کیا ہماری عقل زیر حراست ہے


سوشل میڈیا بہت متنوع واسطہ ہے، عوامی پلیٹ فارم ہونے کے باعث روزانہ ہی عوام کا ایک نیا نقطہ نظر سامنے آتا ہے، جو کبھی دلچسپ ہوتا ہے کبھی حیران کن، کبھی احمقانہ اور کبھی کبھی غضب ناک بھی۔

کسی خاص سماجی و سیاسی واقعے پر پاکستان میں مقیم اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا رد عمل مختلف ہوتا ہے، کبھی کبھی یہ ردعمل تصادم کی صورت بھی اختیار کر لیتا ہے اور کبھی فکاہیہ۔

پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد بیرون ملک مقیم ہے، خدا نخواستہ نہ ہی میں بیرون ملک پاکستانیوں کی حب الوطنی پر کوئی شک رکھتی ہوں نہ ہی جذبہ ایمانی کے متعلق کوئی شبہ ہے، میرے خاندان کے بزرگوں کو دوسرے ملک کی شہریت ان کی قابلیت کی بدولت ملی ہوئی ہے، بزرگوں کے طفیل ہم کو بھی یہ سہولت نصیب ہے۔ لیکن میں چند دن گزار کر واپس اپنے دیس آجاتی ہوں، کیونکہ مجھے اپنے ملک میں رہنا پسند ہے، مجھے شناخت کا نشہ ہے اور ہماری شناخت ہمارا وطن ہے۔

پچھلے چار سال سے سوشل میڈیا کے طفیل بیرون ملک مقیم احباب کی پوسٹس اور مختلف گروپس میں ان کے خیالات و نظریات پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں۔ بیرون ملک مقیم افراد کی اکثر پوسٹس قرآنی آیات، درس قرآن و احادیث سے مزین اور جذبہ حب الوطنی سے سرشار ہوتی ہیں جس پر کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن کبھی کبھی یہ پوسٹس اتنی طفلانہ ہوتی ہیں کہ معصوم ہم وطنوں پر پیار آتا ہے۔

کچھ دن پہلے ایک ایسی ہی پوسٹ پڑھنے کو ملی بلکہ اکثر ملتی ہیں لیکن اس پوسٹ کا انداز بیان کافی مزے دار اور معصومانہ تھا، اس لیے دلچسپی سے پڑھتی گئی، صاحبہ پوسٹ بیرون ملک مقیم ہیں، اور چار عدد بچوں کی والدہ ہیں، ان کے گھر ان کے بچوں کے دوست اور سہیلیاں آتی ہیں جو کہ ظاہر ہے غیر مسلم ہیں اور ان کے گھر آ کر وہ لوگ بہت تجسس اور حیرت سے والدہ اور بچوں کا نماز پڑھنا دیکھتے ہیں، اور اشتیاق سے سوالات کرتے ہیں۔

صاحبہ پوسٹ کے مطابق وہ ان بچوں کے لئے دعائیں مانگتی ہیں کہ وہ مسلمان ہو جائیں، بلکہ مستقبل قریب میں ان کو اسلام کی دعوت دینے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں ماشا اللہ سے۔

پوسٹ پڑھتے پڑھتے میرے ذہن میں خیال آیا کہ جس شہر میں صاحبہ پوسٹ مقیم ہیں، وہاں موجود چرچ کے پادری نے یا ان کے بچوں کے دوستوں کے والدین نے ان کے بچوں کو عیسائیت کی تبلیغ شروع کر دی تو کیا یہ ان کے لئے قابل قبول ہو گا کیونکہ عیسائی بھی تبلیغ پر یقین رکھتے ہیں، تاریخ شاہد ہے جہاں بھی گئے، ایک گروہ عیسائیت کا ترتیب دے کر ہی آئے۔

پچھلے ایک سال سے مملکت خداداد میں کچھ ایسے حادثات رونما ہوئے ہیں جن پر بیرون ملک مقیم احباب کا بہت ناپختہ رد عمل دیکھنے میں آیا ہے، خاص طور پر سیاسی حالات، لاقانونیت اور دہشت گردی کے واقعات میں۔

بہت حیرت ہوتی ہے جب ایسے ممالک میں رہنے والے افراد جہاں قانون کی اور انسانی حقوق کی اہمیت اول درجے پر ہے ہمارے بیرون ملک بہن بھائی بہت شدید رد عمل دیتے ہیں، جہاں رہتے ہیں وہاں کے قوانین پر عمل کرتے ہیں، ان ریاستوں کے نظام کی تعریف کرتے ہیں لیکن جہاں وطن عزیز میں رہائش پذیر پاکستانی ریاست کی کسی نا مناسب پالیسی پر ایک ذمہ دارانہ تنقید کریں فوراً غداری یا لادینیت کے طعنے دینے شروع ہو جاتے ہیں خاص طور پر یہ طعنے لاپتہ افراد، ماورائے عدالت قتل اور زیر حراست قتل پر دیے جاتے ہیں۔

بیرون ملک مقیم بہن بھائیوں کو اچھی طرح معلوم۔ ہونا چاہیے کہ کسی بھی ملک کی ریاست اور عدلیہ ہی انصاف کا نظام قائم رکھتی ہے اور مہذب دنیا میں یہ نظام مستحکم بنیادوں پر جاری و ساری ہے، جو ایک دفعہ ان ممالک کا شہری بن جائے، اس کو ریاست کی جانب سے بنیادی انسانی حقوق فراہم کیے جاتے ہیں، کسی بھی قانونی معاملے میں انصاف کے پہلو کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔

وطن عزیز میں رہائش پذیر پاکستانی بھی اپنی ریاست سے عدل و انصاف اور مساوات کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اگر ہم کراچی سے خیبر ماورائے عدالت قتل کو قتل نہیں مانیں گے، مجرم چاہے قانونی نافذ کرنے والے ادارے کا رکن ہو یا عام آدمی ہو تو ہم کو تیار رہنا ہو گا اس ملک میں مزید سانحات کے لئے جہاں اللہ اکبر کہہ کر کوئی بھی پھٹ سکتا ہے، کوئی بھی کسی کو قتل کر سکتا ہے، مسجد میں، اسکول میں یا پھر کسی بازار میں، جیسے کہ گزشتہ پچھلے سالوں میں ہوا ہے۔ اتنی دعاؤں کے بعد سکون ہوا ہے تو عدلیہ انصاف کرنے میں تاخیر کر کے عوام کو قانون اپنے ہاتھوں میں لینے پر مجبور کر رہی ہے۔

ملک میں مقیم پاکستانی غیر محفوظ ہیں اپنے ہی فرسودہ قانونی و عدالتی نظام کے ہاتھوں، اسی لئے وہ پریشان ہیں اور اس کا اظہار وہ سوشل میڈیا پر وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں لیکن اگر بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی ماورائے عدالت قتل کی حمایت کریں گے تو سوچ لیجیے جن ممالک میں آپ بیٹھ کر مزے سے لمبی لمبی درس قرآن پر مبنی پوسٹس کرتے ہیں، وہاں کے لوگ کرسچنز ہیں اور کرسچنز بادشاہوں کے بارے آپ کو پتہ ہی ہے، جنہوں نے یورپ کے تاریک عہد میں مسلمانوں سے بھی صلیبی جنگیں لڑیں اور یہودیوں کا سفاک طریقے سے ہولو کاسٹ کیا۔ تہذیب کا لبادہ اتار کر اگر کرسچنز نے بھی اپنے دین کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا تو کیا ہو گا۔

اس لیے بیرون ملک بیٹھ کر کسی بھی قاتل کی حمایت میں پوسٹ نہ لکھیں، کسی بھی غیر قانونی فعل پر شاباش نہ دیں، ہو سکتا ہے کوئی کرسچن شدت پسند پوسٹ پڑھے اور نہ صرف آپ مشکل میں گرفتار ہو جائیں بلکہ اپنے ساتھ ساتھ دوسرے ہم وطنو کو بھی مشکل میں ڈال دیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ ہم غیر مسلم کے انصاف کی تعریف کرتے ہیں اور خود نا انصاف رہنا چاہتے ہیں۔
اچھے مسلمان و انسان جذبات کے بجائے عقل سے کام لیتے ہیں کیونکہ ہماری دینی کتاب کا خلاصہ ہی ”عقل“ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments