دہلی فسادات پر اقلیتی کمیشن کی رپورٹ: سنہ 1931 کے کانپور فسادات سے سنہ 2020 کے دہلی فسادات تک، 89 برسوں میں کچھ نہیں بدلا؟


آج سے لگ بھگ 89 برس قبل یعنی 24 مارچ سنہ 1931 کو انڈیا کے معروف شہر کانپور میں بڑے پیمانے پر فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوئے جو کئی دنوں تک جاری رہے۔

رواں برس 23 فروری کو انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے گنجان آباد شمال مشرقی علاقے میں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکے اور کانپور فسادات کی طرح یہ بھی کئی روز تک جاری رہے۔

یہ محض اتفاق نہیں کہ ہندوستان نے آزادی تو حاصل کر لی لیکن 89 سال بعد بھی انڈیا کا مزاج نہ بدل سکا۔

89 برس قبل اُس وقت انگریز حکومت سے آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی آل انڈیا کانگریس پارٹی نے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی جس نے بڑے پیمانے پر لوگوں کی شہادتیں ریکارڈ کرنے کے بعد اُسی سال رپورٹ پیش کی لیکن اس کی اشاعت میں تاخیر ہوئی کیونکہ چھ رکنی تحقیقاتی کمیٹی کے بیشتر ارکان کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ لیکن پھر بھی یہ رپورٹ سنہ 1933 میں شائع ہو گئی۔

رواں سال دہلی میں ہونے والے فسادات میں دہلی اقلیتی کمیشن نے نو مارچ کو ایک دس رکنی کمیٹی تشکیل دی جو بعد میں نو رکنی رہ گئی اور کورونا کی وبا سے حفاظت کے لیے 24 مارچ سے ملک بھر میں نافذ سخت لاک ڈاؤن کے سبب سست روی کا شکار ہونے کے باوجود 27 جون کو کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کر دی۔

اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام نے بی بی سی کو بتایا کہ اشاعت کے بعد اس رپورٹ کو 16 جولائی کو ریلیز کر دیا گیا ہے جس میں ایک باضابطہ تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کے مطالبے کے ساتھ ساتھ چند دیگر سفارشات بھی شامل ہیں۔

کانپور فسادات کے متعلق تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کو نیشنل بک ٹرسٹ نے معروف تاریخ داں بپن چندر کے چیئرمین رہتے ہوئے تلخیص کے ساتھ سنہ 2006 میں از سر نو شائع کیا تھا۔

کانگریس رہنما بھگوان داس ٹنڈن نے سنہ 1931 میں لکھا کہ ’کانپور فسادات تو اس ناسور کا شدید ترین مظاہرہ تھا جو گذشتہ دس بارہ برسوں سے بہت تیزی سے پنپ رہا تھا، جس کے جراثیم ہندوستان کی سیاست نے کم سے کم چند نسل پہلے چھوڑے تھے۔‘

کانپور فسادات پر تحقیقاتی کمیٹی رپورٹ

سنہ 1931 کے کانپور فسادات پر تحقیقاتی کمیٹی رپورٹ کو نیشنل بک ٹرسٹ نے سنہ 2006 میں دوبارہ مختلف زبانوں میں شائع کیا

دہلی فسادات پر تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے دیباچے میں لکھا گیا ہے کہ ’دہلی کے شمال مشرقی علاقے میں 23 فروری 2020 کو جو پرتشدد واقعات ہوئے اور کئی دنوں تک بلا روک ٹوک جاری رہے وہ بظاہر ایک فرقہ کو، جنھوں نے ایک امتیازی قانون (سی اے اے) کی مخالفت کی تھی، باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ سبق سکھانے کے لیے کیے گئے تھے۔‘

خیال رہے کہ انڈیا میں شہریت کا ترمیمی قانون 2019 انڈیا کے تین پڑوسی ممالک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے غیر قانونی طور پر انڈیا آنے والی چھ مذہبی اقلیتی برادریوں (ہندو، بدھ، جین، سکھ، پارسی اور مسیحی) کو شہریت دینے کی بات کرتا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس میں مسلمانوں کا شامل نہ کیا جانا جانبداری کا مظہر ہے اور یہ کہ تین ممالک کو ہی شامل کیا جانا غیر منطقی ہے۔

حکومت کا موقف ہے کہ یہ قانون شہریت دینے کے لیے ہے نہ کے لینے کے لیے، لیکن پیر 13 جنوری 2020 کو حزب اختلاف کی اہم جماعت کانگریس کی قیادت میں پارلیمان کے احاطے میں مختلف پارٹیوں کی میٹنگ میں یہ قرارداد منظور کی گئی کہ ‘سی اے اے، این آر سی، اور این پی آر ایک غیر قانونی پیکج ہے جو بطور خاص غریبوں، پسماندہ طبقوں، دلتوں، لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بناتا ہے اور این پی آر ہی این سی آر کی بنیاد ہے۔‘

یہاں کانپور کے فسادات سے ایک دو اور باتیں یکساں نظر آتی ہیں۔ یہاں بھی ’آزادی‘ کا ذکر ہے اور یہاں بھی ‘غداری’ کے چارجز ہیں، ہر چند کہ یہ چارجز اقلیتی امور کے اس وقت کے چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کی ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے متعلق ہیں جس میں انھوں نے کویت کی حکومت کا مسلمانوں کے حال کا نوٹس لینے کے لیے شکریہ ادا کیا تھا۔

کپل مشرا

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کپل مشرا کے بیان کے بعد ہی فرقہ وارانہ فسادات کی آگ بھڑک اٹھی

رواں سال فروری کے آخری ہفتے کے دوران دہلی میں ہونے والے فسادات کے نتیجے میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 53 افراد کی ہلاکت ہوئی اور کم از کم ڈھائی سو افراد زخمی ہوئے، املاک کے نقصانات کروڑوں میں ہیں۔ مرنے والوں میں زیادہ تر یعنی تین چوتھائی تعداد اقلیتی برادری یعنی مسلمانوں کی ہے۔

اس رپورٹ کے بارے میں بی بی سی نے جب اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی سے رجوع کیا تو انھوں اس رپورٹ کی بہت سی باتوں کو مسترد کر دیا تاہم انھوں نے بی جے پی رہنما اور رکن پارلیمان انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کے دہلی اسمبلی کی انتخابی مہم کے دوران کی جانے والی تقاریر کو غلط کہا۔

بی جے پی کے رکن پارلیمان پرویش ورما نے 28 جنوری کو ایک نیوز ایجنسی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’لاکھوں لوگ وہاں (شاہین باغ) جمع ہیں۔ دہلی کے عوام کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا پڑے گا۔ وہ آپ کے گھروں میں گھس جائیں گے، آپ کی بہنوں اور بیٹیوں کا ریپ کریں گے، انھیں ماریں گے۔ آج وقت ہے، مودی جی اور امیت شاہ کل آپ کو بچانے نہیں آئیں گے۔‘

اسی دوران 20 جنوری کو ایک ریلی میں بی جے پی کے انوراگ ٹھاکر نے لوگوں سے پوچھا ’دیش کے غداروں کو‘ جس کے جواب میں وہاں موجود ہجوم نے جواب دیا ’گولی مارو … کو۔‘

اس کے علاوہ دہلی انتخابات میں بی جے پی کے امیدوار کپل مشرا نے 23 فروری کو کہا تھا ’جب تک امریکی صدر انڈیا کے دورے پر ہیں ہم اس وقت تک پُرامن رہیں گے لیکن اگر تین دن میں جعفر آباد اور چاند باغ کی سڑکیں خالی نہیں کی گئیں تو اس کے بعد ہم پولیس کی بھی نہیں سنیں گے، سڑکوں پر آ جائیں گے۔‘

ڈاکٹر ظفرالاسلام خان

دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کہتے ہیں کہ وہ 24 تاریخ سے ہی فسادات کے متعلق پریشان تھے اور حکام سے رابطے میں تھے

ظفر الاسلام خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ 24 تاریخ سے ہی فسادات کے متعلق پریشان تھے اور حکام سے رابطے میں تھے۔

27 فروری کو فسادات کی آگ بجھنے کے بعد انھوں نے دو مارچ کو ان علاقوں کا دورہ کیا اور دہلی حکومت سے تحقیقاتی کمیشن قائم کرنے کی اپیل کی۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’آپ تو جانتے ہی ہیں کہ دہلی میں اقتدار کے دو سرے ہیں۔ ایک حکومتِ دہلی اور ایک مرکزی حکومت کی جانب سے لیفٹیننٹ گورنر۔ جب انھوں نے ہمارے خطوط کا جواب نہیں دیا تو پھر ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اقلیتی امور کے کمیشن کو بھی اس طرح کی کمیٹی کی تشکیل کا حق ہے اور پھر ہم نے اپنے طور پر ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل دی جس میں مختلف مذاہب جیسے ہندو، مسلم، سکھ، مسیحیت سے تعلق رکھنے والے اہم اور سرکردہ افراد شامل تھے۔‘

انھوں نے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے تشکیل کے بارے لکھا ہے کہ ’15 دسمبر سنہ 2019 کے بعد سے سی اے اے، این آر سی کی مخالفت میں پُرامن مظاہرین کے خلاف دہلی پولیس اور غنڈوں کے ہاتھوں دہلی پریشان ہے۔‘

اقلیتی امور کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں دہلی پولیس کی غیرجانبداری پر سوال اٹھایا گیا ہے اور کہیں کہیں اسے فسادیوں کا ساتھ دینے والا، کہیں خاموش تماشائی اور کہیں اپنے کردار کے ساتھ انصاف کرنے والا بتایا گیا ہے۔

پولیس نے اس رپورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے بلکہ وہ فسادات سے متعلق چارج شیٹ داخل کرنے میں مشغول ہے۔

رپورٹ میں اس بات پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے کہ بی جے پی کے جس رہنما کپل مشرا کے اشتعال انگیز بیان کے بعد فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے پولیس نے اب تک ان کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی ہے جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کافی شواہد نہیں ہیں، اس لیے ایف آر درج نہیں کی گئی ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32483 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp