی ہوئی کوئی تحریر تو نہیں۔ چنانچہ یہ مسلمان عربی میں لکھی ہوئی کتابوں کو اپنی الماریوں میں یا بستروں کے نیچے پوشیدہ کر کے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے۔

اور بعض عورتیں کئی سال ان چھوٹی چھوٹی تحریروں کو اپنے کپڑوں میں سی کر بچانے کی کوشش کرتی رہی تھیں۔ اور جب اس جرم میں ملوث پکڑا جاتا تو اسے سزا دی جاتی۔ اور اس کتاب یا تحریر کو نذر آتش کر دیا جاتا۔ پنجاب حکومت کو تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیے کہ اس کام کے لئے چند افسران کافی نہیں ایک ”اینٹی کتاب فورس“ تشکیل کرنے کے لئے فوری بجٹ منظور کرنا چاہیے۔

اور یہ بل منظور کرنے والوں یہ تو سوچا ہی نہیں کہ اگر کوئی راسخ العقیدہ محب وطن ڈائریکٹر کسی کتاب کو ”قومی مفاد“ کے خلاف پاکر ضبط کر بھی لے تو باقی صوبے کو کس طرح پتہ چلے گا کہ اس کتاب کا مطالعہ قومی مفادکو نقصان پہنچا سکتا ہے؟ اس کا حل بھی تاریخ میں موجود ہے۔ کئی صدیوں تک کیتھولک چرچ باقاعدہ ایک فہرست شائع کیا کرتا تھا۔ یہ ان کتب کی فہرست تھی جن کا مطالعہ کسی بھی صالح شخص کے لئے ممنوع تھا۔ ممنوعہ کتب کی یہ فہرست Index Librorum Prohibitorum کہلاتی تھی۔

چنانچہ گلیلیو کی کتاب کو بھی اس فہرست میں ڈالا گیا تھا ورنہ خدشہ تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومنا نہ شروع کر دے۔ برونو، والٹیئر، ڈارون، روسو اور دوسرے کئی گمراہ مصنفین کی کتب کو اس فہرست میں شامل کر کے عوام الناس کو ان کے ضرر سے بچایا گیا تھا۔ اور یہ سلسلہ گزشتہ صدی تک جاری رہا۔ چنانچہ جب فرانسیسی فلاسفر سارترے کو اوٹ پٹانگ خیالات آنے لگے تو یہی انڈیکس تھا جس نے پڑھنے والوں کے ذہنوں کو آلودہ نہیں ہونے دیا۔ اگر یہ فہرست انٹر نیٹ پر مہیا کر دی جائے تو ہم جیسے لوگ کسی کتاب کو کھولنے سے پہلے یہ دیکھ سکتے ہیں کہ اس کو پڑھنا مناسب ہے کہ نہیں۔

آج کل کے نوجوانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ کتاب تو کم پڑھتے ہیں لیکن ہر وقت ایک دوسرے کو واٹس اپ اور میل کر کے عجیب و غریب افواہیں پھیلاتے رہتے ہیں اور کچھ نہیں سوجھا تو یوٹیوب پر ”مخرب یقین“ قسم کا مواد دیکھنے لگے۔ اس کا بھی تو کوئی حل سوچنا چاہیے۔ چنانچہ پرانے بزرگوں میں ”سلسلہ ہلاکتیہ“ کے ایک بزرگ جوزف سٹالن بھی گزرے ہیں۔ ان کی بیدار مغزی کا یہ عالم تھا کہ عین دوسری جنگ عظیم کے دوران جب لاکھوں روسی میدان جنگ میں مر رہے تھے، اس وقت بھی قوم کے نوجوانوں کی اصلاح کے اہم کام سے غافل نہیں ہوئے تھے۔

چنانچہ محاذ جنگ پر ایک نوجوان میجر الیگزینڈر سولزینٹسن (Solzhenitsyn) نے اپنے کسی دوست کو کچھ خطوط لکھے۔ بعد میں مغربی طاقتوں نے یہ افواہ اڑا دی کہ ان خطوط میں سٹالن کا نام لئے بغیر ان کی جنگ حکمت عملی پر کچھ تنقید کی گئی تھی۔ یہ غلط ہے۔

اصل بات یہ تھی اس خط کی زبان اتنی غیر معیاری تھی کہ حکومت نے انہیں دس سال کے لئے لیبر کیمپ میں بھجوا دیا۔ جہاں ان کی زبان کی ایسی اعلی اصلاح کی گئی کہ جب وہ رہا ہو کر آئے تو انہوں نے ان کمیپوں کی زندگی کے بارے میں ”گولاگ آرکیپلاگو“ اور ”آئیوان ڈینیسو وچ کی زندگی کا ایک دن“ جیسی کتابیں لکھیں۔ جس وجہ سے دنیا میں واہ واہ بھی ہوئی اور نوبل پرائز بھی ملا۔ اب بھی کوئی اس طریقہ کار کا قائل نہ ہو تو ایسی ڈھٹائی کا کیا علاج کیا جائے۔ یہ کام پچھتر سال پہلے ہو سکتا ہے تو اب کیوں نہیں کیا جا سکتا؟

کچھ لوگ اس بل کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں اور کئی سیاستدانوں، صحافیوں اور میڈیا کے اکثر ستونوں نے مصلحت آمیز خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ صف بندی تو ہو چکی ہے۔ اب سب کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ بیچ میں کھڑے ہو کر ہر دلعزیزی حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں۔ جب مارٹن لوتھر کنگ جونیئر امریکہ میں نسل پرستی کے خلاف مہم چلا رہے تھے تو انہوں نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا۔

In the End, we will remember not the words of our enemies, but the silence of our friends.
آخر میں ہم دشمنوں کے الفاظ کو یاد نہیں رکھیں گے۔ بلکہ ہمیں اپنے دوستوں کی خاموشی یاد رہے گی۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ممبران نے تو ووٹ دے دیے۔ اب میاں نواز شریف صاحب اور بلاول بھٹو صاحب اپنا موقف بھی واضح کریں۔ اور یہ بیان ان کی طرف سے آنا چاہیے۔ میڈیا کے بڑے بڑے گروپس نے آزادی اظہار کے لئے آواز اٹھانی ہے تو اس بل پر آواز اٹھائیں۔ ورنہ جب آپ کے ادارے کے سربراہ کو پابند سلاسل کر دیا تب سڑک کے کنارے نعرے مارنے سے کیا حاصل؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments