سرینگر ہائی وے، ہارن دو راستہ لو


امکان کے لیے وجود کا ہونا اُتنا ہی ضروری ہے جتنا وجود کے لیے امکان کا۔ خواب کے لیے تعبیراور تعبیر کے لیے خواب لازم و ملزوم ہیں۔ موجود اور لا موجود، یعنی اور لایعنی کی بحث سب ایک دوسرے سے جُڑے ہیں۔

ارادوں اور امکانات کو معنی دینے کے لیے تخلیق اور کاوش کی راہ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے اور اُس کے لیے لائحہ عمل۔ بہرحال کشمیر ایک خواب ہے اور اُس کی تکمیل اور تعبیر کے لیے حقیقت پسندانہ پالیسی تو اختیار کرنا ہی ہو گی۔

ہو سکتا ہے کہ ایک منٹ کی خاموشی، سرینگر ہائی وے اور کوئی ایک نغمہ کشمیر پر ہمیں وہ فتح دلا دے جو اس سے قبل کسی کو نہ ملی ہو۔ یا ہو سکتا ہے کہ ہم وہی پالیسی اختیار کر رہے ہوں جو صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کی، محمود غزنوی نے سومنات کی، محمد بن قاسم نے سندھ کی فتوحات سے قبل اختیار کی ہوں۔

یہ بھی عین ممکن ہے کہ ہماری ’ہائی وے پالیسی‘ کے پیچھے کوئی ایسی منطق ہو جو دوسری عالمی جنگ کے فاتح ونسٹن چرچل، ویت نام کے ہیرو ہوچی من، فرانس کے اتحادی افواج کے ہیروڈی گال اور چین کی فتوحات کے جھنڈے گاڑنے والے ماؤزے تنگ نے بھی فتوحات سے قبل اختیار کی ہو۔۔۔ یعنی کوئی ہائی وے متعارف کروائی ہو مثلاً ہائی وے ٹو ویت نام، شاہراہ برلن یا کوئی دو چار منٹ کی خاموشی اختیار کر کے کوئی کامیابی سمیٹی ہو۔

کوئی اعتراض نہیں کہ آپ راتوں رات ہائی وے پر بورڈ لگا کر کشمیر فتح کر لیں لیکن جسارت اس سوال کی ہے کہ پانچ اگست کے بعد سے اب تک ہماری کشمیر پالیسی ہے کیا؟

ابھی حال ہی میں انڈیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رکن بنا، مانا کہ ہم روک نہیں سکتے تھے لیکن کیا پاکستان نے انڈیا کی حمایت نہیں کی۔۔۔ پانچ اگست کے واقعے کے بعد پاکستان کی کشمیر پالیسی جو پہلے کہنے کو جارحارنہ تھی وہ بھی نہ رہی۔ تاہم آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد پاکستان کو جو پالیسی اختیار کرنا چاہیے تھی وہ بھی دیکھنے کو نا ملی۔

پانچ اگست کے بعد سے اب تک کشمیر پالیسی پر تمام سیاسی جماعتوں کے یکساں موقف کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت محض پارلیمان کے ایک اجلاس سے آگے نا بڑھ سکی اور اس ایک غیر متنازع مسئلے پر مسلسل عالمی دباؤ بڑھانے کی بجائے ’اِک چُپ سو سکھ‘ کی پالیسی اختیار کی گئی۔

حزب اختلاف کی جماعتوں کو ایک صفحے پر لا کر دنیا میں کشمیر کا مقدمہ لڑنے کی بجائے ’کشمیر آوور‘ اور اب ایک منٹ کی خاموشی ٹائپ نمائشی سرگرمیوں تک معاملات کو محدود کر دیا گیا۔

پاکستان کی ایک کشمیر کمیٹی تھی جس کی چیئرپرسن کبھی محترمہ بے نظیر بھٹو اور کبھی نوابزادہ نصراللہ خان جیسی شخصیات تھیں۔ نواز لیگ کے دور میں یہ کمیٹی مولانا فضل الرحمن کے سپرد کر دی گئی۔ ظاہر ہے کہ وہ مطلوبہ نتائج جو اس کمیٹی نے ماضی میں حاصل کیے اور جس طرح بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے معاملے پر سرگرم ہوئی وہ گذشتہ دور میں دیکھنے کو نہ ملی۔

اب یہ کمیٹی تحریک انصاف نے اپنے ایک رکن اسمبلی اور سابق وزیر مملکت داخلہ کو وزارت سے بےدخلی کے بعد سونپ رکھی ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس اہم ترین کمیٹی کو اب سزا بنا دیا گیا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت خاموشی کے منٹ بڑھا دے، کشمیر کمیٹی پر کسی کو بھی لگا دے، ساری ہائی ویز کے نام سرینگر رکھ لے تب بھی کیا کشمیر اور کشمیریوں کے دل فتح کرنے میں کامیابی ہو گی؟ اس کا جواب کشمیر کے پیرانہ سال سید علی گیلانی کے جون میں جاری ہونے والی پریس ریلیز میں چھپا ہے جس میں اُنھوں نے خود کو حریت سے الگ کیا تھا۔ سید علی گیلانی صرف حریت ہی نہیں بلکہ پاکستان کی کشمیر پالیسی سے بھی خوش دکھائی نہیں دیتے۔

کشمیر کے لیے کچھ اور ہو یا نہ ہو، انسانی حقوق کی پامالیوں کو بین الاقوامی برادری حساسیت سے دیکھ رہی ہے۔ ایک سال سے کشمیر میں جاری خاموشی عالمی برادری اور خود انڈیا کے ضمیر کو بھی کچوکے لگا رہی ہے۔

پاکستان اس موقع پر خاموش نہ رہے ایک آواز بن کر اُٹھے تو کم از کم کشمیری ضرور خوش ہوں گے جو آج بھی صرف پاکستان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ کشمیر کا مقدمہ لڑنا ہے تو سرینگر ہائی وے پر چڑھنے کے لیے پاکستان کو زور دار ہارن بھی دینا ہو گا اور اپنا راستہ بھی لینا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).