آرٹیکل 370 کا خاتمہ: انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی اہم سیاسی جماعتیں گذشتہ ایک سال سے ’وینٹیلیٹر‘ پر کیوں ہیں؟


کشمیر

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں طویل قدغنوں اور کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے حالات کے باعث زمینی صورتحال انتہائی غیر یقینی ہے، اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ سیاست کا اُونٹ کس کروٹ بیٹھے گا

گذشتہ برس انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں لاک ڈاؤن کرنے اور یہاں سے غیر کشمیری سیاحوں اور یاتریوں کو نکالنے کے بعد پانچ اگست کی صبح جب یہ اعلان ہوا کہ کشمیر اب مکمل طور پر انڈیا کے وفاق میں ضم کیا جا چکا ہے تو کشمیر میں ایک سیاسی زلزلہ محسوس کیا گیا۔

’علیحدگی پسندوں‘ کو پہلے ہی قید کیا جا چکا تھا اور ہند نواز جماعتوں کے رہنماوں اور کارکنوں کو بھی جیلوں یا گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔

اب ان میں سے بیشتر رہنماوں کو رہا کیا جا چکا ہے لیکن لگ بھگ ایک سال گزرنے کے بعد بھی کشمیر میں کوئی خاص سیاسی سرگرمی نظر نہیں آ رہی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ سیاسی جماعتیں ’گونگی اور بہری‘ ہیں اور کشمیر کی روایتی سیاست گویا ’وینٹِلیٹر‘ پر ہے۔

آئیے کشمیر کی موجودہ سیاسی صورتحال کو اس کے تاریخی پسِ منظر میں دیکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

’اب کشمیریوں کا انڈیا سے اعتبار اٹھ گیا ہے‘

’ہمیں صرف یہ سمجھ آیا ہے کہ ہماری اب کوئی حیثیت نہیں‘

’کشمیر میں تو حکومت کو مُردوں سے بھی خطرہ محسوس ہوتا ہے‘

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ایک برس بعد کشمیری پنڈت کس حال میں ہیں؟

سو سالہ جبر کے بعد پہلی سیاسی جماعت

محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ، انڈیا، کشمیر

مبصرین کا کہنا ہے کہ کئی دہائیوں میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ سیاسی جماعتیں گونگی اور بہری ہیں اور کشمیر کی روایتی سیاست گویا وینٹِلیٹر پر ہے

صرف 82 سال قبل کشمیر میں کوئی سیاسی تنظیم نہیں تھی۔ جموں کے ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ مطلق العنان حکمران تھے اور حکومتی جبر کے خلاف جب جب مزاحمت ہوتی تھی اُسے طاقت کے ذریعے دبا دیا جاتا تھا۔

سنہ 1931 میں ایسے ہی بعض واقعات کے دوران گرفتار کیے گئے کشمیریوں کی جیل میں سماعت ہو رہی تھی کہ ایک قیدی نے نماز کے وقت اذان دے دی جس پر ڈوگرہ فوج نے اعتراض کیا۔ قیدیوں نے احتجاج کیا تو فوج نے ان پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں درجنوں قیدی مارے گئے۔

خبر عام ہوتے ہی کشمیر کے بیشتر اضلاع میں مزاحمت ہوئی اور فوجی کاروائیوں میں متعدد افراد مارے گئے۔

اُن دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ ہو کر کئی کشمیری نوجوان وطن لوٹے تھے جن میں شیخ محمد عبداللہ بھی شامل تھے۔ اُنھوں نے دیگر ہم خیال تعلیم یافتہ دوستوں کے ساتھ مل کر زخمیوں کی مدد کے لیے امدادی مہم چلائی۔ اس واقعے سے کشمیریوں میں سیاسی حرکت پیدا ہو گئی اور اسی دوران پہلی سیاسی جماعت جموں کشمیر مسلم کانفرنس کے نام سے وجود میں آ گئی۔

جموں کے چودھری غلام عباس اور شیخ محمد عبداللہ کے درمیان نظریاتی اختلافات کی وجہ سے سنہ 1938 میں شیخ محمد عبداللہ نے تنظیم کا نام نیشنل کانفرنس رکھا اور یہ جماعت پورے کشمیر کی نمائندہ سیاسی جماعت بن گئی اور ڈوگرہ شاہی کے خلاف سو سال میں پہلی بار مزاحمت کرنے کے لیے شیخ محمد عبداللہ کو ’شیرِ کشمیر‘ کے نام سے پُکارا جانے لگا۔

بعد میں برٹش انڈیا کی تقسیم کے دوران شیخ عبداللہ نے الحاقِ پاکستان کے نظریہ کے خلاف ’خودمختار کشمیر‘ کا نعرہ بلند کیا اور انڈیا کے ساتھ مہاراجہ کے مشروط الحاق کی توثیق کر دی۔

کشمیر کے وزیراعظم بھی گرفتار

انڈیا پاکستان جنگ کے بعد جب کشمیر کا ایک تہائی حصہ پاکستان کے زیرِ انتظام چلا گیا اور جنگ بندی لائن کے نام پر ایک عبوری سرحد کھینچ لی گئی تو کشمیر کا دوتہائی حصہ یعنی جموں کشمیر انڈین وفاق کے تحت ایک نیم خودمختار خطہ بن گیا اور نیشنل کانفرنس اس خطے کی پہلی اور سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی۔

الحاق کی شرائط کے مطابق کشمیر کے حکمران کو ’وزیرِ اعظم‘ اور گورنر کو ’صدرِ ریاست‘ کہا جانے لگا۔

لیکن چند سال بعد ہی انڈیا کے خلاف سازش کے الزام میں کشمیر کے پہلے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ کو گرفتار کیا گیا اور اُن کے قریبی ساتھی بخشی غلام محمد کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔

اگلے دس سال کے دوران نیم خودمختاری کو بتدریج کمزور کیا گیا اور اب وزیراعظم کا عہدہ وزیر اعلیٰ کہلایا اور صدر ریاست کو گورنر کہا جانے لگا۔

شیخ عبداللہ بائیس سال تک جیل میں رہے اور اس دوران کشمیر میں اُن کی ایما پر رائے شماری کی تحریک چلی۔ وہ رہا ہوئے تو حکومت ہند کے ساتھ مفاہمت کے بعد اُنھوں نے وزیرِ اعلیٰ کا عہدہ قبول کر لیا۔ تب تک انڈیا کی اُس وقت کی حکمراں جماعت کانگریس نے کشمیر میں پیر پسار لیے تھے۔

شیخ عبداللہ کا سمجھوتہ

دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد شیخ عبداللہ نے مطالباتی سیاست شروع کی۔ چونکہ خود مختاری کشمیریوں کے جذبات کے قریب تر تھی، نیشنل کانفرنس کا بنیادی نعرہ ’اٹانومی‘ کو واپس لانا قرار پایا۔

اسی نعرے کے بل پر شیخ عبد اللہ، اُن کے بیٹے فاروق عبد اللہ اور پوتے عمرعبد اللہ نے کم و بیش تین دہائیوں تک کشمیر پر حکومت کی۔

سنہ 1998 میں کارگل جنگ کے بعد ہونے والی مسلح شورش کے دوران نیشنل کانفرنس پر پولیس کو لامحدود اختیارت دے کر عوام پر ظلم کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔

اسی معاملے کو اُچھالتے ہوئے سابق کانگریسی مفتی محمد سعید جموں کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کا قیام عمل میں لائے اور صرف چار سال کے اندر کشمیر کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔

انھوں نے ہند پاک دوستی، عزت کے ساتھ امن، خود حکمرانی اور کنٹرول لائن کے دونوں جانب کشمیریوں کے درمیان رابطے بحال کرنے جیسے نعرے دیے جو مقبول ہوئے۔

’کشمیر کی سیاست پر سرجیکل سٹرائیک‘

گذشتہ برس کشمیر کی رہی سہی خود مختاری کو ختم کر کے خطے کو انڈین وفاق میں مکمل طور پر ضم کیا گیا تو گویا یہ نیشنل کانفرنس کی اٹانومی اور پی ڈی پی کی حکمرانی کے خلاف سرجیکل سٹرائیک تھی۔ دونوں جماعتوں کے سبھی کلیدی رہنما اور کارکن گرفتار کیے گئے۔

نئی دلی میں حکمراں بی جے پی نے اعلان کیا کہ کشمیریوں کو جذباتی نعروں سے استحصال کیا جاتا رہا ہے، اور اب کشمیر میں تعمیروترقی اور خوشحالی کی سیاست ہو گی۔ بی جے پی کے بغیر گذشتہ ایک سال سے کوئی بھی سیاسی جماعت سرگرم نہیں ہے۔

پی ڈی پی سے ناراض کارکنوں اور سابق وزرا نے گذشتہ برس نہایت کشیدہ صورتحال کے درمیان ’اپنی پارٹی‘ نام سے نئی جماعت تشکیل دی جس کے سربراہ الطاف بخاری، وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کر چکے ہیں۔

اپنی پارٹی کس کی پارٹی ہے؟

بی بی سی بات کرتے ہوئے الطاف بخاری کا کہنا تھا ’کون کہتا ہے کہ سیاست ختم ہو گئی۔ سیاسی سرگرمیوں پر کوئی پابندی نہیں۔ اُن لوگوں (نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی) نے خاموشی اختیار کی ہے، اور اب خاموشی اُن کی سیاست ہے۔ لیکن لوگوں کے مسائل ہیں، ہم اُن ہی مسائل کو اُٹھاتے ہیں اور مرکزی حکومت سے اُن مسائل کو حل کرواتے ہیں۔‘

تاہم الطاف بخاری پر اکثر حلقے سودا بازی کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ ’مجھے کہتے ہیں کہ بیچ دیا۔ ارے بھائی بیچنے کے لیے کیا ہے؟ ہاں یہ کہیے کہ میں واپس لینے کی جدوجہد کرتا ہوں۔‘

الطاف بخاری اعتراف کرتے ہیں کہ منتخب حکومت کے بغیر جمہوریت پھل پھول نہیں سکتی۔ لیکن وہ لوگوں کا جذباتی استحصال نہ کرنے پر زور دیتے ہیں۔ ’ہم قابل حصول باتوں کا ذکر کرتے ہیں، جو ممکن نہ ہو ہم وہ کیوں مانگیں۔ ہم نے کہا ہے کہ کشمیر سے چھینا گیا ریاست کا درجہ واپس لیں گے، ہم وہ بات یہاں بھی کریں گے اور دلی میں بھی۔‘

فی الوقت نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی مختصر اخباری بیانات تک محدود ہیں۔ ٹوئٹر پر ایک زمانے میں سیاسی بیانات سے کہرام مچانے والے عمرعبد اللہ بھی اب غیرسیاسی باتیں کرتے ہیں۔

چھتیس گڑھ کے وزیراعلیٰ نے الزام عائد کیا ہے کہ عمر کے بہنوئی کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں اسی لیے چلے گئے کیونکہ بی جے پی نے اُن سے عمر کو رہا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

عمر عبداللہ کی رہائی کو ایک ڈیل قرار دینے پر نیشنل کانفرنس نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے تاہم یہ جماعت ابھی تک خودمختاری کے اپنے مطالبے کو لے کر کوئی ٹھوس لائحہ عمل سامنے نہیں لائی ہے۔

شیخ عبداللہ کے بیٹے اور فاروق عبداللہ کے بھائی شیخ مصطفیٰ کمال کہتے ہیں کہ ’حکومت ہند کو دیکھنا ہو گا کہ یہاں لوگ مرنے کے لیے تیار ہیں، اب بھی موقع ہے کہ بات چیت کریں اور لوگوں کی عزت اور وقار کو بحال کیا جائے۔‘

تجزیہ نگار اور سول سوسائٹی کارکن عبدالمجید زرگر کشمیر میں سیاسی ارتقا کو علاقائی تبدیلیوں کے پس منظر میں دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ’ابھی چین کے ساتھ معاملات ٹھیک نہیں ہوئے۔ پاکستان اور چین کی قربت کا معاملہ ہے۔ انڈیا کو کمزور پڑوسی بھی آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ ایسے میں دلی والے یہاں کی سیاست کو دبا کر اچھا کام نہیں کر رہے۔‘

لیکن طویل قدغنوں اور اب کورونا وائرس سے پیدا شدہ حالات کے باعث زمینی صورتحال انتہائی غیر یقینی ہے، اور یہ کوئی نہیں جانتا کہ سیاست کا اُونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32296 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp