آن لائن قربانی: پاکستان میں ’کسی کو گوشت کم ملا، کسی کو خراب تو کسی کو ملا ہی نہیں‘


بقر عید، آن لائن قربانی، عید الاضحیٰ

پاکستان میں رواں سال عید الاضحیٰ کے موقع پر عالمی وبا کے پھیلاؤ اور حکومتی ہدایات کو مدِنظر رکھتے ہوئے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے جانور کی قربانی کے لیے کسی کمپنی یا انٹرنیٹ کا سہارا لیا۔ لیکن بعض لوگوں کا یہ تجربہ کچھ اچھا ثابت نہ ہوسکا۔

عید الاضحیٰ پر مسلمان مذہبی فریضے کے طور پر کوئی جانور (بکرا، گائے، اونٹ وغیرہ) ذبح کرتے ہیں اور اس کا گوشت خود کھانے کے علاوہ رشتہ داروں اور غریب افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔

مقامی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر ایسے درجنوں واقعات سامنے آئے جن میں لوگوں نے بتایا کہ آن لائن قربانی کرنے پر انھیں کمپنیوں کی جانب سے گوشت تاخیر سے دیا گیا اور بعض افراد کو تو ’خراب اور سڑا ہوا گوشت ملا‘ جس پر انھوں نے اپنے غصے کا اظہار کیا ہے۔

کچھ کمپنیوں کی جانب سے صارفین سے معذرت بھی کی گئی۔

یہ بھی پڑھیے

ای کامرس: آپ انٹرنیٹ پر اپنا کاروبار کیسے کر سکتے ہیں؟

ایسی منڈی جہاں عید الاضحیٰ پر گوشت فروخت ہوتا ہے

وہ کامیاب کاروباری آئیڈیا جسے شروع میں احمقانہ کہا گیا

پاکستان میں عید الاضحیٰ سے قبل وفاقی حکومت کی جانب سے عوام کو آن لائن قربانی کو ترجیح دینے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔

وزیر اعظم عمران خان نے 27 جولائی کو لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے انھیں رواں برس بقر عید سادگی سے منانے اور خود جانور خریدنے اور قربانی کرنے کے بجائے یہ سہولت فراہم کرنے والی کسی کمپنی سے رابطہ کرنے کی ہدایت دی تھی۔ ‘قربانی کی عید پر آن لائن قربانی کو ترجیح دیں۔ اگر آپ نے منڈیوں میں جانا ہی ہے تو ماسک پہن کر جائیں۔’

اُس وقت کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بھی لوگوں کو کورونا وائرس سے بچنے کے لیے یہی نصیحت کی تھی کیونکہ عید الفطر پر میل جول کے بعد ملک میں اس عالمی وبا کے نئے متاثرین اور اموات میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔

قربانی، عید

لیکن سوشل میڈیا پر موجود بعض ریووز اور پوسٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کچھ لوگوں کے لیے آن لائن قربانی کا تجربہ مثبت ثابت نہ ہوا۔

ایک صارف نے دعویٰ کیا کہ آن لائن قربانی کی کئی سروسز نے کورونا وائرس کے خدشات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے گاہکوں کو ’دھوکہ‘ دیا۔ ‘کسی کو کم گوشت ملا، کسی کو خراب تو کسی کو کوئی گوشت نہ مل سکا۔’

کراچی کی حنا صفدر نے لکھا کہ ایک کمپنی نے آرڈر کرنے والوں کا فون ہی نہیں اٹھایا جبکہ دوسری کی دکان پر لوگوں کی بڑی قطار لگی رہی۔

ایک صارف نے بتایا کہ انھوں نے قربانی کے گوشت کی بکنگ عید کے پہلے روز صبح 11 بجے کے لیے کر رکھی تھی۔ لیکن ان کا آرڈر عید کے دوسرے دن دوپہر دو بچے ملا۔ ’یہ غیر پیشہ ورانہ سروس تھی جس میں صارف کا خیال نہیں رکھا گیا تھا۔ فون پر رابطہ کرنے پر کوئی جواب نہیں دے رہا تھا۔‘

ٹوئٹر پر مہک فاطمہ نامی صارف نے ایک کمپنی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں 28 ہزار روپے کے عوض ’سڑا ہوا، بد رنگ اور بدبودار گوشت’ ملا۔

‘رات 12 بجے نمائندے نے فون کر کے کہا کہ شکایت کا فائدہ نہیں۔ جو بگاڑنا ہے بگاڑ لو۔’

صحافی محمد جنید نے لکھا کہ کراچی کی ایک کمپنی نے لوگوں سے عید کے دوسرے روز قربانی کا گوشت فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ‘یہ بڑے پیمانے کی جعلسازی نکلی۔’

یاسر اعوان ایک انٹرپرینیور ہیں۔ ان کے مطابق آن لائن قربانی کا کاروبار پاکستان میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری ہے مگر رواں سال لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس طریقے سے قربانی کرنا چاہی۔ وہ لوگوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ کسی بڑی کمپنی کا انتخاب کرنے کے بجائے ایک ایسی کمپنی کے ساتھ بکنگ کرائیں جو چھوٹی سطح پر کام کرتی ہو اور محدود آرڈر لیتی ہو۔

‘بڑے سپلائر سمجھ رہے تھے کہ وہ زیادہ آرڈر لے سکتے ہیں اور انھیں مکمل کر لیں گے لیکن وہ ناکام رہے کیونکہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اس مرتبہ یہ طریقہ اختیار کیا۔’

اسی تناظر میں ایک صارف نے لکھا کہ نئی اور پرانی کمپنیوں نے یہ سنہری موقع ہاتھ سے گنوا دیا۔ ‘ان کے پاس کافی وقت تھا کہ وہ طریقہ کار طے کرتے، اپنے پراڈکٹ کو ٹھیک رکھتے اور ادائیگیوں کے نظام کو بھی دیکھتے۔‘

‘کئی لوگ خراب گوشت کی شکایت کر رہے ہیں۔ ڈیلیوری میں تاخیر تو میں سمجھ سکتا ہوں لیکن خراب گوشت؟’

تاہم کچھ صارفین کے لیے آن لائن قربانی یا کسی کمپنی کے ذریعے اس مذہبی فریضے کی ادائیگی بہتر رہی۔

کاشف عزیز کے مطابق کچھ مساجد اور مدرسے کئی برسوں سے آن لائن قربانی کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔

کمپنی کی معافی

لوگوں کی شکایات پر ایک کمپنی نے اپنے فیس بک پیج پر معافی مانگتے ہوئے کہا کہ ‘ہم اس کی مکمل ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔‘

‘غیر مطمئن صارفین کی ایک فہرست تیار کی جا رہی ہے جنھیں خراب گوشت ملا یا انھیں آرڈر نہیں بھیجا جاسکا۔’

‘اس فہرست کو ہمارے فیس بک پیج پر شائع کیا جائے گا اور تمام ڈیلیوریز دوبارہ کی جائیں گی جن میں تازہ گوشت ہوگا۔’

کمپنی کے سی ای او نے کہا کہ ان کی کمپنی نوجوانوں پر مشتمل ایک نئی کمپنی ہے جس کے پاس مالی وسائل نہیں۔ ‘شدید گرمی کی وجہ سے 25 فیصد ڈیلیوریز پر اثر پڑا اور گوشت خراب ہوگیا۔’

انھوں نے غیر مطمئن گاہکوں کو 50 فیصد ری فنڈ یعنی رقم کا آدھا حصہ واپس کرنے کا بھی وعدہ کیا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp