کیا رام مندر کا سنگ بنیاد انڈیا کو ایک ہندو ملک بنانے کی طرف ایک اور قدم ہے


جواہر لال نہرو

1951 سے جس بحث کی شروعات ہوئی تھی اب وہ بحث فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ چکی ہے۔

گجرات میں جب سومناتھ مندر کی تعمیر نو کے بعد اس کے افتتاح کی تاریخ رکھی گئی اور انڈیا کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کو بلاوا بھیجا گیا تو اس وقت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو چاہتے تھے کہ مذہبی معاملات کو قومی معاملات سے الگ رکھا جائے اور انہوں نے راجند رپرساد کو مشورہ دیا کہ وہ اس پروگرام کا حصہ نہ بنیں۔

کئی صدیوں کے دوران متعدد بار مسلم بادشاہوں کے حملوں کے بعد منہدم سومناتھ مندر کی تعمیر نو کا آغاز 1947 میں اس وقت ہوا جب اس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے اس مندر کا دورہ کیا تھا۔

نہرو کو تشویش تھی کہ حکومت ہند کی جانب سےاس طرح کے پروگرام کی حمایت سے تقسیم کے بعد لوگوں میں پیدا ہونے والی دراڑیں مزید گہری ہو جائیں گی۔ نہرو نے راجندر پرساد کو ایک خط میں لکھا ‘مجھے لگتا ہے کہ سومناتھ مندر کے معاملے میں ایسے وقت میں اتنے بڑے پروگرام میں جانا مناسب نہیں ہے’۔

ڈاکٹر راجندر پرساد نے نہرو کے مشورے کو تسلیم نہیں کیا اور پروگرام میں حصہ لیا۔ تاہم وہاں انہوں نے ‘گاندھی کے نظریے، سیکولرازم اور بحالی امن پر زور دیا۔

سومناتھ مندر

سومناتھ مندر کی تعمیر نو اور5 اگست 2020 کو ایودھیا میں رام مندر کی سنگ بنیاد کی تقریب کا موازنہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ان دونوں کا موازنہ درست نہیں ہے۔

پہلی بات یہ ہے کہ اس بار ملک کے صدر رام مندر پروگرام کے مہمان خصوصی نہیں ہیں جیسا کہ سومناتھ مندر کے معاملے میں تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم حکومت سے وابستہ لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ وہ اس پروگرام سے دوررہیں جبکہ آج کے وزیراعظم اپنے ہاتھوں سے چاندی کی اینٹیں فاؤنڈیشن میں ڈالنے جارہے ہیں۔

بڑے پیمانے کا یہ پروگرام ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پوری دنیا کورونا وائرس کی وبا سے لڑ رہی ہے اور انڈیا میں کووڈ 19 کے کیسوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے یہاں تک کے ملک کے وزیر داخلہ بھی کورنا وائرس ک شکار ہیں۔ ملک کی معیشت انتہائی سست روی کا شکار ہے اورانڈیا کی مشرقی سرحد پر سلامتی تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ ایسی صورتحال میں نہ صرف رام مندر پروگرام اعلیٰ پیمانے پر منظم کیا جارہا ہے بلکہ پورے ملک کو اسے تہوارکا ماحول بنانے کے لیے تیارکیا جا رہا ہے۔

ایودھیا

ایودھیا

عقیدت کامعاملہ

ہندو بھگوان شری رام کی جائے پیدائش ایودھیا، انڈیا کے ایک انتہائی خوبصورت شہروں میں سے ایک ہے۔ یہ سرائیو ندی کے کنارے واقع ہے اور اس شہر کی ایک اہم تاریخ رہی ہے۔

جو بدھ مت پر یقین رکھتے ہیں وہ اس جگہ کو ساکیت کہتے ہیں۔ 15 جولائی کو آزاد بدھ مت کے ماننے والوں نے ایک روزہ بھوک ہڑتال کی تھی جس میں بدھ بھکشوؤں نے دعوی کیا تھا کہ رام جنم بھومی کا صحن ایک قدیم بودھ سرزمین ہے اور یونیسکو کو اس جگہ کی کھدائی کر کے تفتیش کرنی چاہیے۔

اسی طرح، جین اور سکھ مذہب کے ماننے والے بھی اس جگہ کے ساتھ اپنا رشتہ بتاتے رہے ہیں۔ یہاں 400 سالوں سے بابری مسجد تھی۔ یعنی مجموعی طور پر یہ انڈیاکی مخلوط ثقافت کا ایک مرکز رہا ہے اور اگر سیاسی قوتِ اردای ہوتی تو اسے اسی شکل میں دوبارہ قائم کیا جا سکتا تھا۔

لیکن ایودھیا کے اس مسئلے کو مختلف قسم کی سیاسی روٹیاں سیکنے کا ایک ذریعہ بنایا جاتا رہا ہےاور جسے مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے اورانڈیا کی نوجوان نسل میں دراڑیں پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

ایودھیا

ایودھیا (1990 کی فائیل فوٹو)

لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا

اس شہرکا سنگین ماضی رہا ہے۔ 1990 میں جب بی جے پی کے رہنما ایل کے اڈوانی نے ہندوستانیوں کو ‘بیدار کرنے’ کے لیے رتھ یاترا کا آغاز کیا تھا اسی وقت سیاسی رہنما اور اس وقت کے وزیر اعظم وی پی سنگھ کی حکومت نے منڈل کمیشن کی سفارشات پرعمل درآمد کیا۔

اڈوانی کی رتھ یاترا کو ‘منڈل کا جواب کمانڈل’ یعنی تیر کمان کہا جاتا تھا۔ آٹھ ریاستوں سے گزرتے ہوئے یہ رتھ یاترا چھ ہزار کلومیٹر سے زیادہ سفر کرنے جارہی تھی۔ سوا مہینے تک جاری رہنے والی رتھ یاترا کی وجہ سے ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں تقریباً 300 افراد کی موت، ہنگامے اور تشدد کے واقعات ہوئے تھے اس کے بعد اس وقت ریاست بہار کے وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے اڈوانی کا رتھ سمستی پور ضلع میں روک دیا تھا۔

1992 میں بابری مسجد کا انہدام بھی اموات کا ایک سلسلہ اپنے ساتھ لایا تھا اور ملک میں معاشرتی کشیدگی میں اضافہ ہوا تھا جس نے ہندوستانی جمہوریہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

2019 میں اگرچہ سپریم کورٹ نے تمام متنازعہ اراضی مندر ٹرسٹ کے حوالے کردی تھی لیکن عدالت نے ایودھیا تنازعہ کے بارے میں اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ 6 دسمبر 1992 کو مسجد کا انہدام قانون و نظم کی بے انتہائی خلاف ورزی تھا اور عبادت گاہ کو منہدم کرنا ایک سوچی سمجھی سازش تھی سپریم کورٹ کے بنچ نے کہا کہ مسلمانوں کو غلط طریقے سے مسجد سےمحروم کیا گیاجو 450 سال پرانی تھی۔

ایودھیا

بابری مسجد کے انہدام کے بعد متنازعہ مقام کو پولیس کی نگرانی میں کافی عرصے تک رکھا گیا

تمام مذاہب کا احترام

اس معاملے میں لبرہان کمیشن کے قیام کے کئی برس بعد بھی مسجد کومنہدم کرنے والوں کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ جس طرح 6 دسمبر 1992 کے واقعہ نے جمہوریہ ہند کی جڑوں کو دہلا دیا تھا اسی طرح اب یہ سنگ بنیاد ‘جمہوریہ ہند’ کی شکل تبدیل کرنے کی شروعات ہوگی، اس کے بعد کا ہندوستان کیسا ہوگا اس کاصرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔

مشہور کتاب ‘دی ایمرجنسی کرونیکلز’ کے مصنف پروفیسر گیان پرکاش کا کہنا ہے ‘مندرکی بنیاد رکھنے کی تقریب یکساں شہری حقوق کے آئینی اصول کی بنیاد پرایک حملہ ہے۔ اب انڈیا کا سیکولرنظام محفوظ نہیں ہے۔ بی جے پی کی حکومت اور عدلیہ ایک منظم انداز میں انڈیا میں ایک ‘خود مختار ہندو راشٹر’ کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔

انڈیا کی حکومت کا رویہ یہاں ‘تمام مذاہب کے احترام’ کے نظریہ کے بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ کچھ لوگوں کے مذہبی جذبات دوسروں کے جذبات سے زیادہ اہم ہیں۔ اسی دوران اس معاملے پر بات چیت کے دوران ‘مسلم’ فریق سے یہ کہا جاتا تھا کہ وہ اس معاملے کو ختم کریں اور اس سرزمین پر اپنا دعویٰ واپس لیں۔

نہرو کے دور کا خاتمہ

اوسلو یونیورسٹی میں سنٹر آف ریسرچ آن ایکسٹریم ازم کی سکالر ایویان لیڈیگ کا کہنا ہے کہ ‘یہ ہندوستانی جمہوریہ کو ایک نئی سمت لے جائے گا۔ جب وزیراعظم نریندرمودی 5 اگست کو رام مندر کا سنگ بنیاد رکھیں گے تو وہ ‘ہندوتوا’ تحریک کے لیے ایک تاریخی لمحہ ہوگا۔

‘ہندوتوا’ کی وہ تحریک جو 1992 میں بابری مسجد کے انہدام کے دوران سرخیوں میں آئی تھی اور اس دوران ہندوتوا کے نام پر جو چھوٹے موٹے تشدد کے واقعات ہوتے رہے تھے ان پراب حکومت کی حمایت کی مہر لگ جائے گی۔

وہ کہتی ہیں ‘اس اقدام سے یہ بھی طے ہوگا کہ ہندوتوا کو دوسرے مذاہب کے مقابلے میں زیادہ ترجیح ملے گی۔ یہ آخری بار نہیں ہوگا جب مودی حکومت ہندوتوا کے ایجنڈے کو قومی سطح پر لیجائے گی

اگر جمہوریہ ہند میں ‘نہرو دور’ کا خاتمہ ہورہا ہے تو یہ اس بات کی سب سے بڑی علامت ہے کہ انڈیا ان ممالک کی صف میں کھڑا ہونے جا رہا ہے جو شہریت کو مذہب سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔

معروف اسکالر کرسٹوف زیفرلے کا کہنا ہے کہ ‘سنگ بنیاد کے لیے جس تاریخ کا انتخاب کیا گیا ہے وہ مندر کے افتتاح سے زیادہ اہم ہے۔ اسی دن جموں و کشمیر کی خود مختاری چھین لی گئی تھی اور اسی تاریخ پر بابری مسجد کی جگہ رام مندر کوکھڑا کرنا ان دونوں اقدامات کا ایک مقصد ہے ‘انڈیا کو ایک ہندو قوم یا ہندو راشٹر بنانا’ اورانڈیا کے کثیر الثقافتی آئین کو کمزور کرنا۔ انڈیا اسرائیل، ترکی ، پاکستان اور اسی طرح ممالک کی راہ پر گامزن ہے۔’

مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو

9 اگست 1942 کو مہاتما گاندھی نے اپنے اخبار ‘ہریجن`’ میں لکھا تھا کہ ‘انڈیا ہراس فرد سے تعلق رکھتا ہے جو یہاں پیدا ہوا تھا، یہاں بڑا ہوا ہے اور جن کے پاس اپنا ملک کہنے کے لیے یہی ایک ملک ہے، لہذا یہ ملک پارسیوں، بینی اسرائیلوں، ہندوستانی عیسائیوں، مسلمان اور دوسرے غیر ہندؤں کا بھی اتنا ہی ملک ہے جتنا ہندوؤں کا۔ آزاد ہندوستان میں کوئی ہندو راج نہیں بلکہ بھارت راج ہوگا جسکی بنیاد کسی مذہب یا برادری پر نہیں بلکہ لوگ ہونگے’۔

رام مندر کا سنگِ بنیاد ایک نئے انڈیا کا بھی سنگِ بنیاد ہوگا جو اپنے شہریوں کو ان کے مذہب کی بنیاد پر پرکھتا ہے اور یہ سب رام کے نام رپر ہو رہا ہے۔

بھگوان رام کو انڈیا میں ایک چھوٹی ذہنیت کی علامت بنایا جا رہا ہے۔ ہم بھلے ہی اسے ایک نئے انڈیا کا نام دیں لیکن یہ اس انڈیا پر ایک شدید حملہ اور زخم ہے جس میں سب کے لیے جگہ تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp