جتنا مرضی طبلہ جنگ بجوا لیں


ایک پیج کی وجہ سے عام تاثر بنا ہوا ہے کہ فوج ہے ایجنسی ہے عدالت ہے کپتان ہے ان سب کا اک اتحاد ہے۔ اس اتحاد کی ارمانوں سے لائی بٹھائی اور چاہی گئی حکومت ہے۔ اس کی کارکردگی نکال کر دکھانے کو ڈال لیں جیب میں ہاتھ۔ گھوم پھر شرمندہ واپس آئے گا آپ کا ہاتھ وہ بھی یہ بتانے کہ جیب پھٹی ہوئی ہے۔ یہ جو بھی اتحاد تھا یہ کس کے خلاف تھا؟ اس اپوزیشن کے خلاف جسے ووٹوں میں گنیں تو اکثریت ہے۔

اب ان مخالفین کی مار کٹ ہو چکی، سب دیکھ چکے، حاصل وصول کچھ نہیں ہے۔ اپوزیشن اپنے لیے نہیں بولتی۔ حکومت ان کی گئی ہے۔ ان کے لیے بات کرنے والے سارے اپنی نوکریوں سے گئے۔

کچھ سدھر گئے کچھ مزید بگڑ گئے۔ لوگ یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ کچھ کہہ نہیں پاتے۔ ریلیف کوئی ملا نہیں۔ امیدیں پوری نہیں ہوئیں۔ معیشت سے سفارت تک، مریض سے کشمیر تک۔ فاٹا سے بلوچستان تک سب بے قابو ہے۔ جو بتاتا ہے کہ بے قابو ہے وہ بھگت لیتا ہے

آئی ایس پی آر نے شاید یہ آخری گانا بنایا ہو۔ اب ہو سکتا ہے وہ گانا نہ بنائیں، یا کچھ بریک لے لیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ٹویٹر سے بریک لیا گیا ہے۔ اک بلاوجہ کی محاذ آرائی میں کمی آ گئی ہے۔

گیت پر جو ردعمل آیا ہے، اس کا حساب کتاب کیا جائے تو فائدہ ظاہر ہو نہ ہو گیت تماشا بنا، دنیا دا ہاسا بنا، ضرور پتہ لگ جائے گا۔ اس پر لگتی جگتیں دیکھ کر پھڑکنی لگے بے کل ہوئے پھڑکو تڑپ رہے ہیں، ہٹ ہٹ کے آتے ہیں باتیں بناتے ہیں بنتی نہیں۔ بتاتے ہیں کوئی سنتا نہیں، بولتے ہیں تو لوگ ہنستے ہیں۔

انہیں اپنے نمبر ٹانکنے ہیں، حوالدار بشیر اک بار بس دیکھ لے کہ بڑا بٹیرا مافک لڑا تھا یہ بھائی۔ اسے کسی نے کہا تک نہیں تھا لیکن لڑ رہا ہے۔ اپنی طرف سے دفاع کرتا یہ ماما جانتا ہی نہیں کہ زیادہ ہنسا رہا سین میں اضافی کامیڈی بھرتا جا رہا۔

جگت بغیر مشاہدے کے نہیں لگتی، بغیر تعلق کے نہیں لگتی، تعلق چاہے ناراضگی کا ہی اور بچا کھچا سا ہی رہ گیا ہو۔ فوج عدالت ایجنسی ہر پاکستانی شہری کی ہے۔ کپتان بھی سب کا ہی وزیراعظم ہے۔ یعنی سارے اپنے ہیں۔

اس اپنائیت اور محبت کا تقاضا ہے کہ بتایا جائے کہ حضور آگے کھڈا ہے، دیوار ہے نہ سر مارو اس میں۔ ناراضگی کا اظہار کیا جائے کہ ہماری کوئی اور فوج عدالت یا ایجنسی نہیں ہے۔

آپ سب ایک ہی کے پیچھے کیوں کھڑے ہو گئے۔ ٹھیک ہو گئے دیکھ لی ہو گی کوئی خرابی۔ جس سوہنے کی سرکار، اس کی منجی اٹھا کر پھر رہے ہیں، اسے کہتے کیوں نہیں کہ تم اب ان سب کے بھی ذمہ دار ہو۔ ان کو تم نے راضی کرنا ہے مرو جیسے مرضی کرو۔ انہیں اپنے پیچھے اکٹھا جمع رکھو۔

یہ اتنی سادہ سی سیدھی سی صاف سی بات ہے کہ مطیع اللہ جان جب مار کھا کے آتا ہے اک بار بار پوچھے سوال پر کہ سافٹ ویئر بدلا یا نہیں وہ کالم لکھتا ہے تو اس کا اختتام یوں کرتا ہے کہ کیا کریں اس فوج سے ہمیں بھی محبت ہے۔ یہ کہنے سے پہلے وہ سب کہتا ہے جس پر اسے اعتراض ہے۔

بائیس کروڑ کا کثیر القومی ملک ہے رنگ رنگ کی مذہبی پاکٹس ہیں۔ اختلاف ہوں گے ، ہمیشہ ہوں گے رہیں گے بھی۔ ان اختلافات کو حسن میں ڈھالتی سنوارتی سیاست ہی، سیاسی قیادت جو ساری ہی دوڑا دی گئی جو بچی ہے الگ سی ہوئی بیٹھی ہے۔

یہ سیاستدان ہیں جو لوگوں کو اکٹھا رکھتے ہیں جمع رکھتے ہیں۔ ہجوم کو ایک طاقت میں ڈھالتے ہیں۔ اپنے اداروں کی عزت بحال رکھتے ہیں۔ جب انہیں درمیان سے نکال دیا جائے۔ تو اپنے ہی لوگ بے چین ہو جاتے ہیں، اپنی ہی زمین پر گڑ بڑ ہو جاتی ہے۔ کام دھندے رک جاتے ہیں۔ روٹی مانگ کے کھانے کی نوبت بھی آ جاتی ہے۔ غیر بدمعاشی کرتے ہیں جیسے کشمیر پر کی گئی ہمارے ساتھ ہو گئی۔ ہم گیت بنائیں کچھ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ ہم ہنسی کا سامان ہوئے، بات بگڑی ہی رہے گی جتنا مرضی پھر طبلہ جنگ بجوا لیں۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments