رفال بمقابلہ جے ایف 17 تھنڈر: کیا فرانس سے خریدے گئے نئے رفال طیارے انڈیا کو پاکستان پر فضائی برتری دلا سکتے ہیں؟


رفال

انڈیا کے نئے رفال طیارے آج کل خبروں میں ہیں

انڈیا کو فرانس سے پانچ مزید رفال طیارے ملنے کے بعد ایک دفعہ پھر یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ کیا یہ جدید طیارے پاکستان میں بنائے جانے والے جے ایف 17 تھنڈر سے بہتر ہیں یا نہیں۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جہاں بہت سے انڈین صارفین رفال طیارے ملنے پر جشن منا رہے ہیں وہیں پاکستانی صارفین کی جانب سے جے ایف 17 طیاروں کی تکینیکی بنیادوں پر رفال پر سبقت سے متعلق بھی دعوے کیے جا رہے ہیں۔

بی بی سی نے اس حوالے سے کچھ حقائق جاننے کی کوشش کہ رفال میں وہ کیا خاص بات ہے جو کسی اور طیارے میں نہیں ہے۔ اس حوالے سے انڈین اور پاکستانی فضائیہ کے حکام کا نکتہ نظر بھی اس موازنے میں شامل کیا گیا ہے۔

یہ حقائق جاننے سے پہلے اس بحث کے پس منظر پر نظر ڈالتے ہیں مگر اس دوران ایک کپ چائے بنانا نہ بھولیے گا۔

یہ بھی پڑھیے

پہلا رفال جنگی طیارہ انڈیا کے حوالے کر دیا گیا

انڈیا کو پاکستانی فضائیہ کے بارے میں کیا جاننا ضروری ہے؟

’رفال طیاروں کی فکر انھیں ہونی چاہیے جو ہماری سالمیت کے لیے خطرہ ہیں‘

جب انڈین پائلٹ ابھینندن بنے پاکستان کے مہمان۔۔۔

جب پاکستانی پائلٹس نے گذشتہ برس 27 فروری کو انڈین مِگ 21 طیارہ مار گرایا تو اس پر سوار پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کو گرفتار کر لیا گیا۔ دورانِ حراست ان کی ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں وہ چائے کی پیالی اٹھائے اس چائے کی تعریف کرتے دکھائی دیے۔

ابھینندن کا یہ جملہ ’ٹی از فینٹیسٹک‘ اب پاکستان میں زبان زد عام ہے۔

تاہم اس کے اگلے ہی دن پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ جذبہ خیر سگالی کے تحت انڈین پائلٹ کو واپس گھر بھیج رہا ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل انڈین طیارے پاکستان میں بالاکوٹ کے قریب بمباری کر کے واپس چلے گئے تھے جس کے جواب میں پاکستان نے کارروائی کی تھی۔

اس واقعے کے بعد انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے بیان دیا کہ ’اگر انڈیا کے پاس رفال طیارے ہوتے تو پاکستان کے ساتھ بالاکوٹ واقعے کا نتیجہ بہتر ہوتا۔‘

رواں برس فروری میں اسلام آباد ایئر ہیڈ کوارٹر میں میڈیا کے نمائندوں کو روسی ساختہ جہاز مِگ 21 کا ملبہ دکھایا گیا۔ اس موقع پر اُس وقت پاکستانی فضائیہ کے اسسٹنٹ چیف آف دی ایئر سٹاف پلانز ایئرکموڈور سید عمر شاہ نے کہا تھا کہ اگر انڈیا کے پاس ’رفال آ بھی جائے تو بھی ہم تیار ہیں۔‘

بالاکوٹ واقعے کے بعد پاکستان نے انڈیا کے خلاف فضائی آپریشن میں جے ایف 17 تھنڈر اور ایف 16 بھی استعمال کیے تھے۔ ان طیاروں کی خصوصیات جاننے سے پہلے ایک نظر فرانس سے آئے چھ رفال طیاروں پر۔

رفال انڈیا پہنچ گیا: اس طیارے میں کون سی خوبیاں ہیں؟

فرانس کی حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت انڈیا کو کل 36 رفال طیارے ملنے ہیں جن میں سے چھ طیارے انڈیا پہنچ چکے ہیں۔

رفال جوہری میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں دو طرح کے میزائل نصب ہو سکتے ہیں، ایک کا مار کرنے کا فاصلہ 150 کلومیٹر جبکہ دوسرے کا تقریباً 300 کلومیٹر ہے۔ جوہری اسلحے سے لیس ہونے کی صلاحیت رکھنے والا رفال طیارہ فضا میں 150 کلومیٹر تک میزائل داغ سکتا ہے جبکہ فضا سے زمین تک مار کرنے کی اس کی صلاحیت 300 کلومیٹر تک ہے۔

یہ انڈین فضائیہ کی جانب سے استعمال ہونے والے میراج 2000 کی جدید شکل ہے اور انڈین ایئر فورس کے پاس اس وقت 51 میراج 2000 طیارے ہیں۔

رفال بنانے والی کمپنی داسو ایوی ایشن کے مطابق رفال کی حد رفتار 2020 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔

طیاری کی اونچائی 5.30 میٹر اور لمبائی 15.30 میٹر ہے اور اس طیارے میں فضا میں بھی ایندھن بھرا جا سکتا ہے۔ رفال کو اب تک افغانستان، لیبیا، مالی، عراق اور شام جیسے ممالک میں ہونے والی کارروائیوں میں استعمال کیا جا چکا ہے۔

رفال اوپر، نیچے، دائیں اور بائیں ہر طرف نگرانی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یعنی اس کی وِزیبلٹی 360 ڈگری ہے۔

کئی طرح کی خوبیوں سے لیس رفال کو بین الاقوامی معاہدوں کے سبب جوہری اسلحے سے لیس نہیں کیا گیا تاہم کئی ماہرین کا خیال ہے کہ انڈیا میراج 2000 کی طرح رفال کو بھی اپنی ضرورت کے مطابق ڈھال لے گا۔

رفال

انڈین فضائیہ کی جانب سے جاری کی گیی تصویر میں رفال کو انبالہ ایئر بیس پر لینڈ کرتے دیکھا جا سکتا ہے

’رفال کی صلاحیتوں پر کوئی شبہ نہیں‘

انڈین فضائیہ کا کہنا ہے کہ ’رفال ایک بہترین اور باصلاحیت جنگی طیارہ ہے۔‘

سابق وزیر دفاع منوہر پاریکھ کا کہنا تھا کہ ’رفال کا نشانہ کبھی نہیں چوکتا۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انڈین دفاعی تجزیہ کار معروف رضا کہتے ہیں رفال کی خصوصیات کی وجہ سے اسے ’فورس ملٹی پلایئر‘ کہا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رفال کی فلائنگ رینج عام جنگی طیاروں سے کہیں زیادہ ہے۔

رضا بتاتے ہیں ’اس کی آپریشنل صلاحیت 65 سے 70 فیصد تک ہے جبکہ جنگی طیارے سخوئی کی آپریشنل صلاحیت 50 فیصد تک ہے۔ ’یہ پہاڑی علاقوں اور چھوٹے مقامات پر اُتر سکتا ہے اس کے علاوہ سمندر میں چلتے ہوئے طیارہ بردار بحری جہاز پر بھی اتر سکتا ہے۔‘

جے ایف-17 تھنڈر کن صلاحیتوں کا حامل ہے؟

جے ایف-17 تھنڈر لڑاکا طیارہ پاکستان کے لیے اس وجہ سے بھی خاصی اہمیت کا حامل ہے کہ پاکستان اسے خود تیار کرتا ہے۔

پاکستان نے چین کی مدد سے ہی ان طیاروں کو بنانے کی صلاحیت حاصل کی ہے اور ماہرین کے مطابق یہ طیارہ ایک ہمہ جہت، کم وزن، فورتھ جنریشن ملٹی رول ایئر کرافٹ ہے۔

اس طیارے کی تیاری، اپ گریڈیشن اور ’اوورہالنگ‘ کی سہولیات بھی ملک کے اندر ہی دستیاب ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اس طیارے کی تیاری کے مراحل کو یقینی بنانے کے لیے کسی بھی دوسرے ملک کا محتاج نہیں ہے۔

عسکری حکام کے مطابق یہ طیارہ دنیا بھر میں کئی اہم شوز میں بھی پذیرائی حاصل کر چکا ہے اور دنیا نے اس کی بہت اچھی اسسمینٹ کی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر بڑے شو میں جے ایف 17 کے لیے دعوت نامہ ضرور آتا ہے۔

پاکستان نے جے ایف 17 پر کب کام شروع کیا؟

یہ قصہ سنہ 1995 سے شروع ہوتا ہے جب پاکستان اور چین نے جے ایف 17 سے متعلق ایک مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔

اس طیارے کا پہلا آزمائشی ماڈل سنہ 2003 میں تیار ہوا اور پاکستانی فضائیہ نے سنہ 2010 میں جے ایف-17 تھنڈر کو پہلی مرتبہ اپنے فضائی بیڑے میں شامل کیا۔

اس منصوبے میں مِگ طیارے بنانے والی روسی کمپنی میکویان نے بھی شمولیت اختیار کر لی۔ پاکستان فضائیہ نے جے ایف-17 تھنڈر کو مدت پوری کرنے والے میراج، ایف 7 اور اے 5 طیاروں کی تبدیلی کے پروگرام کے تحت ڈیزائن کیا۔

دفاعی امور کے ماہرین کے مطابق جے ایف تھنڈر طیارہ ایف-16 فیلکن کی طرح ہلکے وزن کے ساتھ ساتھ تمام تر موسمی حالات میں زمین اور فضائی اہداف کو نشانہ بنانے والا ہمہ جہت طیارہ ہے جو دور سے ہی اپنے ہدف کو نشانہ بنانے والے میزائل سے لیس ہے۔

جے ایف-17 تھنڈر نے اسی صلاحیت کی بدولت بی وی آر (Beyond Visual Range) میزائل سے بالاکوٹ واقعے میں انڈین فضائیہ کے مگ کو گرایا تو اس کے ساتھ ہی جے ایف-17 تھنڈر کو بھی خوب پذیرائی ملی۔

جے ایف-17 تھنڈر طیاروں میں وہ جدید ریڈار نصب ہے جو رفال کی بھی بڑی خوبی گنی جاتی ہے۔ یہ طیارا ہدف کو لاک کر کے میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس کی رینج 150 کلومیٹر تک بتائی جاتی ہے اور یہ میزائل اپنے ہدف کا بالکل ایسے ہی پیچھا کرتا ہے جیسے ہالی وڈ کی متعدد فلموں میں دکھایا جاتا ہے۔

جے ایف-17 تھنڈر زمین پر حریف کی نگرانی اور فضائی لڑائی کے ساتھ ساتھ زمینی حملے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ یہ طیارہ فضا سے زمین، فضا سے فضا اور فضا سے سطحِ آب پر حملہ کرنے والے میزائل سسٹم کے علاوہ دیگر ہتھیار استعمال کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

انڈیا جے ایف کی برتری تسلیم کرنے کو تیار کیوں نہیں؟

پاکستان کی طرف سے مگ 21 گرانے کے واقعے کے بعد میڈیا بریفنگ کے دوران انڈین فضائیہ کے ایئر وائس مارشل کپور نے اس بات کا دعوٰی کیا تھا کہ پاکستان نے ایئر ٹو ایئر میزائل استعمال کیا ہے اور یہ ٹیکنالوجی صرف پاکستانی ایف-16 طیاروں میں موجود ہے۔

ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ شہزاد چوہدری، پاکستان کے موقف کو درست مانتے ہوئے کہتے ہیں کہ جے ایف 17 ایسا طیارہ ہے جو ملکی ضروریات کے حساب سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

رفال اور جے ایف 17 کے درمیان موازنے پر شہزاد چوہدری کا کہنا ہے کہ ہر طیارہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جاتا ہے، اس کی رفتار، حجم یا کسی اور پہلو سے موازنہ کرنا درست نہیں ہے۔

ان کے مطابق ’یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کار اور ڈمپر کا موازنہ شروع کر دیں جبکہ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کس چیز کو کس مقصد کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔‘

ان کے نزدیک اب دیکھنا یہ ہو گا کہ وہ قوت اور صلاحیت کیا ہے۔

جے ایف کی خصوصیات اور تعداد سے متعلق شہزاد چوہدری کا کہنا ہے کہ وہ یہ تفصیلات تو کبھی نہیں بتائیں گے۔

شہزاد چوہدری کے مطابق ’ہمارے مقاصد کے اعتبار سے جے ایف 17 بہترین آپشن ہے۔ انڈیا کے طیارے تو اس وقت بھی اچھے تھے جب پاکستان نے انڈین طیارہ مار گرایا تھا۔‘

تاہم شاہد لطیف کا دعویٰ ہے کہ ’انڈیا کے طیارے اڑتی پھرتی لاشیں ہیں۔ جس کی وجہ سے انھیں رفال جیسی مہنگی ڈیل کی طرف جانا پڑا۔‘

شاہد لطیف کے مطابق تھوڑے بہت فرق کے ساتھ وہ سب کچھ تو جے ایف 17 میں بھی ہے جو رفال میں بتائے جاتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر رفال میں فورتھ جنریشن ہے تو جے ایف 17 میں فورتھ اینڈ ہاف جنریشن تک صلاحیت ہے۔

جے ایف 17

جے ایف 17

جے ایف 17 کہاں تیار کیے جا رہے ہیں؟

سابق ایئر مارشل ریٹائرڈ شاہد لطیف نے بی بی سی کو بتایا کہ جے ایف 17 طیاروں کی خاص بات ہی یہ ہے کہ یہ باہر کے ممالک سے نہیں بلکہ پاکستان کے اندر کامرہ کے مقام پر تیار کیے جا رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اب انڈیا کو مشکل صورتحال میں فرانس کی طرف دیکھنا ہو گا۔

ان کے مطابق پاکستان نے یہ صلاحیت حاصل کر لی ہے کہ جب مرضی اور جتنے مرضی طیارے بنائے۔ شاہد لطیف کا کہنا ہے کہ سو سے زائد جے ایف 17 تیار کر کے فضائیہ کے حوالے کیے جا چکے ہیں۔

پاکستان فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ ایئر کموڈور قیصر طفیل نے اپنے ایک بلاگ میں لکھا ہے کہ دسمبر 2018 میں پاکستان نے 112 جے ایف طیارے تیار کر لیے تھے جبکہ مزید 76 پر کام جاری ہے۔ ان کے مطابق پاکستان ایک سال میں 24 جے ایف 17 طیارے بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

شاہد لطیف کا کہنا ہے کہ انڈیا کو رفال ملنے میں کئی سال لگ جائیں گے کیونکہ یہ سب اتنی جلدی نہیں ہوتا۔ ان کے مطابق ’اگر کوئی خرابی واقع ہوتی ہے تو پھر انڈیا کو ہر بار فرانس کا رخ کرنا ہو گا۔‘

شاہد لطیف کے مطابق سب سے زیادہ اہمیت ’اسسمینٹ‘ کی ہوتی ہے طیارے کی نہیں۔

مزید پڑھیے

’گنتی کی ہے، پاکستانی ایف 16 تعداد میں پورے ہیں‘

چین کا سٹیلتھ بمبار جسے ریڈار دیکھ نہیں سکتے

ان کے مطابق رفال بھی فورتھ جنریشن طیارہ ہے جس طرح ایس یو-30 تھا جس کو پاکستانی پائلٹس نے گرایا تھا۔

جے ایف-17 کی ڈیزائن لائف چار ہزار گھنٹے یا 25 سال بتائی جاتی ہے۔

ماہرین کے مطابق اس طیارے میں نصب ریڈار نظام کی بدولت جے ایف-17 تھنڈر بیک وقت 15 اہداف کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ چار اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔

پاکستان

ایف 16 طیارے

’ایف 16 طیاروں کے استعمال پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں‘

ایف 16 طیارے کے استعمال سے متعلق سوال پر ایئرکموڈور سید عمر شاہ نے واضح کیا کہ ’اس کے لیے پاکستانی فضائیہ کو کسی کی بھی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ہمارے ہتھیار ہیں جن کو ہم نے اپنے دفاع کے لیے استعمال کرنا ہے۔‘

شاید لطیف اور شہزاد چوہدری نے اس بات کی تصدیق کی کہ پاکستان پر ان طیاروں کے استعمال سے متعلق کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے۔

شاہد لطیف نے یہاں تک کہا کہ وہ ان ابتدائی چھ پائلٹ میں شامل تھے جو امریکہ کے ساتھ اس معاہدے میں شامل تھے اور انھوں نے سب سے پہلے یہ طیارہ اڑایا تھا۔ ان کے مطابق امریکہ نے پاکستان کے ساتھ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مختلف حیلے بہانوں سے پاکستان کو مزید ایف 16 کی حوالگی پر پابندی عائد کیے رکھی۔

شہزاد چوہدری کے مطابق امریکہ نے پاکستان کو معاہدے کے تحت تمام طیارے دے دیے ہیں۔ انھوں نے اس طیاروں کی تعداد بتانے سے گریز کیا ہے۔

شاہد لطیف کہتے ہیں کہ امریکہ اب بھی دیگر ممالک کو پاکستان سے طیارے نہیں خریدنے دے رہا ہے اور ایسے معاہدوں میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ ان کے مطابق اب امریکہ کو بھی معلوم ہے کہ پاکستان نے ایف 16 کے مقابلے کا اپنا جے ایف 17 تیار کر لیا ہے۔ ان کے خیال میں اب کوئی پاکستان کو بلیک میل نہیں کر سکتا۔

سوشل میڈیا پر بحث

جہاں سوشل میڈیا پر ماہرین رفال اور جے ایف 17 سے متعلق تبصرے کرتے نظر آتے ہیں وہیں ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ جے ایف 17 تھنڈر ٹرینڈ کرتا نظر آیا۔

ٹوئٹر پر اس بحث میں ایئر وائس مارشل ریٹائرڈ شہزاد چوہدری کے علاوہ سٹریٹجک پلان ڈویژن (ایس پی ڈی) کے ’آرمز کنٹرول اینڈ ڈس آرنامنٹ‘ کے ڈائریکٹر خالد بنوری بھی رفال اور پاکستانی طیاروں سے متعلق بحث پر دلچسپی لیتے نظر آئے اور انھوں نے بھی ٹوئٹر پر کئی ایسی ٹویٹس لائیک اور ری ٹویٹس کیے۔

پاکستان کی قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر نے تو رفال سے متعلق انڈیا کے سابق کرکٹر گوتم گھمبیر کی ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’سادہ چائے 20 اور دودھ پتی 50 روپے فی کپ ہے۔‘

https://twitter.com/QasimKhanSuri/status/1288791816528187394?s=20

پراؤڈ پاکستانی نامی صارف نے تو پانچ رفال طیاروں کو فضا میں اڑتے دکھایا اور ان کے سامنے فضا میں ہی پانچ کپ چائے کے رکھ دیے۔ اس تصویر کو دیگر کئی اور صارفین نے شیئر کیا۔ ایک صارف نے تو اس تصویر کے ساتھ ابھینندن کا وہ جملہ بھی لکھا کہ ’ٹی از فینٹیسٹک۔‘

https://twitter.com/MarkhorOnPeak/status/1289159450847313920?s=20

گوتم گھمبیر اور انڈین فوج سے میجر جنرل کے رینک سے ریٹائر ہونے والے جی ڈی بخشی کی ٹویٹ پر سینکڑوں تبصرے کیے گئے۔ جی ڈی بخشی نے رفال کی تصویر کے ساتھ اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’عقاب انڈیا اتر چکا ہے اور یہ جنوبی ایشیا میں ایک گیم چینجر ہو گا۔‘

https://twitter.com/GeneralBakshi/status/1288435379247312896?s=20

شاہ البشاوری نامی صارف نے تو دونوں طیاروں کا ایک ہی ٹویٹ میں ایسے موازنہ پیش کیا کہ جیسے وہ اس شعبے میں خاص مہارت رکھتے ہوں۔

https://twitter.com/RemanSha1/status/1289084708530331648?s=20


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp