بھارت کی چین سے سے ڈی کپلنگ کی مہم


جب کورونا پھوٹا اور مختصر عرصے کے بعد عالمی وبا کی شکل اختیار کر گیا تو میرا ذاتی احساس یہ تھا کہ یہ وائرس پوری دنیا کو متحد کرے گا۔ کیونکہ مختلف قوموں کو جب ایک ہی قسم کی مصیبت یا چیلنج کا سامنا ہوتا ہے تو وہ آپس کی رنجشیں اور اختلافات بھلا کر اس چیلنج کے خلاف متحد ہو جاتیں ہیں۔ تاہم میرا یہ احساس خام ثابت ہوا۔ دنیا زیادہ تر پرانے ڈگر پر ہی چل رہی ہے۔ کووڈ۔ 19 کی تباہ کاریوں کے باوجود بعض ممالک اپنے روایتی سیاسی انداز میں معاملات آگے بڑھا رہے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ نے ملک کے اندر کورونا کو قابو کرنے کی بجائے اپنی توجہ چین پر مرکوز کیے رکھی ہے اور نہ صرف خود چین کے مختلف اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے بلکہ دیگر ممالک کو بھی چین کے خلاف اکسانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ چین اور امریکہ کے درمیان اختلافات اپنی جگہ کون صحیح کون غلط یہ بحث ایک طرف ؛ موجودہ وقت میں جب کورونا نے دنیا کی معیشت اور سماجی زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے ایسے میں بہتر ہوتا امریکہ جیسے بڑے ملک کا صدر اتفاق و اتحاد کی بات کرتا وبا کے خلاف مل کر لڑنے کی بات کرتا اور عالمی ادارہ صحت کو مضبوط کرنے کی بات کرتا۔ افسوس کہ تاریخ کے اس اہم موڑ پر امریکی صدر کے کردار اور رویے نے مایوس کیا ہے۔

دوسری طرف بھارت چین کے ساتھ اپنی رقابت نبھانے کے لئے بہانہ ڈھونڈ رہا تھا۔ امریکی شہ پہلے ہی اسے حاصل تھی گلوان وادی میں چین کے ساتھ سرحدی تصادم نے گویا بھارت کو کھل کر موقع فراہم کر دیا کہ چین کے خلاف اپنے برسوں کا غصہ نکالیں۔ جون کے وسط سے جب سے چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تصادم ہوا ہے، دونوں اطراف کے حکام اور افواج سفارتی چینلز اور سرحد سے متعلق معاملات کو حل کرنے کے طریقہ کار کے ذریعے تناؤ کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

چین کی وزارت خارجہ نے حال ہی میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ چینی اور ہندوستانی سرحدی فوجیں زیادہ تر محاذوں پر پیچھے ہٹ گئی ہیں۔ تاہم، ایسا لگتا ہے بھارت چین سے ”ڈی کپلنگ“ کی اپنی حکمت عملی پر اڑا ہوا ہے۔ ہندوستان کے اخبار اکنامک ٹائمز نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ بھارت نے 275 چینی ایپس کی ایک فہرست تیار کی ہے جن کی وہ اپنی قومی سلامتی یا صارف کی رازداری کے قوانین کی خلاف ورزی کے لئے جانچ پڑتال کرے گا۔

یہ خبر بھارت کی چین مخالف اقدامات کی ایک اور کڑی ہے، اس سے پہلے بھارت غیر ملکی کمپنیوں کو سرکاری خریداری کی بولی میں حصہ لینے سے روک چکا ہے۔ اگر نئی دہلی اسی طرح چین مخالف جذباتیت پر اسرار کا انتخاب کرتی ہے تو امکان یہی ہے کہ وہ دوسرے اقدامات کے علاوہ انتظامی اور عدالتی اقدامات کے ذریعے بھارت کے اندر کام کرنے والی چینی کمپنیوں اور کاروبار کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کرے گا۔

کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد سے ہی ”ڈی کپلنگ“ کی اصطلاح ماس میڈیا میں گونج رہی ہے۔ اور امریکہ بڑی بے رحمی سے اس رجحان کی قیادت کر رہا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی معیشت کی حیثیت سے، ٹیکنالوجی اور سرمائے کی برتری کے علاوہ بعض ہائی ٹیک شعبوں میں امریکہ کو بالادستی حاصل ہے۔ امریکہ اگر ڈی کپل کا کہتا ہے تو بات پھر بھی سمجھ آتی ہے۔ تاہم اس کے برعکس بھارت کی چین سے ”ڈی کپل“ کرنے کی مہم ناقابل فہم ہے کہ وہ ایسا کس بنیاد پر کر رہا ہے۔

اس وقت بھارت کی حیثیت عالمی سپلائی چین میں کافی پیچھے ہے۔ مختلف اشیا کی رسد و ترسیل کے لئے چینی سپلائزز پر بھارت کا انحصار بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ اس وقت بھارت کو اپنے ملک کے اندر بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ اس لیے بھارت کی چین کے ساتھ تجارتی روابط کم کرنے کی سٹریٹیجی اپنے آپ کو شکست دینے کے مترادف ہوگی۔ اس وقت بھارت کو کئی چیلنجز درپیش ہیں : جیسے کمزور ہوتی معیشت، بڑھتی بے روزگاری اور وبا کی وجہ سے کاروبار میں مندی۔ بھارت کی چین سے ڈیکپلنگ دراصل اس ملک کے طویل مدتی ترقیاتی منصوبے کو ٹریک سے اتارنا ہے۔

چین برسوں سے ہندوستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے بالکل اسی طرح ہندوستان جنوبی ایشیاء میں چین کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ 2019 میں دونوں ممالک کے دو طرفہ تجارت کا مجموعی حجم 100 ارب ڈالر رہا۔ ایک ہزار سے زیادہ چینی کمپنیاں ہندوستان میں اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کر رہی ہیں۔ اس وقت ان کی مجموعی سرمایہ کاری 8 ارب ڈالر سے تجاوز کرچکی ہے۔ چین اور ہندوستان کے مابین معاشی اور تجارتی تعاون نے دونوں ممالک کے کاروبار اور صارفین کو ٹھوس فوائد پہنچائے ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران عالمی صنعتی چین انتہائی مربوط ہوچکا ہے۔ اور چین کو بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ جن سمجھا جاتا ہے۔ چین کے ساتھ تعاون کم کرنے سے مودی سرکار کی ”میک ان انڈیا“ مہم کامیاب نہیں ہو سکتی۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی چین کی تیار کردہ سامان کی درآمد سے مقامی کمپنیوں کی پیداواری لاگت میں کمی آئی ہے، پیداوار کی استعداد میں بہتری آئی ہے اور عالمی سطح پر ہندوستانی مصنوعات کی مسابقتی قدر میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت بڑی مقدار میں فارماسیوٹیکل کیمیکلز، آٹو پرزہ جات، اسمارٹ فون پرزہ جات اور الیکٹرانک مصنوعات کے لئے چینی سپلائرز پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے۔ چین کو متعدد معیشتوں کے درمیان تقابلی برتری حاصل ہے۔ چینی مصنوعات نے ہندوستان کے باسیوں کے روزمرہ اخراجات کو کم کر دیا ہے، جہاں فی کس آمدنی چین کا صرف ایک چوتھائی ہے۔

اس وقت کورونا وائرس پوری دنیا میں پھیلتا جا رہا ہے۔ حفظان صحت کے کمزور نظام اور غیر موثر پالسی کی وجہ سے بھارت میں وبا سے متاثرہ کیسز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر صحت عامہ کے بحران پر جلد قابو نہیں پایا گیا تو 2020 میں بھارتی معیشت 5 فیصد سے زیادہ سکڑ سکتی ہے۔ ایسے میں بھارت کے لئے موزوں یہی ہے کہ چین کی مخالفت کرنے اور چینی سرمایہ کاری کو ختم کرنے کے لئے مسلمہ معاشی اصولوں کے خلاف جانے کی بجائے فوری طور پر مزید غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرے، پیداوار میں اضافہ کرے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ حقائق یہی بتاتے ہیں کہ بھارت کی چین مخالف معاشی پالیسی عوام مخالف پالیسی ثابت ہوگی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments