نسائیت پسندی: ایک اخلاقی تقاضا


چند روز قبل ہمارے ایک استاد نے ہم سے ایک سوال کیا کہ ہمارے خیال سے ہماری کون سی بنیادی شناخت ہماری شخصیت، سوچ اور معاشرتی رویوں میں سب سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے؟ لفظ شناخت سن کر میرا دھیان فوراً مذہب اور ملک کی طرف گیا، کہ میں ایک پاکستانی ہوں یا پھر ایک مسلمان ہوں۔ لیکن پھر فوراً اس بات کا احساس ہوا کہ نہیں، میں سب سے پہلے ایک صنف نازک ہوں۔ یہ لفظ میرے ہی جنس کے لئے کیوں چنا گیا اور اس کے پیچھے کیا سوچ تھی، یہ بات مجھے اس وقت سمجھ میں نہ آئی لیکن کچھ سوالات میرے دماغ میں گردش کرنے لگے کہ اگر مجھے صنف نازک قرار دیا گیا ہے تو پھر مجھے پیدا ہونے پر زندہ درگور کیوں کیا جاتا ہے؟

اگر میں رحمت ہوں تو میری پیدائش پر سوگ کیوں منایا جاتا ہے؟ اگر میں اپنے شریک حیات کے لیے باعث سکون ہوں تو محض روٹی تیار نہ ہونے پر مجھے قتل کیوں کر دیا جاتا ہے؟ اگر میرے پاؤں تلے جنت ہے تو جائیداد کی خاطر مجھے کیوں مارا پیٹا جاتا ہے؟ اگر میں صنف نازک ہوں تو معاشرتی رویوں میں تضاد کیوں ہے؟ کیوں ہر ڈرامے میں مجھے بے وفا، لالچی، گھر توڑنے والی یا فساد پھیلانے والی دکھایا جاتا ہے۔ جب میں مساوی حقوق کی بات کرتی ہوں، تو کیوں مجھے مساوی ذمہ داریوں کا کلمہ پڑھایا جاتا ہے؟

کیوں میری قابلیت اور ذہانت کو پس پشت ڈال کر صرف میری نسوانیت کو سراہا جاتا ہے؟ کیا یہ سب مسائل اور تحفظات مجھے اس لیے درپیش ہیں کہ میں ایک صنف نازک ہوں؟ یہ سمجھنا کیوں اتنا مشکل ہے کہ نسائی حقوق کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ دوسرے جنس کے حقوق کم کر دیے جائیں؟ کیوں صنفی مساوات کے مطالبے کو مردوں سے نفرت سمجھا جاتا ہے؟ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ خواتین کے حقوق موجود نہیں ہے، مسئلہ ان حقوق کی خلاف ورزی ہے، مسئلہ ان حقوق کو نہ ماننے کا ہے۔

کیوں نسائی حقوق کی بات کرنے والوں کو گمراہ قرار دیا جاتا ہے جبکہ یہ حقوق تو عورت کو اس کے خالق نے عطا کیے ہیں۔ کیوں صنف نازک کو با اختیار بنانا معاشرے کے لئے تحدید سے کم نہیں۔ نساعی حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کے لیے مشکلات اس لیے زیادہ ہیں کیونکہ یہ جنگ کسی ادارے یا کسی تنظیم کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ جنگ معاشرے میں پائے جانے والے متعصب سوچ اور امتیازی سلوک کے خلاف ہے۔ یہ جنگ معتصب عقائد اور غیر معقول مفروضوں کے خلاف ایک جنگ ہے، بدترین سماجی نا انصافی کے خلاف ایک جنگ ہے جس کے لیے صبر کے ساتھ ساتھ استقامت اور بلند حوصلے کی ضرورت ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی حقوق کی بنیادوں کو سمجھا جائے کہ پدر شاہی نظام نہ صرف عورتوں کے لیے بلکہ مردوں کے لئے بھی ایک معاشرتی ناسور ہے۔ اس نازک صورتحال میں معاشرتی قوتوں کو ایک ہو کر اس مرض سے لڑنا ہوگا یہ سوچتے ہوئے کہ صنفی مساوات کی یہ جنگ کسی دوسری جنس کے خلاف نہیں بلکہ معاشرے میں پائے جانے والی متعصب اور امتیازی روایات کے خلاف ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments