پاکستانی معاشرے کا زوال اور حکومتی ذمہ داری


آج پاکستان ایسا منظر پیش کر رہ رہا جہاں غریب آدمی معاشی مشکلات کا شکار نظر آتا ہے وہیں پر کچھ طبقات کی دولت کا کوئی حساب کتاب نظر نہیں آتا۔ پاکستان کے 73 ویں 14 اگست کی آمد آمد ہے اور ابھی تک ہمارا ملک خود کفالت کی منزل سے بہت دور ہے۔ نہ ہمیں معاشی خود مختاری نظر آتی ہے اور نہ ہی سیاسی طور پر ہم اپنے ملک کو اتنا مضبوط بنا پائے ہیں کہ دنیا کے مسائل کے بارے ہم ہر فورم پر اعتماد سے اپنے مفادات کے کیے بات کر سکیں آج بھی ہم آئی ایم ایف کے قرضے لے کر ان کی شرائط پر اپنی اقتصادی پالیسیاں مرتب کر رہے ہیں اور ایف اے ٹی ایف کے دباؤ پر قانون سازی ہو رہی ہے۔

ہمارے سامنے ترکی کی مثال ہے جس نے صحیح معنوں میں سیاسی اور معاشی آزادی و خود مختاری حاصل کی ہوئی ہے۔ ترکی نے جب اپنے مفادات کو خطرے میں دیکھا تو بلا خوف و خطر شام اور لیبیا میں فوجی مداخلت کر دی۔ جب ترکی کی ایک عدالت نے مشہور زمانہ آیا صوفیہ کو دوبارہ سے مسجد میں تبدیل کرنے کا فیصلہ دیا تو ترکی کے صدر طیب اردوان نے فوری طور پر اس کو مسجد میں تبدیل کر دیا اور خود بھی وہاں جا کر جمعہ کی نماز ادا کی۔ حالانکہ یورپ اور امریکہ نے یہ سب روکنے کی پوری کوشش کی۔

جب کہ ہم اپنی شہ رگ کشمیر کو دشمن کے پنجے سے نہیں چھڑا پائے جہاں اقوام متحدہ نے قراردادیں منظور کئی ہوئی ہیں کہ کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق حاصل ہے۔ ہم کب تک اپنے آپ کو دھوکے میں رکھیں گے۔ انڈیا نے اب تو کشمیریوں کو دی گئی آئینی خود مختاری بھی ختم کر دی ہے لداخ کو علیحدہ کر دیا گیا ہے اور ہم زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ نہیں کر پائے۔ ہم تو اسلامی ملکوں کو بھی اپنا ہم خیال نہیں بنا پائے۔

ترکی اور ملائیشیا کے علاوہ کسی اسلامی ملک نے کشمیر پر ہماری حمایت نہیں کی اور او آئی سی کی سربراہ کانفرنس میں ہمارے احتجاج کے باوجود انڈیا کو مبصر کے طور پر مدعو کیا گیا۔ یہ درست ہے کہ ہندوستان آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے ہم سے کئی گنا بڑا ہے تاہم اسرائیل کی مثال سامنے رکھیں تو ایک ننھے سے ملک نے پوری عرب دنیا کو شکست فاش دے کر مصر شام اردن کے علاقوں پر قبضہ جما رکھا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اصل طاقت آپ کے مقصد کی پختگی ہے اس طرح اگر آپ اقتصادی طور پر مضبوط ہیں اور متحد ہیں تو آپ اپنے سے بڑے دشمن کو بھی شکست دے سکتے ہیں۔ یہی سبق ہمیں ملتا ہے جب ہم اسلامی تاریخ کے شاندار دور کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اسی طرح دنیا کے جدید ترین علوم کا حصول اور سائنس اور ٹیکنالوجی میں برتری ہی ہماری کامیابی کی ضامن ہے

جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ ملکی تعمیر و ترقی سے لاتعلق نظر آتے ہیں ایسا نظام چلا آ رہا ہے جہاں عام پاکستانی کے پاس کوئی حقوق نہیں ہیں۔ آخر وہ اس نظام کو بچانے میں کیوں اور کیا دلچسپی رکھتے ہیں جو انہیں بجلی گیس دینے سے معذور ہو، ہسپتال میں دوائی نہ ہو، تھانے میں رسائی نہ ہو، عدالت میں انصاف نہ ہو اور جسم و جاں کا تعلق قائم رکھنے کے لئے روزگار نہ ہو۔ ہمارے حکمران یہ باریک راز سمجھنے سے قاصر ہیں کہ معیشت کے ساتھ ساتھ سماج کی ہر قدر کیوں زوال کا شکار ہے۔

معاشرے سے زندگی کے آثار ایک ایک کر کے ختم ہو رہے ہیں عام لوگ حیرت زدہ ہیں کہ ہمارے معاشرے سے کھیلوں کا ذوق ناپید اور میدان ویران کیوں ہو گئے، سینما گھر خالی کیوں پڑے ہیں اور فنون لطیفہ ادب، موسیقی، سائنس، ٹیکنالوجی بنجر کیوں ہو گئے تاریخ کے ایک طویل سفر کے بعد ہم اس منزل تک کیسے پہنچے؟ پاکستانی معاشرے کے اس انتشار، ٹوٹ پھوٹ اور زوال کے اسباب و وجوہات کیا ہیں؟

پاکستانی ریاست کے اوپر لوگوں کا جو اعتماد متزلزل ہوا ہے وہ ایک دن کی کہانی نہیں ہے تہتر سال سے لوگوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا کر رکھا گیا ہے۔ لوگ مایوس اور شکستہ ہیں یقیناً ریاست نے اپنی ذمہ داری سے کوتاہی برتی ہے۔ بار بار لوگ دھوکے کھا کر پست ہمت مایوس بدعنوان اور خوشامدی ہو چکے ہیں۔ اب اعلی اخلاقی قدروں کا زوال ہر جگہ ظاہر ہوتا ہے۔ الیکشن لڑنا صرف پیسے والے کا کام رہ گیا ہے لوگ یہ نہیں دیکھتے پیسہ کیسے بنایا گیا ہے۔ بس بڑی گاڑی، بڑے گھر اور مسلح گارڈز آپ کے ساتھ ہیں تو معاشرہ آپ کو بڑا آدمی تسلیم کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں دکھائے گا۔ سوشل میڈیا میں کسی بڑے عہدے یا بڑی حیثیت والے بندے کے ساتھ سیلفی لگانا ایک بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ اور یہی خوشامدی رویہ ہمارے پورے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔

ایک سچا واقعہ جو ہمارے منافقانہ و سطحی کردار کو سامنے لاتا ہے پیش ہے۔ کہتے ہیں ایک مشہور سیاستدان ایک اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر میں اس کے بالکل سامنے میز کی دوسری طرف اس طرح جا کر بیٹھا کہ ایک اور بیٹھے ہوئے آدمی کی طرف اس کی پشت ہو رہی تھی۔ اب اسسٹنٹ کمشنر نے اس آدمی کا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ میرا آج تبادلہ ہو گیا ہے اور یہ فلاں صاحب آپ کی تحصیل کے نئے اسسٹنٹ کمشنر ہیں۔ کہتے ہیں اس مشہور سیاستدان نے یہ سنتے ہی کرسی موڑ کر اپنا رخ اس نئے آنے والے اسسٹنٹ کمشنر کی طرف کر لیا اور اپنی پیٹھ اس افسر کی طرف کر لی جس کا اس کے علاقے سے تبادلہ ہو گیا تھا۔

موبائل کے دور میں جھوٹ بولنا بھی ایک ضرورت اور قابل قبول بات بن چکا ہے۔ آپ لاہور میں موجود ہیں تو ایک میسج کر کے رپلائی کر دیتے کہ میں آج اسلام آباد ہوں۔ معاشرے نے بڑے ادیب، فلاسفر اور شاعر پیدا کرنے بند کر دیے ہیں معاشرہ بانجھ بنتا جا رہا ہے۔ اس وقت ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ جائز ناجائز کسی طریقے سے دولت کمائی جا سکے۔ اچھے اچھے گھرانوں کی لڑکیاں ٹک ٹاک پر بیٹھ کر پیسے کمانے کی دوڑ میں اپنی قابل اعتراض ویڈیوز تک لیک کروا بیٹھی ہیں یا ان کی ویڈیوز کو ایڈٹ کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت دیوار پر لکھا صاف نظر آ رہا ہے کہ اخلاقی قدروں کا زوال انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ یہ بنیادی طور پر ریاست کی بھی ناکامی ہے اور مجموعی طور پر ہمارے معاشرے کی ناکامی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments