پنجاب: زہریلی شراب سے ہلاکتیں، کیا ماسٹر مائنڈ ایک خاتون ہے؟


انڈیا کی مغربی ریاست پنجاب میں زہریلی شراب پینےکے ایک واقعے میں اب تک 104 افراد کی موت ہو چکی ہے۔ نقلی شراب پینے سے ہونے والی اموات کا یہ واقعہ ریاست کا اس نوعیت کا سب سے بڑا حادثہ ہے۔

یہ سانحہ پنجاب کے تین سرحدی اضلاع امرتسر، گروداس پور اور ترن تارن میں پیش آیا ہے۔

اس پورے معاملے میں حکومت پنجاب نے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے کم سے کم سات اہلکاروں کو معطل کردیا ہے۔ اس کے علاوہ ڈیوٹی میں غفلت برتنے پر پنجاب پولیس کے سات اہلکاروں کو معطل کردیا گیا ہے۔

اس معاملے میں 25 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور بڑی مقدار میں غیر قانونی شراب برآمد کی گئی ہے۔ ریاست میں سینکڑوں مقامات پر چھاپے مارے گئے ہیں۔

یہ حادثہ پنجاب میں اس وقت سامنے آیا ہے جب ابھی ریاست کورونا وائرس کی وبا سے لڑ رہی ہے۔

متاثرہ خاندانوں کو دو لاکھ روپے کا معاوضہ

وزیراعلیٰ پنجاب کیپٹن امریندر سنگھ نے مہلوکین کے اہل خانہ کو دو لاکھ روپے کی مالی مدد کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ نے مجرموں کے خلاف مناسب کارروائی کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔

ریاست کی اپوزیشن جماعتیں اس سانحے کا الزام حکومت پر عائد کررہی ہیں۔ امرتسر کے موچل گاؤں میں متاثرین سے ملاقات کے بعد شرومنی اکالی دل کے سربراہ سکھبیر سنگھ بادل نے پریس کانفرنس کی۔ اس گاؤں میں اب تک دس افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

پریس کانفرنس میں بادل نے کہا کہ غم کی اس گھڑی میں وزیر اعلیٰ کو متاثرین کے اہل خانہ کے ساتھ ہونا چاہئے تھا۔ بادل نے کہا کہ امرتسر میں اس پورے معاملے کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

سکھبیر سنگھ بادل نے کہا کہ غیر قانونی شراب کی وجہ سے ٹیکس میں 5600 کروڑ روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

اس شراب پینے سے موچھل گاؤں کے سابق سرپنچ سکھبیر سنگھ کے کزن جسونندر سنگھ کی بھی موت ہوگئی ہے۔ انھوں نے بی بی سی پنجابی کے رویندر سنگھ رابن کو بتایا کہ غیر قانونی شراب اور کاروبار کے درمیان بہت مضبوط گٹھ جوڑ ہے۔

پولیس، رہنماؤں اور مجرموں کی سانٹھ گانٹھ

سکھبیر کا کہنا ہے کہ اس کے ماسٹر مائنڈ کی رسائی اعلیٰ حکام تک ہے اور وہ اب بھی سب کچھ کھلے عام کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ‘پولیس پورے ماڈل کو سمجھتی ہے۔’

سکھبیر کے مطابق پولیس کو غیر قانونی شراب کی سپلائی چین کا بھی علم ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پولیس بھی پورے معاملے میں فریق ہے اور وہ بھی مجرموں کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔’

انھوں نے کہا: ‘اس کاروبار میں شامل لوگوں کو سیاسی شہ ملی ہوئی ہے کیونکہ اس میں بے حساب پیسہ ہے۔ اگر وہ چھوٹی مچھلیوں کو گرفتار کر لیتے ہیں تو پھر وہ بڑی بڑی مچھلیوں تک آسانی سے پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن ان گرفتاریوں سے عوامی غم و غصے میں اضافے کا خدشہ رہتا ہے۔’

اس معاملے میں پولیس نے اب تک 25 افراد کو گرفتار کیا ہے اور تقریباً 100 جگہ چھاپے مارے ہیں۔ یہ گرفتاریاں اور چھاپے پنجاب ہریانہ کے سرحدی علاقوں میں ہوئے ہیں۔

کھدور صاحب لوک سبھا حلقہ کے رکن پارلیمان جسبیر سنگھ ڈیمپا موچھل میں متاثرہ افراد کے لواحقین سے ملنے گئے۔ امرتسر اور ترن تارن میں 75 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ ڈیمپا کانگریس پارٹی کے رکنر ہیں اور انھوں نے عوام کو حکومت پنجاب کے اقدامات سے آگاہ کیا۔

ڈیمپا نے وعدہ کیا کہ اگر اس پورے معاملے میں سرکاری ملازمین کی غفلت سامنے آتی ہے تو ان کے خلاف مناسب کارروائی کی جائے گی۔ جن خاندانوں نے اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے ان سب کی اپنی اپنی کہانیاں ہیں۔

منھ سے جھاگ اور بے ہوشی

جسوندر سنگھ کی اہلیہ ویرپال کور کا کہنا ہے کہ جب ان کے شوہر گھر آئے تو ان کی آنکھیں جل رہی تھیں اور سینے میں درد تھا۔ اس کے بعد ان کے منہ سے جھاگ نکلنے لگا اور ہسپتال لے جانے کے بعد ان کی موت ہوگئی۔

ایسی کہانیاں بہت سارے متاثرین کی ہیں۔ تلک راج اس سانحے میں زندہ بچ جانے والوں میں شامل ہیں۔ صحت مند ہونے کے بعد انھیں اسپتال سے فارغ کردیا گیا ہے۔

تلک نے بی بی سی پنجابی کو بتایا کہ انھیں پولیتھلین میں غیرقانونی شراب ملی۔ لوگ اس شراب کو کوڈ ورڈ میں ‘فروٹٹی’ کہتے ہیں۔

تلک نے یہ فروٹٹی بتالا سے خریدی تھی۔ انھوں نے بتایا: ‘میں نے 50 روپے میں خریدی تھی۔ میں پہلے پیگ میں بے قابو ہو گیا۔ میں نہیں دیکھ سکتا تھا۔ میں نے فوری طور پر ڈاکٹر سے رابطہ کیا۔

ڈاکٹر نے تلک کو سرکاری ہسپتال ریفر کردیا۔ تلک کہتے ہیں: ‘کسی نے بھی انھیں سرکاری ہسپتال میں سنجیدگی سے نہیں لیا۔ لیکن بعد میں جب انتظامیہ حرکت میں آگئی تو مجھے ٹھیک سے داخل کرایا گیا۔’

مرنے والوں میں بیشتر غریب مزدور

بتالا کی بیٹی نندر کور نے بتایا کہ ان کے والد بے ہوشی کی حالت میں تھے اور وہ دیکھ نہیں سکتے تھے۔ ان کے منہ سے جھاگ نکل رہا تھا اور وہ فورا گر پڑے۔

زیادہ تر متاثرین روزانہ مزدوری کرنے والے مزدور یا چھوٹے کسان اور مویشی پالنے والے تھے۔ اس کیس کے ملزمان بھی اسی معاشرے سے ہیں۔

اس مقدمے میں ایک 50 سالہ خاتون کو غیر قانونی شراب بنانے والوں کی سرغنہ کے طور پر گرفتار کیا گیا ہے۔ اس شراب سے ملزمہ کے شوہر کی بھی موت ہوگئی ہے اور کہا جارہا ہے کہ وہ بھی اسی المیے کا شکار ہوئے۔

پڑوسی بلویندر سنگھ کے بیٹے ہرجیت سنگھ نے بتایا کہ ملزمہ کنبہ تقریباً دو دہائیوں سے غیرقانونی شراب کے کاروبار میں ملوث ہے۔

جندیالہ گرو میں تعینات ڈی ایس پی منجیت سنگھ نے بی بی سی پنجابی کو بتایا کہ اس سے پہلے بھی ملزمہ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

انھوں نے کہا: ‘ہم نے آئی پی سی کی دفعہ 304 کے تحت انھیں گرفتار کیا ہے۔ ملزمہ کو دو دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کیا گیا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ آٹھ سال پہلے پیش آیا تھا۔

اگست 2012 میں ضلع گورداس پور کے ضلع ننگل میں پیش آنے والے اس قسم کے واقعے میں اس وقت 17 افراد فوت ہوگئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp