فرماں برداری، کامیابی کا سیدھا راستہ یا…


شنو اور بسمہ واپس اپنے کمرے میں آ گئیں۔ بسمہ کو ابھی بھی بے چینی تھی کہ کب اسے بلایا جائے اور گھر چھوڑ کے آئیں۔ ابھی اس نے نہیں سوچا تھا کہ وہ کہاں جائے گی مگر وہ یہاں مزید نہیں رہنا چاہتی تھی۔

شنو سے بار بار پوچھنا بھی اسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ پھر اسے خیال آیا کہ فاطمہ باجی نے تو کہا تھا کہ کل عدالت میں پیشی کے بعد ہی کوئی فیصلہ ہوگا۔ اسے احساس بے بسی سے رونا بھی آ رہا تھا اور غصہ بھی۔ کہنے کو وہ پہلے بھی کبھی بغیر اجازت گھر سے نہیں نکلی مگر جو قید کا احساس یہاں تھا وہ کبھی محسوس نہیں ہوا۔

شنو اس کو مزید عورتوں کے بارے میں بتارہی تھی۔ وہ نا چاہتے ہوئے بھی اس کی بات کو غور سے سن رہی تھی۔ شنو نے ٹھیک کہا تھا کہ سیدھا کہا جائے تو یہاں ہر دوسری عورت شادی کے لیے آئی تھی۔ مگر اس کے پیچھے وجوہات دیکھی جائیں تو سب بہت مضبوط۔ بسمہ کو حیرت ہوئی کہ لوگ کیسے جانے بوجھے بغیر ان عورتوں کو بدکردار کہہ دیتے ہیں۔ ان کے مسائل جاننے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ پھر اسے اپنی سسرال اور میکے والوں کا رویہ یاد آیا سوچ تو ان کی بھی یہی تھی۔ انہوں نے رافیعہ ہو نازیہ یا بسمہ تینوں کو ایک جیسا ہی سمجھا تھا۔ اسے یاد آیا اس کے بھائی کس طرح اس پہ ہر وقت کڑی نظر رکھتے تھے جیسے وہ بہکنے کے لیے ہر وقت تیار ہو۔

تقریباً ساڑھے دس بجے اسے میڈم نے بلوا لیا۔ ان کے سامنے ہی اس کا بیان لکھوایا گیا۔ بیان سننے کے بعد نرگس بولی

”کل تو تم نے کچھ اور بتایا تھا؟“

”باجی مجھے نہیں یاد کہ میں نے کل کیا بتایا تھا مگر اب جو بتا رہی ہوں یہ بالکل سچ ہے۔ آپ چاہیں تو میرے دیے ہوئے نمبروں پہ رابطہ کر کے پوچھ لیں۔“

”شوہر نے گھر سے کیوں نکالا؟ کوئی لڑکے کا چکر ہے تو بتا دو۔ دیکھو پتا تو ہمیں چل ہی جانا ہے تو شروع میں چھپانے سے کیا فائدہ۔“

”میرے شوہر نے پیسے منگوائے تھے وہ پورے نہیں تھے اس لیے نکالا کسی لڑکے کا کوئی چکر نہیں ہے۔“
”مرضی ہے تمہاری بھئی یہاں آکر شروع میں سب یہی کہتی ہیں مگر جاتی ہمیشہ کسی یار کے ساتھ ہی ہیں۔“

اگر شنو نے صبح اسے اس حوالے سے نہ بتا دیا ہوتا تو شاید اسے یہ الزام بہت برا لگتا۔ تکلیف دہ تو اب بھی تھا اس کے لیے مگر اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ ان کے لیے یہ عام سی بات کیوں ہے۔

”نرگس بیٹا بچی کہہ رہی ہے تو ٹھیک ہے پریشرائز مت کریں۔ اس کے سائن اور تھمب امپیرشن لے لیں۔ تاکہ بچی فارغ ہو۔“

میڈم نے مخصوص نرم مگر تحکمانہ انداز میں کہا۔ نرگس نے سر ہلایا اور کاغذات پہ اس سے انگوٹھا لگوا کر کچھ جگہ سائن بھی لیے۔

وہ باہر نکلنے والی تھی جب میڈم نے اس کو مخاطب کیا۔

”بیٹا ہم آپ کے گھر والوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ صبح کورٹ میں آجائیں۔ پھر آپ کی مرضی سے آپ کو ان کے ساتھ جانے کی اجازت مل جائے گی۔“ بسمہ نے سر ہلا دیا اور کمرے سے نکل آئی۔ کمرے میں آکر وہ خاموشی سے بیڈ پہ بیٹھ گئی۔ کافی عرصے بعد پھر سے سوچوں کی یلغار تھی۔ شادی سے لے کر اب تک کا عرصہ تقریباً ڈیڑھ سال ایسا لگ رہا تھا جیسے کسی خواب میں گزرے۔ اگر وہ دارلامان میں نا ہوتی تو اسے لگتا کہ شاید واقعی اس نے کوئی بھیانک خواب دیکھا ہے۔

اسے دوبارہ زندگی ریوائینڈ ہوتی لگ رہی تھی۔ وہ شعور کے بعد سے اب تک کی زندگی کے ہر پہلو کو جانچ رہی تھی۔ لڑکپن میں جذبات کا بدلنا، گھر والوں کا رویہ، گل بانو کی شادی، اسلم سے محبت نما کچھ، اسلم کا بالکل غیر متوقع وہ بے ہودہ آفر کرنا، پھر ایک دم ہی گل بانو کی ڈیتھ جس کا اسے ابھی تک یقین نہیں آیا۔ اور آج ان چند لڑکیوں کو دیکھ کر گل بانو شدت سے یاد آئی جن کی شادیاں ان کے گھر کے کسی مرد کے جرم کے عوض میں کی گئی تھیں۔

اس کی زندگی میں اور اس دارلامان میں کیا فرق تھا۔ کچھ بھی نہیں۔ کوئی ایک بھی قدم اس نے اپنی مرضی سے نہیں اٹھایا ایک بھی نہیں۔ وہ یہ سوچ کر کہ وہ اگر فرمان بردار رہے گی تو اس کو سراہا جائے گا۔ کوئی تو اس کی اس فرمانبرداری کو اچھی نظر سے دیکھے گا۔ کبھی تو اس کی خدمت اور نبھانے کی صلاحیت دوسروں کے دلوں کو نرم کرے گی۔ مگر اس کی تمام کوششیں اس بری طرح ناکام ہوئیں۔ اسے ایک کامیاب زندگی کے لیے جو سکھایا گیا تھا اس نے اس طریقے پہ مکمل طور پہ عمل کیا تھا۔ اسے ہمیشہ فائزہ اور نفیس آنٹی کا اعتماد متاثر کرتا تھا مگر وہ یہ یقین کرنے پہ مجبور کردی گئی تھی کہ ان کا چلن غلط ہے اور عورت کبھی بھی پر اعتماد رہ کر کامیاب زندگی نہیں گزار سکتی۔ اسے پتا نہیں کیوں وہ خبر یاد آ گئی جو نازیہ بھابھی نے ازراہ مذاق سنائی تھی۔

”جب تک ہم عورتیں اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھائیں گی کوئی ہمیں ہمارا حق نہیں دے گا بلکہ ممکن ہے کہ ہم سے سانس لینے کا حق بھی چھین لیا جائے“

بسمہ یاد کرنے کی کوشش کرنے لگی کہ اس بندی کا نام کیا تھا جس نے یہ تقریر کی تھی۔ اسے اس دن جو بات غلط لگی تھی آج حرف بہ حرف ٹھیک لگ رہی تھی۔ ہر حق تو چھین لیا گیا تھا اس سے۔ مارنے تک کی دھمکی تو دے ہی چکا تھا باسط۔ اور جو شخص ایک عورت کی عزت لوٹ چکا ہو۔ اس کے لیے کسی دوسری عورت کو قتل کرنا کیا مشکل ہوگا۔ اور بسمہ کے ساتھ بھی اس کا تعلق کون سا بہتر تھا۔ شوہر ہونے کے باوجود بسمہ کو روز جس ذہنی اذیت سے گزرنا پڑتا تھا وہ اسے کسی زنا بالجبر سے کم نہیں لگتی تھی۔ مگر وہ شعوری طور پہ کبھی اسے قبول نہیں کرپائی۔

یہ تو نہیں چاہا تھا اس نے۔ کوئی بہت بڑے بڑے خواب نہیں تھے اس کے، بس ایک خواہش ہی تھی نا کہ جو زندگی کا ساتھی ہو وہ محبت اور عزت کرنے والا ہو۔ اس کا لمس بسمہ کے لیے باعث تکلیف نہ ہو۔ ایسا کیا گناہ کیا تھا اس نے جس کی اتنی بڑی سزا ملی اسے۔ اس نے تو سب کو خوش رکھنا چاہا تھا۔ امی ابو دادی باسط ساس سسر حد یہ کہ نازیہ بھابھی تک کو۔ وہ سامنے دیوار کو گھورے جارہی تھی اور آنسو بہہ رہے تھے۔

”بسمہ، شنو“ ذکیہ نے دروازے سے اندر جھانک کے دونوں کو آواز دی تو بسمہ کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹا اس نے چونک کر ذکیہ کو دیکھا اور آنسو پونچھے۔

”میڈم نیچے ہال میں بلا رہی ہیں کوئی این جی او والے آئے ہیں۔ وہ والی میڈم بھی ہیں جو پچھلے ہفتے آئی تھیں ناں۔ بڑی پیاری سی۔“

”میڈم بختاور؟“ شنو ایک دم پر جوش ہوگئی۔
”چل چل بسمہ یہ باجی بہت اچھی ہیں۔ چل سنتے ہیں کیا بتانے آئی ہیں“
”بسمہ کو نام سنا سنا لگا۔
”یہ کون ہیں شنو“

”میڈم بختاور احمد؟ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرتی ہیں۔ پہلے بھی دو بار یہاں آچکی ہیں۔ بہت اچھی باتیں بتاتی ہیں۔ مجھے بہت ہمت ملتی ہے ان کی باتوں سے۔ کہہ رہی تھیں یہاں کوئی پراجیکٹ شروع کرنا چاہ رہی ہیں تاکہ عورتوں کی کچھ مدد ہو سکے۔“ شنو اور بسمہ باتیں کرتی جارہی تھیں اور ہال کی طرف جارہی تھیں۔ بسمہ کو ایک دم یاد آیا یہی نام تو تھا اس تقریر والی کا۔

شاید وہ ہی سب سے پہلے ہال میں پہنچیں۔ کیونکہ ہال میں دو تین عورتیں ہی نظر آئیں جو لباس سے ذرا الگ ماحول کی لگ رہی تھیں اور لگ رہا تھا کہ وہ نا دارلامان کی رہنے والی ہیں نا اسٹاف ہیں۔ دو کا رخ ان کی طرف تھا اور ایک پیچھے مڑ کے بیگ سے سامان نکال نکال کے رکھ رہی تھی۔

شنو نے اشارہ کیا اسی عورت کی طرف جو سامان نکال رہی تھی

”یہ ہیں میڈم بختاور۔ باقی دونوں بھی ان کے ساتھ آتی ہیں مگر بات یہی کرتی ہیں۔ تو ان کا ہی نام یاد رہ گیا۔“

بسمہ نے سر ہلا دیا۔ نیچے دریاں بچھی ہوئی تھیں ساری جگہ ہی خالی تھی شنو اور بسمہ آگے ہی جاکر بیٹھ گئیں۔ شنو نے بیٹی کو گود میں لٹا لیا۔ وہ عورت کام نپٹا کر پلٹی تو بسمہ کو لگا اس نے اسے کہیں دیکھا ہے۔ پھر ایک دم ذہن میں جھماکہ ہوا

”اسلم کی بھابھی“

بسمہ اور بختاور کی نظریں ملیں تو بختاور کی آنکھوں میں بھی شناسائی اور حیرت جھلکی۔ مگر وہ کچھ بولی نہیں۔ کافی عورتیں آ گئی تھیں اور کچھ آ رہی تھیں۔ پانچ منٹ اور انتظار کر کے بختاور نے بات کا آغاز کر دیا۔ اس نے اپنا اور اپنے ادارے کا تعارف کروایا پھر بتایا کہ وہ دارالامان میں ایک پراجیکٹ شروع کر رہے ہیں جس میں خواتین کو مختلف ہنر سکھائے جائیں گے۔ اور تعلیم بالغان کا بھی آغاز کیا جائے گا۔ اس نے بیگ میں سے نکالے ہوئے سامان میں سے کچھ فارمز وغیرہ نکال کے دکھائے۔ پھر اپنی بات کی وضاحت کی

”دیکھیں یہاں آنے والی خواتین کو سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ شوہر نے چھوڑ دیا اور گھر والے یا تو قبول ہی نہیں کر رہے یا پھر دوبارہ اپنی مرضی سے شادی کروانا چاہتے ہیں۔ آپ کو قانون اور شرع دونوں یہ حق دیتے ہیں کہ جہاں آپ شادی نہیں کرنا چاہتی وہاں منع کر سکتی ہیں مگر ہمارا معاشرہ آپ کو یہ حق نہیں دیتا۔ شادی کے نام پہ بار بار بیچنا عورت کی تذلیل ہے۔ آپ کا حق ہے کہ آپ کی شادی میں آپ کی رائے کو فوقیت دی جائے۔

اب آپ لوگ یہ سوچ رہی ہوں گی کہ میری اس پوری تقریر کا ہمارے پراجیکٹ سے کیا تعلق ہے۔ تو تعلق یہ ہے کہ یہاں پہ آپ لوگ محفوظ تو ہیں مگر یہاں آپ کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ آپ لوگوں کو واپس کہیں نا کہیں جانا ہوتا ہے یا تو مجبور ہو کر والدین کے یا شوہر کے پاس یا پھر دوسری شادی کرنی پڑتی ہے۔ میرے دارلامان میں کافی چکر لگ چکے ہیں اور میں نے جو بات نوٹ کی وہ یہ کہ آپ میں سے عموماً خواتین مجبور ہوکر دوسری شادی کرتی ہیں کیونکہ آپ کو باہر تحفظ چاہیے مگرجس کے ساتھ اپ لوگ تحفظ کے لیے جاتی ہیں وہی شخص آپ کو تحفظ نہیں دیتا اور بہت سی خواتین دوبارہ کچھ عرصے بعد یہاں آنے پہ مجبور ہوجاتی ہیں اور پھر کسی تیسرے کی امید لگا لیتی ہیں جو انہیں یہاں سے نکال سکے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی مسئلے کا حل ہے؟“

خواتین نے نفی میں سر ہلایا

”میڈم ہم کریں بھی تو کیا کریں۔ لوگ ہمیں اکیلا جینے ہی نہیں دیتے۔ ہماری تو قوم ایسی ہے پچھلے شوہر سے تو طلاق عدالت نے دلوا دی مگر ہمارا جو پورا قبیلہ بیٹھا ہے کہ میں نکلوں یا تو مجھے قتل کردیں یا پھر کسی اور کو بیچ دیں۔ ایسے میں ہمارے پاس کیا حل رہ جاتا ہے۔ ہمیں بھی پتا ہوتا ہے یہ دوسرا بھی سر پہ نہیں بٹھائے گا مگر شاید دو جوتے کم مارے۔ میرا تو دوسرا شوہر بھی ڈھونڈ لیا ہے گھر والوں نے، پچاس ہزار میں“

یہ وہی تھی جس کے شوہر نے اسے اس لیے نکال دیا تھا کیونکہ سسر اور دیور کی اس پہ بری نظر تھی۔

”بالکل یہی بات جو میں کرنا چاہ رہی ہوں۔ تم لوگ مجبور ہو دو وجوہات سے ایک تو یہ وجہ کہ جنہیں تحفظ کرنا چاہیے وہی مارنے پہ تلے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اگر فرض کر لیا کہ وہ ماریں گے نہیں تو قبول بھی نہیں کریں گے یا پھر کسی ایسے ہی شخص کے حوالے کر دیا جائے گا۔ اکیلی تم لوگ رہ نہیں سکتیں کیوں کہ زندہ رہنے کے لیے کچھ نا کچھ کمانا بھی ضروری ہے۔ دیکھو تعلیم ہمارا بہت اہم ہتھیار اور طاقت ہوتی ہے۔ یہ ہمیں شعور بھی دیتی ہے اور اعتماد بھی ساتھ ہی صحیح فیصلہ کرنے میں مدد بھی کرتی ہے۔“

”مگر باجی ہمیں تو پڑھایا ہی نہیں گیا۔ بس ہماری تو قسمت میں ہی یہ لکھ دیا گیا ہے۔“ ایک عورت اتنی مایوس تھی کہ اس نے پوری بات بھی نہیں سنی بیچ میں ہی بول پڑی۔

”سارے مرد بھی پڑھے لکھے نہیں ہوتے۔ غریب بھی ہوں تو دارلامان میں رہنے کی ضرورت نہیں پڑتی انہیں۔ وجہ پتا ہے؟“

”ان کی عزت کون لوٹے گا میڈم انہیں کیا مسئلہ مرد ہیں جہاں چاہیں آ جا سکتے ہیں پھر انہوں نے دنیا دیکھی ہے ہم گھر میں رہنے والی عورتیں باہر کے معاشرے کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔“ ایک اور عورت بولی

”ہماری یہ ایک سب سے بڑی غلط فہمی ہے کہ مرد کی عزت کو کوئی خطرہ نہیں۔ جتنا خطرہ عورت کی عزت کو ہے مرد کی عزت کو بھی اتنا ہی خطرہ ہے۔ اسے بھی اتنا ہی استعمال کیا جاتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ ہم عورت کو غیر ضروری حد تک محفوظ کرنا چاہتے ہیں کہ اسے معاشرے میں عضو معطل بنا دیا ہے اور مرد کو بالکل تحفظ نہیں دیتے۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ مردانگی کے خلاف ہے۔ جبکہ ان کا تحفظ بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ ہمیشہ اسے استعمال کیا جاتا ہے جو کسی نا کسی حوالے سے کمزور ہو۔ عورت جسمانی کمزور ہوتی ہے مرد کی کمزوری اس کی غربت ہوتی ہے۔“

”باجی پھر مرد بھی گھروں میں رہیں گے تو گھر کیسے چلیں گے؟“ اب کے ذکیہ بولی اس کے لہجے میں تمسخر تھا جسے بختاور نے مکمل نظر انداز کر دیا اور صرف اس کی بات پہ دھیان رکھا۔

”یہی وہ بنیادی بات تھی جہاں تک بات کو لانا تھا۔ محفوظ مرد بھی نہیں عورت بھی نہیں۔ گھر میں چھپ کر نا زندگی مرد گزار سکتا ہے نا عورت۔ آپ میں سے آدھی خواتین کا تعلق گاؤں گوٹھوں سے ہے جہاں مرد اور عورت مل کر کھیتوں میں کام کرتے ہیں۔ بس فرق یہ ہوتا ہے کہ کمائے گئے پیسے ٹھیکیدار گھر کے مرد کے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ عورت کھیت سے گھر جاتی ہے اور مرد پیسے لے کر ہوٹل۔“ بختاور ان کی ہی زندگی کے اہم رخ اجاگر کر رہی تھی اور عورتیں غور سے اس کی بات سن رہی تھیں اور اثبات میں سر بھی ہلاتی جارہی تھیں۔

”آج اگر یہ سب عورتیں گھروں میں بیٹھ جائیں تو ہمارا ملک مفلوج ہو جائے گی۔ رزق حلال کمانے سے تو مذہب نے بھی منع نہیں کیا۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ کو پتا ہو کہ اپنی حفاظت کیسے کرنی ہے اور آپ جو کمائیں اس پہ آپ کا حق ہو۔ آپ انسان ہیں چیز نہیں جسے اس کی مرضی کے بغیر ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے ہاتھ میں دیا جاتا رہے۔ نا کوئی مال مویشی ہیں کہ اس کی محنت کے پیسے اس کے مالک کے ہاتھ میں دیے جائیں۔ اب یہاں پہ پراجیکٹ شروع کرنے کا مقصد ہی یہ ہے کہ آپ لوگوں کو نئے ہنر سکھائے جائیں۔ جو ہنر آپ کو آتے ہیں اس سے آپ کے روزگار کے مواقع بنائے جائیں۔ اور جو خواتین اپنے ہنر کی مدد سے اپنے بل بوتے پہ زندگی گزارنا چاہتی ہیں انہیں ایک محفوظ جگہ فراہم کی جائے۔“

”کیا مطلب باجی؟“ اس بار شنو نے پوچھا

”مطلب یہ کہ پہلے تو ہم یہاں نئے ہنر سکھائیں گے جو آپ کو یہاں سے باہر جاکر بھی فائدہ دے سکیں۔ اور کچھ بنیادی تعلیم دیں گے تاکہ مسائل کو سمجھ کے حل کرنے کاشعور آسکے۔ مگر اس کے علاوہ ہمارا ایک ہوسٹل ہوگا جہاں وہ خواتین رہ سکیں گی جن کے آگے پیچھے کوئی نہیں اور نہ ہی وہ یہ چاہتی ہیں کہ کسی انجان شخص سے صرف اس لیے شادی کریں تاکہ یہاں سے نکل سکیں۔ یہاں سے وہاں منتقلی کی باقاعدہ قانونی کاغذ بنیں گے۔ وہاں آپ کی حفاظت کی ذمہ داری ہم پہ ہوگی۔ جس کے لیے ہم عدالت کو جواب دہ ہوں گے۔ ہمارے پاس دس عورتوں کی گنجائش ہے فی الحال۔“

”یعنی ایک دارلامان سے نکل کر دوسرے میں چلے جائیں۔ یہ بات تو آپ پہلے بھی بتا سکتی تھیں اتنی لمبی تقریر کے بعد بتایا۔“ اب کی بار بھی ذکیہ ہی بولی۔ وہ بہت بے زار بیٹھی تھی۔

بختاور ہلکے سے مسکرائی

”ساری تقریر کا مقصد یہ تھا کہ وہ دوسرا دارلامان نہیں ہوگا وہاں آپ کو باہر آنے جانے کی آزادی ہوگی۔ آپ جو کمائیں گی وہ آپ کے ہاتھ میں ہوگا ایسی صورت میں اپنی زندگی کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہوگا۔ آپ کو کسی کے ساتھ مجبوراً نہیں جانا ہوگا۔ مجھے پتا ہے کہ عموماً کو یہ حل غیر حقیقی لگے گا اسی لیے ہم نے دس سے زیادہ خواتین کی امید بھی نہیں رکھی۔ مگر یہ دس بھی اپنی زندگیاں بہتر بنانے میں کامیاب ہوگئیں تو میرے خیال سے ہمارے لیے یہ ایک کامیابی ہوگی۔“

”یعنی آپ عورتوں کو ایک ایسی جگہ دیں گی جہاں وہ مادر پدر آزاد زندگیاں گزار سکیں جہاں جائیں جس سے ملیں؟“ یہ خاتون کچھ ہی دن پہلے یہاں آئی تھیں اور بار بار دوسری عورتوں کو جتاتی تھیں کہ وہ ان جیسی گری پڑی نہیں ہیں بہت عزت دار گھرانے کے خاتون ہیں۔ مسئلہ ان کا بھی وہی تھا کہ شوہر سے طلاق لینی تھی اور گھر والے سپورٹ نہیں کرہے تھے۔

”میں نے پہلے ہی واضح کیا تھا کہ یہ جگہ ان جواتین کے لیے ہوگی جن کے آگے پیچھے کوئی نہیں یا پھر گھر والے ہی انہیں سپورٹ کرنے کو تیار نہیں، ان کو غلط ہاتھوں میں جانے سے بچانے کے لیے یہ اقدام کیا جا رہا ہے غلط لوگوں تک پہنچانے کے لیے نہیں۔ زبردستی کسی پہ نہیں ہوگی جو اپنی مرضی سے وہاں جانا چاہے گی اسی کو وہاں لے جایا جائے گا۔ ہماری اولین ترجیح یہ ہوگی کہ آپ لوگوں کو ہنر سکھا کر اتنا پراعتماد بنایا جاسکے کہ آپ لوگ جب گھروں کو جائیں تو پہلے کے مقابلے میں بہتر زندگی شروع کریں۔“ پھر اس نے مزید تفصیل بتائی

”یہ فارم ہیں جو پہلے ان سب کے بھرے جائیں گے جو مختلف ہنر سیکھنا چاہتی ہیں یا پڑھنا چاہتی ہیں۔ اس کے بعد بیس خواتین ایسی جنہیں یہاں سال سے زیادہ ہوگیا ہے وہ ہمارے شیلٹر کے لیے فارم فل کر سکتی ہیں۔ دو مہینے یہیں ان کو مختلف ہنر سکھائے جائیں گے اور ساتھ ساتھ مخلتف قانونی کارروائیاں ہوں گی جس کے بعد شارٹ لسٹ ہونے والی خواتین کو وہاں منتقل کر دیا جائے گا۔“

” میڈم میں دونوں فارم بھروں گی مگر میڈم شارٹ لسٹ کیوں کریں گی؟“ شنو نے پوچھا

”بیٹا دو مہینے میں ہو سکتا ہے ان خواتین میں سے کسی کا مسئلہ حل ہو جائے تو وہ چلی جائے یا اس کا ارادہ بدل جائے۔ اس کے علاوہ اگر اس کے گھر والے موجود ہیں اور اسے قبول نہیں کر رہے تو ہم عدالت میں اس کے گھر والوں سے ایک بیان پہ سائن کرائیں گے جس میں وہ عہد کریں گے کہ وہ اس سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے نا ہی جانی نقصان پہنچائیں گے۔ اس میں وقت بھی لگ سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس عورت کو شفٹ کرنے کا اجازت نامہ نا ملے۔ تو خود ہی کافی عورتیں کم ہوجائیں گی۔“

بسمہ سب کچھ اتنی چپ چاپ دیکھ رہی تھی جیسے وہاں ہو ہی نہیں۔ مگر سوچ مسلسل رہی تھی۔ جن جن خواتین نے نام لکھوانے تھے وہ لکھوا دیے گئے۔ سب جانے لگیں تو بسمہ اور شنو بھی اٹھیں۔ بختاور نے بسمہ کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔

”آپ رکیں دو منٹ“ شنو نے سوالیہ نظروں سے دیکھا تو بسمہ نے اسے جانے کا اشارہ کر دیا اور خود رک گئی۔
”آپ باسط بھائی کی مسز ہیں؟“
بختاور کے پوچھنے پہ بسمہ نے ہاں میں سر ہلا یا اور شرمندگی سے سر جھکا لیا۔

”آپ اسلم کی کلاس فیلو بھی تھیں ناں؟ سوری آپ کو شاید عجیب لگے مگر مجھے آپ کا اور اسلم والا سارا معاملہ پتا ہے اس نے جو آپ کو میسجز کیے وہ بھی۔ ضروری نہیں کہ ایسا ہو مگر مجھے لگ رہا ہے کہ آپ کے یہاں ہونے سے اس کا کوئی تعلق ضرور ہے۔ اگر میں کوئی مدد کر سکوں تو پلیز مجھے بتائیں۔“

”آپ اگر کر سکتی ہیں تو اتنا کریں کہ اپنے دیور کو میری زندگی سے دور رہنے کا کہہ دیں۔ مجھے حیرت ہے آپ دنیا سدھارنے نکلی ہیں اور آپ کے اپنے گھر کے مردوں کا یہ حال ہے کہ وہ کلاس فیلوز کی زندگیاں تباہ کرتے پھرتے ہیں۔“

”بسمہ آپ کی ناراضگی بالکل بجا ہے۔ میرے ساتھ کوئی لڑکا ایسا کرتا تو شاید میرے بھی اس کے لیے یہی جذبات ہوتے۔ میں اسلم کی کوئی صفائی پیش نہیں کروں گی۔ اس نے جو کیا غلط کیا۔ مگر یہ بھی خیال رکھیں کہ میں اسلم نہیں ہوں میری شخصیت اس سے الگ ہے۔ میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں لیکن اگر آپ مجھے اسلم کے حوالے سے دیکھتی رہیں گی تو شاید ایسا نہ ہوپائے۔“ بسمہ ہونٹ بھینچے دوسری طرف دیکھتی رہی

”ٹھیک ہے آپ میرا کارڈ رکھیں اگر کبھی بھی ضرورت ہو تو مجھ سے رابطہ کیجیے گا۔ بس ایک بات یاد رکھیں آپ خود اپنے لیے کچھ نہیں کریں گی تو کوئی دوسرا بھی آپ کے لیے کبھی کچھ نہیں کرے گا۔ ہر ایک کی اپنی زندگی ہے اور اس کے لیے اس کی زندگی اہم ہے۔ آپ بھی اپنی زندگی کو اہمیت دیں۔“ بختاور نے پرس سے اپنا کارڈ نکال کر بسمہ کو تھمایا اور سامان اٹھا کر ہال سے باہر نکل گئی۔ بسمہ کا دل چاہا کارڈ پھینک دے مگر پھر لاکر اپنے تکیے کے نیچے رکھ لیا۔

باقی دن بھی بے زار کن تھا۔ بسمہ کو جلدی تھی کہ کسی طرح اگلا دن شروع ہو اور وہ عدالت جائے۔ تقریباً 6 بجے کاوقت تھا جب کلرک نے اسے بلایا۔

”بی بی آپ کے بھائی سے رابطہ ہوا ہے انہیں کل عدالت میں بلایا ہے۔ آپ نے اپنے شوہر کا جو نمبر دیا تھا اس پہ جس بندے نے فون اٹھایا اس نے کہا کہ وہ کسی بسمہ کو نہیں جانتا اور نہ ہی وہ باسط ہے۔ اب آپ کے پاس یہی آپشن ہے یا تو کل بھائی کے ساتھ چلی جاؤ یا واپس یہیں آجاؤ۔“ بسمہ نے سر ہلا دیا۔ اسے تھوڑی سی تسلی ہوئی کہ بڑے بھیاکل عدالت آئیں گے۔ اسے بہتری اسی میں لگی کہ وہ ان کے ساتھ ہی چلی جائے۔ وہ یہاں رہ کر کسی دوسرے کا انتظار نہیں کر سکتی تھی نہ ہی بختاور کے ہوسٹل جانا منظور تھا۔

وہ اسلم کی بھابھی نہ بھی ہوتی تو بھی بسمہ اتنا بڑا قدم اٹھانے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ مگر پتا نہیں کیوں وہ چاہ کر بھی اس کی باتوں سے دھیان ہٹا نہیں پارہی تھی۔ جیسا اس نے کہا کہ عورت کمزور ہوتی ہے اسی لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے مگر بسمہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ مرد غریب بھی ہو تو اس کا استعمال کون کرے گا اور کیوں۔ عورت تو خود ہی کمزور ہوتی ہے وہ مرد کی عزت کیسے لوٹ سکتی ہے اور مرد ہی مرد کی عزت تو لوٹے گانہیں۔

بہت الجھا دینے والی بات تھی۔ اس نے ابھی تک مرد کو طاقتور اور ظالم کے روپ میں ہی دیکھا تھا۔ اسے لگنے لگا تھا کہ دنیا کا ہر مرد خود غرض، عورت کو دیکھ کر بہک جانے والا اور بس پیسے کا لالچی ہوتا ہے۔ اس کی زندگی میں جتنے مرد آئے ایسے ہی تھے فائزہ ہمیشہ اپنے والد کی تعریف کرتی تھی اور بسمہ انہیں آئیڈیلائز کرتی تھی کہ ہر باپ کو ایسا ہونا چاہیے مگر اب اسے لگ رہا تھا کہ فائزہ ضرور جھوٹ بولتی ہو گی مرد کبھی بھی عورت کو سپورٹ کرتا ہی نہیں ہے وہ ہمیشہ اسے استعمال کرتا ہے۔

وہ بختاور کی ان تمام باتوں سے متفق تھی کہ عورت کو استعمال کیا جاتا ہے اس کی محنت سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے مگر ساتھ ہی وہ یہ ماننے کو تیار نہیں تھی کہ مرد کا بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ وہ مرد کو مظلوم سمجھنا ہی نہیں چاہتی تھی کسی بھی صورت میں۔ وہ سوچے جارہی تھی۔ کوئی اور کام تھا نہیں اگلے دن تک اس کے پاس سوچنے کے لیے وقت ہی وقت تھا۔

”بسمہ“ شنو نے اسے آواز دی۔ وہ اپنے حصے کا کام وغیرہ نپٹا کر ابھی ہی واپس آئی تھی۔ بسمہ نے اس کی طرف دیکھا۔

”تم نے نام کیوں نہیں لکھوایا؟ مجھے تو بہت اچھا لگا ان کا پراجیکٹ۔“
”میں کل بھائی کے ساتھ گھر چلی جاؤں گی مجھے کیا ضرورت ہے کسی شیلٹر کے لیے نام لکھوانے کی؟“
”اور شوہر سے طلاق لو گی یا سسرال واپس جاؤ گی؟ وہ رکھ لے گا؟“

بسمہ کے دل میں سناٹے اتر گئے۔ اس طرف تو اس نے سوچا ہی نہیں اس کو بس یہ دھن تھی کہ کسی طرح اس قید خانے سے نکل جائے۔

”پتا نہیں“ یہ کہہ کر شنو کی بات کا تو جواب دے دیا مگر اب اس کے اپنے دماغ میں سوالوں اور خدشوں کا سیلاب آ گیا۔ وہ تو میکے جائے گی مگر ابو اور امی اسے رکھیں گے؟ بھیا چپ رہیں گے؟ دادی اور بہنیں کیا کہیں گی؟ وہ دوبارہ باسط کے ساتھ اس وحشت ناک کمرے میں رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ تو کیا پھر وہ طلاق لے؟ کیا گھر والے اسے طلاق لینے دیں گے؟

”دیکھو تعلیم ہمارا بہت اہم ہتھیار اور طاقت ہوتی ہے۔ یہ ہمیں شعور بھی دیتی ہے اور اعتماد بھی ساتھ ہی صحیح فیصلہ کرنے میں مدد بھی کرتی ہے۔“ اس کے دماغ میں بختاور کی آواز گونجی۔ وہ جتنا اس کی باتوں کو نظر انداز کر رہی تھی اتنا ہی ہر بار اسے اور شدت سے یاد آ رہی تھیں۔ اس نے تکیے کے نیچے سے کارڈ نکال کر دیکھا۔ کافی دیر اسے گھورتی رہی پھر پتا نہیں کب وہ کارڈ ہاتھ میں پکڑے پکڑے سو گئی۔ صبح اس کی آنکھ نوشین کے اٹھانے پہ کھلی۔

”اٹھو! جلدی سے تیارہو جاو، پندرہ منٹ میں پولیس کی گاڑی آ رہی ہے تمہیں کورٹ لے جانے کے لیے۔“

وہ اتنا ہڑبڑا کے اٹھی کہ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ بھاگ کے دروازے تک گئی پھر کچھ سوچ کے پلٹی تکیے کے نیچے سے کارڈ نکال کر دو سیکنڈ سوچا کہ کہاں رکھے اس کے پاس کوئی پرس یا جیب نہیں تھی۔ پھرکارڈ گریبان میں رکھا اور باہر نکل گئی۔ جلدی جلدی منہ ہاتھ دھو کر نیچے آفس والی بلڈنگ کے پاس پہنچی تو مین گیٹ سے پولیس کی وین اندر آتی دکھائی دے رہی تھی۔ بسمہ کا تیز دھڑکتا ہوا دل اور تیز دھڑکنے لگا۔ اسے اپنی کنپٹیاں پھڑکتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں۔

اسے بالکل سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اسے ڈر کیوں لگ رہا ہے۔ عدالت کے باہر جب اسے گاڑی سے اتارا تو تھوڑی دور اسے ابو اور بھیا کھڑے نظر آئے۔ ان کی بھی نظریں اسی کی طرف تھیں۔ دونوں کی نظروں میں واضح ناراضگی تھی۔ اسے لے جاکر ایک جگہ بٹھا دیا گیا پھر اس کی باری آئی تو جج کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے وہی سب کچھ جو دارالامان میں بتایا تھا یہاں بھی بتا دیا۔ جج کا رویہ اس کی توقع کے برخلاف کافی نرم تھا۔ انہوں نے اس سے شفقت سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے اپنے بھائی اور والد کے ساتھ جانے میں خود کو محفوظ سمجھتی ہے یا نہیں اگر نہیں تو کوئی اس پہ کسی قسم کی زبردستی نہیں کر سکتا اور عدالت اسے مکمل تحفظ فراہم کرے گی۔

وہ جو پکا ارادہ کیے بیٹھی تھی کہ گھر جانا ہے فیصلہ بتاتے وقت پتا نہیں کیوں کنفیوز ہوگئی۔ بھیا اور ابو کی ناراض نظریں مسلسل اس پہ تھیں۔ جج نے دوبارہ اسے تسلی دی کہ فیصلہ اس کی مرضی سے ہوگا اور یہ اس کا قانونی حق ہے۔ شاید انہیں بھی اندازہ ہورہا تھا کہ وہ کچھ کہتے میں کیوں ہچکچا رہی ہے۔ جج نے اسے مزید مطمئن کرنے کے لیے کہا

”بیٹا آپ گھبرائیں نہیں یہ عدالتیں آپ کے لئے ہی ہیں کوئی آپ کے حقوق کے خلاف ورزی کرتا ہے تو ہم بیٹھے ہیں آپ کو تحفظ دینے کے لیے۔ آپ پریشان نا ہوں اور اعتماد کے ساتھ فیصلہ کریں۔“ بسمہ رو پڑی اسے زندگی میں کبھی بھی فیصلے کا اختیار دیا ہی کب گیا تھا۔ اسے صرف بتایا جاتا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اس کے دل میں آیا کہ گھر والوں کی ایسی نظریں برداشت کرنے سے بہتر ہے میں دارلا امان واپس چلی جاؤں۔ مگر پھر کچھ سوچ کے دوبارہ اپنا فیصلہ بدل دیا۔

”جناب میں اپنے والد کے ساتھ گھر جانا چاہتی ہوں“
*****۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جاری ہے ) ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ******

ابصار فاطمہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابصار فاطمہ

ابصار فاطمہ سندھ کے شہر سکھر کی رہائشی ہیں۔ ان کا تعلق بنیادی طور پہ شعبہء نفسیات سے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ناول وافسانہ نگار بھی ہیں اور وقتاً فوقتاً نفسیات سے آگاہی کے لیے ٹریننگز بھی دیتی ہیں۔ اردو میں سائنس کی ترویج کے سب سے بڑے سوشل پلیٹ فارم ”سائنس کی دنیا“ سے بھی منسلک ہیں جو کہ ان کو الفاظ کی دنیا میں لانے کا بنیادی محرک ہے۔

absar-fatima has 115 posts and counting.See all posts by absar-fatima

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments