نوشابہ کی ڈائری: کیا ہر وقت دہلی کی باتیں، چھوڑیں نہ یہ دہلی دہلی



20 مئی 1987

ڈائری! شکر ہے تم مل گئیں۔ تم کھو گئی تھیں تو تمھارے کھونے کے افسوس کے ساتھ یہ ڈر بھی تھا کہ کسی کے ہاتھ نہ لگ جاؤ۔ جانے کیا کچھ کھوگیا، وہ گھر جہاں بچپن گزرا، شہر، محلہ، اسکول، سہیلیاں، مس نرگس، زہرہ باجی۔ ہجرت کرنے میں یہ سب تو ہوتا ہے۔ میں جو کچھ ساتھ لے کر چلی تھی اس میں سب سے قیمتی تم ہو، اور یہاں پہنچ کر ڈھونڈا تو تم غائب۔ میرپورخاص سے جانے کتنی بار کراچی آنا ہوا مگر اس بار دل کٹے جا رہا تھا آنکھیں پونچھ پونچھ کر گزرتے منظر دیکھتی رہی۔

شاہی بازار، گاما اسٹیڈیم، سڑک کنارے وہ پھولوں سے لدا چھوٹا سا مزار، حیدرآباد کو جاتی سڑک پر بچھے پیڑوں کے سائے، لدی پھندی شاخیں زمین پر ڈالے دور تک پھیلے آم کے باغ۔ پتا تھا میرے میٹرک کا امتحان دیتے ہی کراچی جانا ہے مگر یہ نہیں سوچا تھا کہ اتنا دکھ ہوگا۔ امی ابو کے منہ سے دلی چھٹنے کا ذکر سنا بہت سمجھ میں اب آیا۔

ملیر بھی کچھ کچھ میرپورخاص جیسا لگتا ہے۔ لیاقت مارکیٹ سے ملیر سٹی تک چلنے والے تانگے دیکھ کر تو لگتا ہے جیسے میں میرپورخاص ہی میں ہوں۔ جس طرح مجھے ملیر میرپورخاص جیسا لگتا ہے اسی طرح انیس کو یہ خیرپور جیسا لگتا ہے۔ انیس لوگ ہم سے کچھ پہلے ہی کراچی آئے ہیں۔ پوری کلاس میں میرے اور انیس سمیت چار لڑکیاں اندرون سندھ کی ہیں۔ اس لیے ہم چاروں کی بہت اچھی دوستی ہوگئی ہے۔ میں اور انیس میرپورخاص اور خیرپور کو یاد کریں تو کراچی کی لڑکیاں ہمارا مذاق اڑاتی ہیں، کہتی ہیں ”کراچی میں آ گئیں اب بھول بھی جاؤ میرپورخاص اور خیرپور، کب تک اپنے شہروں کی رٹ لگائے رکھو گی۔

“ میں، بھائی جان اور باجی بھی امی اور ابو سے اسی طرح کہتے رہے ہیں، ”کیا ہر وقت دہلی کی باتیں، چھوڑیں نہ یہ دہلی دہلی۔“ بھارت سے ہماری نفرت اس کی ہر چیز کی بس برائی سننا چاہتی تھی۔ ابو نے ایک دن ہمیں بڑے سکون سے جواب دیا تھا، ”ماضی کا ذکر کرنے سے وہ کتراتے ہیں جن کو اپنے ماضی پر شرمندگی ہو۔ یہ وہ نسبتیں ہیں جنھیں یاد نہ بھی کرو تو یاد دلا دی جائیں گی۔“ انھوں نے محسن بھوپالی کی ایک نظم بھی سنائی تھی، میں نے فوراً لکھ لی تھی:

تم محسن ہو؟
یہ تو ٹھیک ہے
لیکن تم یہ بھوپالی کیوں لکھتے ہو؟
اگر نہ لکھتا، آپ پوچھتے
کہاں کے رہنے والے ہو؟
میں کہتا لڑکانے کا
تم پھر کہتے، پاکستان آنے سے پہلے
کون سے شہر میں رہتے تھے؟
میں کہتا، بھوپال
․․․․․گھما پھرا کر مجھ کو جو بتلانا پڑتا
میں نے ساتھ ہی لکھ رکھا ہے

خیر میں انیس کی بات کر رہی تھی۔ انیس پہلے کھوکھراپار میں ہمارے گھر سے دو گلی آگے رہتی تھی۔ اب وہ لوگ سعودآباد چلے گئے ہیں آر سی ڈی گراؤنڈ کے پاس۔ میں نے کہا کہ کھوکھراپار ہی میں رہتیں تو کتنا اچھا ہوتا ہمارے گھر پاس پاس ہوتے۔ کہنے لگی ابو بھی وہیں رہنا چاہتے تھے کیوں کہ مکان کا کرایہ کم تھا، لیکن ہر جمعے کو کافر کافر سننے کو ملتا تھا، برداشت کرنا مشکل ہوجاتا تھا۔ پھر ہماری دیوار پر بھی نعرہ لکھ دیا کافر کافر والا۔ امی تب سے ڈر گئیں۔ وہ تو جعفر طیار سوسائٹی جانے کو کہہ رہی تھیں لیکن وہاں مکان نہیں ملا۔

یہاں تو ہر دیوار پر یہی نعرے لکھے ہیں۔ جگہ جگہ شیعوں کے لیے کہیں کہیں وہابیوں کے لیے۔ ہمارے گھر کے سامنے والی دیوار پر بھی ایسے ہی نعروں کے ساتھ بڑا بڑا ”نام ہمارا سپاہ صحابہ لکھا ہے۔“ میرپورخاص میں بھی کچھ جگہ انجمن سپاہ صحابہؓ کے پوسٹر لگے دیکھے تھے، لیکن یہاں تو جگہ جگہ اس کا نام اور نعرے نظر آتے ہیں۔ پچھلے مہینے چھوٹے ماموں کے گھر سپاہ صحابہؓ کے مولانا جھنگوی کی تقریر بھی سنی۔ وہ کتابوں سے ایسے ایسے حوالے دے رہے تھے کہ حیرت ہو رہی تھی کوئی ایسا بھی لکھ سکتا ہے۔

خون بھی کھول رہا تھا۔ ممانی بتانے لگیں جبران یہ کیسٹیں لا لا کر سنتا رہتا ہے۔ امی نے سمجھایا کہ بیٹا اس طرح کی تقریریں مت سنا کرو ایسی باتیں سننا بھی گناہ ہے، بس پھر کیا تھا جبران نے ٹیپ ریکارڈر بند کیا اور خود تقریر شروع کردی۔ ”پھوپھی جان! آپ کو نہیں پتا ان کے عقیدوں کا۔ یہ کیا کیا کہتے ہیں۔“ یہ بھی کہہ رہا تھا کہ ”ایران میں انقلاب کے بعد ان کا بہت زور ہو گیا ہے، اسلام آباد میں دھرنا دے کر ضیاء الحق سے اپنے سارے مطالبات منوا لیے۔

“ نہ جانے کتنی دیر تک اور کیا کیا بولتا رہا۔ پتا نہیں کیا صحیح ہے کیا غلط۔ چھوٹے خالو کے گھر جھنگ سے ان کے بھائی آئے ہوئے تھے وہ ابو سے باتیں کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ جھنگ میں محرم میں جو کچھ ہوتا رہا ہے یہ اس کا ردعمل ہے۔ پھوپھا اس سب کو ایران کے انقلاب سے جوڑتے ہیں، شہاب بھائی کے سامنے ذکر نکلا تو جھٹ بولے کچھ نہیں سب مہاجروں کا اتحاد توڑنے کی سازش ہے۔ پتا نہیں سازش ہے یا نہیں، اور ہے تو کس کی اور کس کے خلاف؟

لیکن فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے جعفری خالہ کی بیٹی فاطمہ اور بیٹا عابد سنیوں کی مسجد میں میرے ساتھ قرآن پڑھتے تھے۔ اور جس دن محلے کی مسجد میں لاؤڈاسپیکر لگا تھا بھائی جان اور زہرہ باجی کے بڑے بھائی تقی، جنھیں زہرہ باجی کی طرح میں بھی تقی بھیا کہتی ہوں، نے مل کر نعت پڑھی تھی ”اللہ اللہ اللہ ہو، لا الہ اللہ ہو، آمنہ بی بی کے گلشن میں آئی ہے تازہ بہار، پڑھتے ہیں ﷺ آج در و دیوار نبی جی ﷺ ۔“ نویں جماعت میں آکر جب میں نے سنا کہ شیعہ طلبہ کے لیے الگ سے ”شیعہ دینیات“ کی کتاب ہے تو بہت حیرت ہوئی۔ زہرہ باجی سے ذکر کیا تو کہنے لگیں ”یہ بھٹو کی مہربانی ہے کہ اس نے ہمارے شیعہ علماء کے مطالبے پر شیعہ دینیات کو نصاب کا حصہ بنایا۔“

امی آج کل بھائی جان کے لیے لڑکی ڈھونڈ رہی ہیں۔ کبھی میں اور امی اور باجی آئی ہوئی ہوں تو وہ بھی لڑکی دیکھنے جاتے ہیں۔ بڑی خاطر ہوتی ہے، کھاتے پیتے ہیں اور آ جاتے ہیں۔ کوئی لڑکی امی کو پسند نہیں آتی، کوئی باجی کو نہیں بھاتی، کسی کے لیے بھائی جان انکار کردیتے ہیں۔ ابو اس معاملے میں پڑتے نہیں۔ جب ہم کسی گھر لڑکی دیکھ کر آئیں تو وہ رات کو اپنی پرچون کی دکان سے واپسی پر بس اتنا پوچھ لیتے ہیں ”ہاں بھئی کیا ہوا؟

“ ۔ بھائی جان مجھ سے لڑکی کی تفصیلات معلوم کرتے ہیں، جو ”کیسی ہے“ کے سوال سے شروع ہوتی ہیں۔ ان کے لیے تصویر آتی ہے مگر وہ کہتے ہیں یار تصویر سے صحیح اندازہ نہیں ہوتا۔ امی پہلے کہتی تھیں رشتے دہلی والوں ہی میں کروں گی، مگر باجی کی دفعہ میں ناکامی ہوئی، انھیں جے پور والوں میں بیاہنا پڑا۔ اب امی کہتی ہیں ”ہمارے دہلی والے ہوں تو اچھا ہے۔“ ایک لڑکی امی اور بھائی جان کو پسند آئی تھی۔ محلے کی شادی میں دیکھا تھا اسے۔

مگر جب پتا چلا کہ وہ لوگ بہاری ہیں تو امی پیچھے ہٹ گئیں۔ حیدرآبادیوں کے لیے تو امی کا صاف پالیسی بیان ہے ”حیدرآبادنیں بہت تیز ہوتی ہیں، ان سے تو اپنے بیٹے کی شادی مر کر بھی نہ کروں۔“ میری دوست مہناز کی امی یہی بات دہلی والیوں کے لیے کہتی ہیں ”بہت چالاک ہوتی ہیں، زبان قینچی کی طرح کترکتر چلتی ہے۔“ وہ بھی بہو ڈھونڈ رہی ہیں یوپی والوں میں۔ نہ جانے اچھی لڑکیاں کہاں ہوتی ہیں۔ امی کہتی ہیں لڑکی دہلی والوں کی ہوگی تو رہن سہن ہمارے جیسا ہوگا ہمارے گھر میں رچ بس جائے گی۔

اس معاملے میں ابو بھی امی سے متفق ہیں۔ میرے امی سے بحث کرنے پر ایک دن وہ کہنے لگے، ”بیٹا! کہیں پہلے سے بسنے والوں اور وہاں جانے والوں میں رسم ورواج میں فرق ہو تو مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اب یہی دیکھو جو لوگ مشرقی پنجاب سے مغربی پنجاب میں آئے وہ وہاں گھل مل گئے، لیکن سندھ میں آنے والوں کو سندھی بنتے بنتے وقت لگے گا، مگر اب لگتا ہے پہیا الٹا گھوم گیا ہے، ایم کیوایم والے مہاجروں کو چھوڑا ہوا پاجامہ پہنانے پر مصر ہیں۔

“ ابو کے ایک کزن سلیم چچا نواب شاہ میں رہتے ہیں، بہت بڑے ٹھیکے دار ہیں، سرکاری عمارتوں اور سڑکوں کے ٹھیکے لیتے ہیں۔ وہ اور ان کے بیٹے فرفر سندھی بولتے ہیں۔ عید پر ان کے سب بیٹوں نے خاص طور پر پاجامے کرتے سلوائے تھے۔ سلیم چچا نے عید کی صبح بیٹوں کو پاجامے کرتے میں دیکھا تو ڈانٹ کر کپڑے تبدیل کروا دیے، کہنے لگے، ”ہم سندھیوں کے ساتھ رہ رہے ہیں اور اب یہیں رہنا ہے، یہ فرق پیدا کرنا غلط ہوگا۔ جو یہاں سب پہنتے ہیں وہی پہنو، سارے جاؤ فوراً کپڑ بدل کر آؤ۔“ پھر ان کے ہاں سب نے پرانے کپڑوں میں عید کی نماز پڑھی تھی۔

ارے ایک بہت اچھی خبر۔ کچھ عرصے سے یہ چل رہا ہے کہ باجی جب بھی آتیں امی کے ساتھ کھسر پسر شروع کردیتیں۔ میرے آتے ہی دونوں چپ ہو جاتیں۔ پھر امی سلائی مشین پر چھوٹے چھوٹے کپڑے سینے لگیں۔ میں نے پوچھا کس کے ہیں تو مسکرا کر بولیں ہیں کسی کے۔ پھر کہہ دیا ایک جاننے والی کے بچے کے ہیں۔ میری بھولی بھالی امی نہیں جانتیں کہ مجھے بہت پہلے سب پتا چل گیا ہے۔ اس روز میں کالج اور ابو دکان پر جانے کی تیاری کر رہے تھے تو میں نے اتفاق سے سن لیا، امی بہت دھیمی آواز میں ابو کو اطلاع دے رہی تھیں ”مبارک ہو، آپ نانا بننے والے ہیں۔“ یعنی میں خالہ بننے والی ہوں، یہ خیال آتے ہی میں خوشی سے اچھل پڑی۔ میں نے بھائی جان کو بھی بتادیا، انھیں بھی نہیں پتا تھا۔ اس میں بھلا چھپانے والی کیا بات تھی۔ یہ امی بھی نا۔

میں نے بھائی جان کی چوری پکڑلی۔ ان کی قمیص کی جیب میں ریزگاری تلاش کر رہی تھی کہ سگریٹ ہاتھ میں آ گئی۔ میں نے کہا ”امی کو بتاؤں“ تو منتیں کرنے لگے، بلیک میل کرکے دس روپے اینٹھ لیے ان سے۔ میرپورخاص میں بھی دیکھا اور یہاں بھی لڑکے میری عمر کے ہوں یا بھائی جان جتنے بڑے، سگریٹ ایسے چھپا کر پیتے ہیں جیسے چوری کر رہے ہوں۔ محلے کی دکان سے خریدتے ہیں نہ محلے میں پیتے ہیں۔ کونوں کھدروں میں چھپے ہتھیلی اور انگلیوں کی اوٹ میں چھپا کر پی رہے ہوتے ہیں۔

کالج سے آتے ہوئے دیکھا پڑوس والا قادر، ربن دادا کے ہوٹل کے پاس دوستوں کے ساتھ کھڑا سگریٹ پھونک رہا تھا۔ محلے میں کیسا پارسا بنا رہتا ہے۔ یہ لڑکے بھی عجیب ہیں۔ آتے جاتے اٹھتے بیٹھتے میں سب دیکھتی سنتی رہتی ہوں۔ سگریٹ پینا ہو، لڑکی کا معاملہ ہو یا موٹی سی گالی دینا ہو، کہتے ہیں ”اپنے محلے میں نہیں“ دوسری جگہ سب کر لیں گے، مکار کہیں کے۔

اس سیریز کے دیگر حصےنوشابہ کی ڈائری: ٹی وی فریج بیچ کر اسلحہ خریدنا ہوگا 28 دسمبر 1986نوشابہ کی ڈائری ( 8 ) ”آئندہ الطاف بھائی کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولیے گا“

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments