آؤ ہم کافر کافر کھیلیں
آؤ ہم کافر کافر کھیلیں، آؤ ہم فرقہ فرقہ کھیلیں، آؤ ہم خواب خواب کھیلیں، آؤ ہم گستاخ گستاخ کھیلیں۔ بقول انشاء جی کہ اسلام کا دائرہ پہلے وسیع تھا اب تنگ ہوتا جا رہا ہے، پہلے اس میں لوگوں کو شامل کیا جاتا تھا اب صرف نکالا جا رہا ہے۔ آئے روز کوئی نا کوئی جنونی اٹھ کر ناموس رسالت کا سہارا لے کر کسی نا کسی کو قتل کر دیتا ہے۔ خبر ہے کہ پشاور میں جھوٹی نبوت کا دعوی کرنے والے مجرم کو قتل کر دیا گیا۔ کوئی اس جھوٹی نبوت کا دعوی کرنے والے کو ذہنی مریض کہہ رہا ہے تو کہیں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر وہ ذہنی مریض تھا تو اس نے وزیراعظم ہونے کا دعوی کیوں نہ کیا۔
اور اگر دعوی کرتا تو شاید بنا بھی دیا جاتا۔ ہمارا المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں ذہنی و جسمانی طور پر مفلوج سربراہ مملکت بھی رہ چکے ہیں۔ بہرحال بات اس واقعہ کی کی جائے تو مقتول کی ذہنی حالت درست تھی یا نہیں لیکن قاتل کی ذہنی حالت کے بارے میں شک وشبہ ضرور ہے کہ کوئی بھی ذی شعور انسان اتنا بڑا دعوی نہیں کر سکتا۔
اسی طرح ہمارے ایک عزیز اپنی آنکھوں دیکھا واقعہ سناتے ہیں کہ کس طرح ان کے شہر میں برف کے کارخانے میں ملازم کا پیسوں کے معاملے پر مالک سے جھگڑا ہوا تو مالک نے کارخانے سے باہر آ کر ملازم پہ توہین رسالت کا الزام لگا دیا اور مشتعل ہجوم نے ملازم کو باہر نکلتے ہی ناپ لیا اور اسے اینٹیں مار مار کر قتل کر دیا۔
اسی طرح پشاور واقع بھی اپنے پیچھے بہت سارے سوالات چھوڑ گیا ہے، قاتل کو کمرہ عدالت میں پستول لے جانے کی اجازت کس طرح دی گئی؟ کیا وہاں سیکورٹی کا کوئی انتظام نہ تھا؟ اس سے پہلے بھی پشاور میں عدالت پر حملے میں بہت سارے وکلاء جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے، اس وقت تو چند روز سیکیورٹی اور چیکنگ کے نام پر بڑا شور شرابا کیا گیا لیکن اس کے بعد یہ واقعہ ہو جانا بھی پولیس کی سیکیورٹی پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
پشاور واقعہ میں مذہبی شدت پسندی سے کہیں زیادہ وہ عدالتی نظام ہے جو سالہا سال سے کیس کو لٹکا رہا تھا اور اس کا کوئی فیصلہ نہ سنایا گیا۔ تو ایسی صورت میں کسی نا کسی کے جذبات کا ابل کر باہر آجانا یقینی صورت حال تھی۔ وہ واقعہ جب مقتول کی نبوت کے جھوٹے دعوے کی ویڈیوز سامنے آ چکی ہیں، اس کے علاوہ اس واقعے پر معافی اور ملزم اہنے ذہنی مریض ہونے کا اقرار بھی کر چکا ہے تو سوال یہ بنتا ہے کہ عدالت نے اس کی نفسیاتی حالت کو بہتر بنانے کے لئے کیا اقدامات کیے ؟
عدالت نے اس کیس کا فیصلہ جلد کیوں نا کیا؟ کیس کو اتنی دیر کیوں لٹکایا گیا؟ اب جب عدالتیں فیصلہ سنانے میں دیر لگائیں تو لوگوں کے پاس اپنا فیصلہ خود کرنے کا ہی ایک آسان حل بچتا ہے۔ اور رہی بات نفسیاتی مریض ہونے کی تو قاتل بھی کوئی ذی شعور انسان نہیں۔ وہ بھی ایک نیم پاگل اور مذہبی جنونی شخص ہے۔ جس طرح مقتول کو ذہنی مریض ہونے کا فائدہ دیا جا رہا تھا کیا اب قاتل کو بھی نفسیاتی مریض ہونے کا فائدہ دیا جائے گا؟
یاد رکھئے، مہذب معاشروں میں قانون ہاتھ میں نہیں لیا جاتا اور یہ بھی یاد رکھئے کہ مہذب معاشروں میں عدالتیں فوری اور سستا انصاف مہیا کرتی ہیں، لیکن جہاں عدالتیں کیس کو لٹکائیں، جہاں زمین اور قتل کے مقدمے نسلوں تک بھگتنا پڑتے ہوں، جہاں کسی کو عدالت سے انصاف کی امید نہ ہو، وہاں لوگ قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ یہی ممتاز قادری اور سلمان تاثیر کے کیس میں ہوا۔ سلمان تاثیر کے خلاف اگر کوئی عدالت جاتا تو کس کو یقین تھا کہ وہ عدالت سے کوئی فیصلہ حاصل کر پائے گا؟
کوئی بھی عدالتی فیصلہ حاصل کرنے سے پہلے کس کو یقین تھا کہ وہ گورنر کے خلاف کیس کر کے زندہ رہ پائے گا؟ زندہ رہنا تو دور کی بات شاید کوئی کیس کرنے کی ہمت ہی نا کر پاتا۔ اور جہاں لوگ عدالتوں سے ڈرتے ہوں، جہاں لوگ پولیس کو اپنا محافظ سمجھنے کی بجائے چور ڈاکو سمجھتے ہوں اور جہاں عدالتیں انصاف سے کام نہ لیتی ہوں، جہاں کیس کا فیصلہ سننے کے لیے عمر نوح درکار ہو؛ وہاں قانون کا ہاتھ میں لیا جانا معمول کی بات بن جایا کرتی ہے۔
بات شروع ہوئی تھی کھیلنے سے تو کافر کافر، فرقہ فرقہ، گستاخ گستاخ کھیلنے کے علاوہ ہم غداد غدار، کرپٹ کرپٹ اور دیگر بھی بہت ساری کھیلیں کھیلتے ہیں۔ ہم دلیل کا جواب اور گولی سے دیتے اور حب الوطنی کے سرٹیفیکٹ بانٹتے پھرتے ہیں، جہاں کسی نے ہم یا ہمارے نظرئیے سے ذرا سا اختلاف کیا، ہم مرے مارنے پر تل آتے اور اسے غدار، کافر، گستاخ کہنے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔
دنیا میں شاید سب سے زیادہ اخلاقی جرائم بھی ہم میں پائے جاتے ہیں اور سب سے زیادہ ایک دوسرے پر الزام لگانے والی قوم بھی شاید ہم ہی ہیں۔ بقول واصف علی واصف کہ بڑی منزل کے مسافر چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑا کرتے۔ مہذب دنیا کا یہی دستور ہے، وہاں کسی پر بلاوجہ توہین مذہب کے الزام نہیں لگائے جاتے، وہاں عدالتیں سستا اور فوری انصاف فراہم کرتی ہیں، وہاں عدالتیں اپنے لاکھوں کروڑوں مقدمات نپٹانے کی بجائے یوٹیوب جیسی ٹیکنالوجی بند کرنے کا نہیں سوچتیں، بلکہ وہاں ایک منزل حاصل کرنے کے بعد اگلی نظر ستاروں پر رکھی جاتی ہیں۔ مگر چھوڑئیے صاحب، ہمیں کیا، ہم کوئی مہذب تھوڑی ہیں۔ ہم تو جاہل، اجڈ، گنوار اور گئے گزرے چھوٹی سوچ کے حامل بونے لوگ۔ ہمیں دنیا سے کیا لینا دینا، آؤ ہم کافر کافر کھیلیں، آؤ ہم فرقہ فرقہ کھیلیں، آؤ ہم گستاخ گستاخ کھیلیں اور آؤ ہم دوسروں کو اسلام کے دائرے سے نکالیں۔
- زندگی تماشہ: مذہبی انتہا پسندوں کا مکروہ چہرہ سامنے لاتی فلم - 14/08/2023
- اب کیا ہو گا؟ - 12/04/2022
- ظفر علی خان، ایک عہد ساز شخصیت - 26/11/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).