میں تو ششدر رہتا ہوں


فطرت سے متعلق سائنسدان زیادہ متحیر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلسل جستجو کرتے ہیں لیکن حیرت کے در ہیں کہ تمام ہونے میں نہیں آتے۔ ایک کھولو تو دس مزید در بند ملتے ہیں۔

عام لوگوں میں سے ایسے کچھ افراد جنہوں نے علم کا مجموعی طور پر احاطہ کیا ہوتا ہے، ماورائیت سے متعلق نتیجہ اخذ کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملات کو اس یا اس خانے میں رکھ دیتے ہیں اور ان میں سے دونوں اطراف کی اپنی اپنی دلیلیں ہوتی ہیں۔

جانداروں کے ارتقائی عمل سے اگر انکار نہ بھی کیا جائے تو ابھی تک اس بات کی توضیح نہیں کی جا سکی ہے کہ جاندار نباتات ہو یا حیوانات بشمول انسان کے غذا کے اندر موجود مختلف مادوں جن میں نمکیات بھی ہوتے ہیں، دیگر معدنی اجزاء بھی اور حیاتین و چربیات بھی، کو کس طرح نہ صرف علیحدہ علیحدہ کرتے ہیں بلکہ انہیں اپنے اپنے اجسام کے مختلف مقامات پر لے جا کر اس میں مختلف اعضا سے ایسے دیگر مختلف مادے بھی شامل کرتے ہیں جن سے ایک نیا کیمیائی عمل شروع ہوتا ہے اور نئی کیمیائی ترکیبات تیار ہوتی ہیں۔

پھر جو اجزاء مختلف اعضاء سے باہر سے داخل کی گئی غذا سے حاصل شدہ علیحدہ کردہ اجزاء میں اس عمل کی خاطر شامل کیے جاتے ہیں ان میں سے کچھ خالصتا ”انہیں مخصوص ابدان کی پپداوار ہوتے ہیں اور کچھ کو باہر کے اعمال جیسے خوف، خواہش وغیرہ پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔

ایک مثال لیتے ہیں۔ انسان نے تازہ سبزیاں، پھل اور جانداروں کا گوشت ایک ہی وقت کی غذا میں استعمال کیا ہے۔ چبانے اور معدے میں اتارنے کے بعد نظام انہضام میں معدے کے افعال کے سبب اس کا ملیدہ یا ملغوبہ بن گیا ہے جو انٹڑیوں میں جاتا ہے۔ انتڑیوں سے اس مواد کا ست یا پانی جذب ہو کر خون کا حصہ بنتا ہے۔ خون اس مادوں ملے پانی کو جسم کے مختلف اعضاء تک پہنچاتا ہے اور وہ اعضا اس میں سے جو جو کچھ جس جس نے جیسے جدا کرنا ہوتا ہے، جدا کرتے ہیں پھر یا تو ان جدا شدہ مادوں کو چاہے وہ نمکیات ہوں، دیگر معدنی مواد ہوں یا حیاتین و چربیات ویسے کا ویسا دوبارہ خون میں ڈال دیتے ہیں کہ انہیں جسم کے ان مقامات تک پہنچا دے جن کو اپنی افزائش، کارکردگی یا محض وجود برقرار رکھے جانے کی غرض سے ان کی ضرورت ہوتی ہے یا پھر ان میں مزید اجزاء ملا کر ایک اور عملی کیمیائی طریقے سے گزار کر پھر خون کی نالیوں میں تزریق کیا جاتا ہے۔

انسان ہو یا جانور جن کی زندگی عیاں ہوتی ہے یا پودے اور درخت ہوں جن کی زندگی مخفی ہوتی ہے کیونکہ وہ حرکت اور حرکات نہیں کر سکتے، میں یہ افعال مسلسل ہو رہے ہوتے ہیں۔ کبھی سست کبھی مستعدی کے ساتھ۔ ایسے اعمال کا اگر ایک ہزارواں حصہ بھی، جو اول تو ممکن نہیں اگر بفرض محال ممکن ہو بھی جائے، کرنے کی خاطر کتنی زیادہ توانائی چاہے وہ بجلی کی شکل میں ہو یا عمل تحریق کی شکل میں درکار ہوگی وہ اس توانائی سے ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ ہو سکتی ہے جو ایک بلی، ایک انسان، ایک چنبیلی کے پودے یا شیشم کے درخت کے اندر وقوع پذیر ہو رہی ہوتی ہیں۔

ایک چھوٹا سا کھلونا چلانے کے لیے بھی ڈیڑھ سے تین یا اس سے زیادہ وولٹ کے بیٹری سیل درکار ہوتے ہیں جبکہ انسان یا بلی کو متحرک اور ناطق رکھنے کی خاطر شاید اعشاریہ اعشاریہ اعشاریہ اعشاریہ ایک وولٹ بجلی چاہیے ہوتی ہے جو ابدان کے اندر ہی بنتی ہے اور جس کا اظہار اس گراف میں ہوتا ہے جو دل یا دماغ کے اعمال کو ریکارڈ کرنے کے لیے تیار کیے جاتے ہیں یعنی ای سی جی یا ای ای جی میں۔

ابدان میں نمکیات، معدنی مادوں، حیاتین و چربیات کی کمی بیشی سے زندگی کے افعال متاثر ہوتے ہیں۔ ابدان میں ان کی مقدار کو متوازن رکھنا بھی ایک ایسا نازک قدرتی طور پر کمپیوٹرائزڈ عمل ہے جو جوہری کی سی صناعی کے ساتھ ہو رہا ہوتا ہے۔ اگر کمی بیشی ہو جائے تو ادویہ سے نظام کی بہت حد تک درستگی ممکن ہوتی ہے۔

دنیا میں استعمال ہونے والی کوئی بھی شے ایسی نہیں ہے جو زمین کے علاوہ کہیں اور سے مثال کے طور پر خلاء سے آئی ہو۔ چنانچہ ادویات بھی ایسے کیمیائی مادے ہوتے ہیں جو جسمانی افعال پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ایک اور مثال لیتے ہیں کہ جیسے اینٹی بائیوٹک ادویہ ہیں جو مضر یا مہلک جراثیموں کے خلاف کارگر ہوتی ہیں، وہ جسم کے اندر موجود ہزاروں طرح کے ان جراثیموں میں سے بیشتر انواع کی ہلاکت کا موجب بھی بنتی ہیں جو جسم بلکہ زندگی کے لیے سازگار ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جسم کا اپنا مدافعتی نظام اس قدر درست ہوتا ہے کہ وہ صرف اور صرف مضر جانداروں یعنی جرثوموں وغیرہ کی تلفی کا موجب بنتا ہے لیکن سازگار جانداروں کو جوں کا توں رہنے دیتا ہے۔

نظریہ ارتقا کے مطابق لاکھوں کروڑوں اربوں سال پر محیط عمل کے بعد یک خلیہ حیات کثیر الخلیہ جاتی حیات یعنی جانداروں اور نباتات کی افزائش کا موجب بنا ہے۔ اس دوران وہ کون سے محرکات تھے جنہوں نے نطق و احساسات کے ساتھ ساتھ نظام انہضام سے لے کر جنسی عمل کی طلب اور اس کو پورا کرنے کی استعداد تک کو ممکن بنایا۔ اس سب سے متعلق ہم ابھی بہت زیادہ اندھیرے میں ہیں۔ سائنس یہ تو بتاتی ہے کہ جسم میں فلاں فلاں افعال و اعمال ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں معینہ سود مند یا غیر سود مند یا مضر کیمیائی حیاتیاتی مواد پیدا ہوتے ہیں لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے اور کیونکر ہوتا ہے، اس سلسلے میں معلومات شاید ابتدائی ہونے کے برابر بھی نہیں ہیں۔

مادہ منویہ میں متحرک ایک انتہائی مہین ذرے اور سوئی کی نوک سے کئی گنا کم حجم کے بیضے سے ایک بچہ اور پھر مکمل مرد یا عورت بننے تک یا مختلف چھوٹے چھوٹے بیجوں سے مختلف پودے اور درخت بننے تک جن میں سے متنوع رنگوں کے پھول اور مختلف رنگوں، ذائقے اور ماہیت کے پھل بننے تک میں اتنے راز پنہاں ہیں جن میں سے ہم بہت ہی کم کو جان سکے ہیں مگر زبان اتنی دراز ہے کہ ماورائیت کے مقابلے پر کھڑے ہو کر اپنے گرد سائنسی مریدین و مقلدین کے حلقے کھڑے کرنے کی خواہش کی تکمیل کو معراج سمجھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments