ہمارا پوسٹ، پوسٹ، پوسٹ ادبی مستقبل


سنا ہے پرانے زمانے میں شہزادہ، شہزادی کی کہانیاں عموماً happy۔ ending والی ہوا کرتی تھیں۔ اس کے بعد جب ادب میں جدیدیت یعنی ماڈرنزم کی پیدائش ہوئی تو اس نے چند اہم معاشرتی پہلوؤں سے پردہ اٹھایا، بعد ازاں مابعدجدیدیت یا پوسٹ ماڈرنزم میں قدم رکھتے ہوئے آدمی یہ دعویٰ کرتے ہوئے نظر آتا ہے کہ زندگی کی حقیقت و سچائی کو وہی لوگ بیان کرنا جانتے ہیں اور شاید تمام قیود سے بالاتر بھی وہی ہیں، اور پھر اس نئی یعنی اکیسویں صدی کے آغاز میں قید و بند سے آزادی کے نظریے میں اور نکھار آیا۔ اب ہمارا ادب اس نظریے کو مقدم رکھتا ہے کہ تمام تر معاشی، سیاسی، مذہبی و معاشرتی حدود کو بلا جھجک توڑتے ہوئے آزادانہ قلم چلانا ہمارا حق ہے۔ اور اس آزادی کو پوسٹ، پوسٹ ماڈرنزم (post۔ postmodernism) کا نام تجویز کیا جا رہا ہے۔

عافیت اسی میں تھی کہ یہاں بات رک جاتی مگر آج میں اس سے آگے لکھنا چاہتا ہوں، چلو سمجھنے کی خاطر عارضی طور پر اس کو پوسٹ، پوسٹ، پوسٹ ماڈرنزم (post۔ post۔ postmodernism ) کہہ ڈالتے ہیں۔

یہ زمانہ ہمارے ادب کا مستقبل کہلایا جا سکتا ہے، نام ہی نا مناسب ہے کچھ خیالات بھی سن لیجیے۔

جب زمانہ پوسٹ پوسٹ پوسٹ ماڈرنزم کا آئے گا تو آوے کا آوا ہی بگڑے گا۔ شاید یہ ادب اس دعوے کا متمنی ہو کہ جو بھی قلم سے نکلے وہ حقیقت بن جائے اور حقیقت مان لی جائے چاہے اس کا حقیقت سے دور کا واسطہ بھی نہ ہو۔

مگر یہ نظریہ انتہائی خطرناک ہے چلیں آپ کو ایک فرضی تحریر کا ڈیمو دیتے ہیں۔

”ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سعادت حسن منٹو نے دوران مطالعہ سہ ماہی رسالہ اوراق میں بہادر شاہ ظفر کی غزل کا یہ شعر پڑھا:

”بڑا بد نصیب ہے ظفر دفن کے لئے“

تو ازراہ ہمدردی ظفر کو خط ار سال کیا کہ بادشاہ سلامت افسردہ کیوں ہوتے ہیں، میں چند تحریریں دل لگی کی خاطر لف کر رہا ہوں، پڑھیں اور مسکراہٹ پھیلائیں ”۔

آپ کو شاید اس تحریر میں اتنا عجیب کچھ محسوس نہ ہوا ہو جو بائیسویں صدی کی نمائندگی کرے مگر آپ شاید یہ نہیں جانتے کہ اسی حقیقت پر مبنی ناول کے اندر آگے جاکر یہ واقعہ درج ہے کہ:

”اورنگزیب عالمگیر صاحب ٹائم مشین پر بیٹھ کر ظفر صاحب کے آستانے پر تشریف فرما ہوتے ہیں اور ان کو سدھر جانے کی تلقین فرماتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ مجھے فرنگی تمہاری گردن پر چڑھے دکھائی دے رہے ہیں“ ۔

آپ اب یہ سوچ رہے ہوں گے کہ باقی سب تو ہضم ہو جائے مگر ایسے امکان کا تصور کرنا کہ اتفاقاً اگر ٹائم مشین جیسی بلا ایجاد ہو بھی گئی تو اس کا استعمال مستقبل کے نونہال کریں گے مگر ماضی میں حق ہو جانے والی شخصیت؟ ایسا ناممکن ہے۔

تو جناب یہی نقطہ سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ جس طرز پہ ہم چل نکلے ہیں اگلی صدی میں شاید قلم سے نکلنے والی ہر انہونی ادب شمار کی جانے لگے گی۔

کیوں کہ اس ٹرپل پوسٹ زمانے میں جو قلم سے نکلے وہ حقیقت ہے آپ کون ہوتے ہیں تنقید کرنے والے؟

بلکہ تنقید تو آپ پر ہوا کرے گی، وہ بھی آپ کی نسلیں کریں گی، اس لیے اپنی عزت بچائیں اور دوراندیش بنتے ہوئے سوچ سمجھ کر لکھا کریں۔

اسی پر اکتفا کرتا ہوں ورنہ موجودہ ادباء کی توپوں کا رخ راقم کی جانب ہو جائے گا۔

اور ہاں مستقبل کی تمام خرابیاں اپنی جگہ، اگر کسی طور موجودہ زوال پذیر ادب کو رضائے الہی ہونے سے بچا لیا گیا تو یہ بھی ایک بڑی کامیابی شمار کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments