کلبھوشن جادھو: حکومت پاکستان مبینہ انڈین جاسوس کو تیسری قونصلر رسائی دینے کے لیے انڈین حکومت سے رابطہ کرے


کلبھوشن جادھو

پاکستان نے کلبھوشن جادھو کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی

اسلام آباد ہائی کورٹ نے مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن جادھو کو تیسری قونصلر رسائی دینے کے لیے حکومتِ پاکستان کو انڈیا کی حکومت سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے اٹارنی جنرل کو یہ بھی ہدایت کی کہ وہ انڈیا اور کلبھوشن جادھو کو ایک مرتبہ پھر قانونی نمائندہ مقرر کرنے کی پیشکش کریں۔

پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے حکومتِ پاکستان کی کلبھوشن جادھو کو وکیل فراہم کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کلبھوشن جادھو کو کسی بھی قیدی کی طرح مکمل حقوق دیے گئے ہیں جبکہ انڈیا کو دی گئی تیسری قونصلر رسائی کا راستہ اب بھی کھلا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

کلبھوشن جادھو: ’انڈین سفارتکاروں نے بات ہی نہیں کرنی تھی تو رسائی کیوں مانگی‘

کلبھوشن جادھو کا سزا کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے سے انکار

جاسوسی کا الزام: پاکستانی سفارتی عملے کے اراکین کو انڈیا چھوڑنے کا حکم

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں دعویٰ کیا کہ ایسا لگ رہا ہے کہ انڈیا اس معاملے پر بھاگ رہا ہے کلبھوشن جادھو کے لیے وکیل مقرر کرنے سے گریزاں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستانی حکومت کو انڈین حکومت سے کلبھوشن جادھو کو قانونی نمائندہ فراہم کرنے کے لیے رابطہ کرنا چاہیے۔ انھوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ وہ یہ معاملہ کلبھوشن جادھو کے سامنے رکھیں اور انھیں بتائیں کہ درخواست ہائی کورٹ میں ہے۔

انھوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ حکومت دفتر خارجہ کے ذریعے انڈیا سے رابطہ کر کے کلبھوشن وکیل فراہم کرنے کا ایک اور موقع دے، اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر عدالت حکم دیتی ہے تو دفتر خارجہ انڈین حکومت سے رابطہ کرے گی۔

کلبھوشن

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’ہمارے لیے یہ باعث مسرت ہو گا اگر انڈیا خود سے کلبھوشن جادھو کے لیے وکیل مقرر کرے۔‘ اس پر عدالت نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ انھیں اس کام کے لیے کتنا وقت درکار ہو گا جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انھیں تین ہفتوں کا وقت دیا جائے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ کلبھوشن جادھو کو فیئر ٹرائل کا مکمل حق ملنا چاہیے اور عدالت میں کیس کی سماعت کے دوران بیان بازی سے گریز کیا جائے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پاکستان نے کبھی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی اور اس حوالے سے تمام تر بین الاقوامی قوانین پر عمل کیا جا رہا ہے۔

اٹارنی جنرل نے دعویٰ کیا کہ انڈیا کلبھوشن کیس میں نقائص تلاش کر کے ریلیف لینا چاہتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ عالمی عدالت کی ہدایت پر کلبھوشن کو اپیل کا اختیار دینے کے لیے آرڈیننس جاری کیا گیا ہے اور اگر کوئی قیدی اپنے لیے وکیل نہ کر سکے تو عدالت اسے اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے وکیل مہیا کرتی ہے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ کلبھوشن جادھو کے لیے عدالت قانونی نمائندہ مقرر کرے اگرچہ کمانڈر جادھو پر دہشت گردی میں پاکستانیوں کا قتل عام ثابت ہو چکا ہے تاہم پاکستان پھر بھی انھیں شفاف ٹرائل کا حق دے رہا ہے۔

انھوں نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن جادھو کو رہا کرنے کی انڈین استدعا مسترد کی ہے اور اب انڈیا یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ کلبھوشن جادھو کو قونصلر رسائی نہیں دی جا رہی۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان یقینی بنانا چاہتا ہے کہ وہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق اپنا فریضہ پورا کرے کیونکہ پاکستان جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا۔

اٹارنی جنرل کے مطابق حکومت پاکستان نے اس لیے عدالت سے کلبھوشن جادھو کو وکیل فراہم کرنے کی درخواست دائر کی ہے جبکہ آرمی چیف کے سامنے رحم کی اپیل انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں کیس جانے کے باعث تاحال زیرالتوا ہے۔

ہائی کورٹ

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کلبھوشن جادھو کی سزائے موت پر عملدرآمد کے خلاف سٹے آرڈر اب بھی موجود ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ یہ سٹے آرڈر اب بھی موجود ہے۔

بینچ کے رکن جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا انڈیا نے قونصلر رسائی دونوں بار قبول کی جس پر اٹارنی جنرل نے آگاہ کیا کہ انڈیا نے دو بار قونصلر رسائی لی جبکہ تیسری بار رسائی نہیں لی گئی۔

سماعت شروع ہونے پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ حکومت کلبھوشن جادھو کے حوالے سے آرڈیننس کیوں لائی اور اس معاملے پر نظرثانی کی درخواست کیوں دائر کی گئی۔

انھوں نے اٹارنی جنرل سے کیس کا مکمل بیک گراؤنڈ بتانے کا کہا۔ جس کے جواب میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو کو پاکستان سے گرفتار کیا گیا اور انھوں نے اپنے بیان میں اعتراف جرم کیا جس کے بعد ان پر آرمی ایکٹ کے ذریعے ٹرائل چلایا گیا اور انھیں موت کی سزا سنائی گئی۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اپریل 2017 میں آرمی چیف کی جانب سے سزائے موت کی توثیق کی گئی اور اس کے بعد دائر ہونے والی ایک درخواست میں اس سزا کو برقرار رکھا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ 17 جولائی 2019 کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس نے نظر ثانی اپیل کا فیصلہ ہونے تک سزائے موت کے حکم پر عملدرآمد کو روک دیا لیکن کمانڈر جادھو نے نظرثانی درخواست دائر کرنے سے انکار کر دیا اور 5 جون 2020 کو انڈیا کو آرڈیننس سے متعلق آگاہ کیا گیا۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انڈین حکومت آرڈیننس سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی نہیں لی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32509 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp