روحانی دنیا اور عملی یا حقیقی دنیا


اس بحث کی تصدیق کے لیے دور جانے یا فوت ہونے اور پھر فوت ہونے کے بعد دنیا میں واپس، ابلاغ ڈھونڈنے کی مطلق ضرورت نہیں ہمیں دنیا میں ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کی زندگیوں میں پاے جانے والے (اگر کوئی ہو تو ) فرق کو پہلے تلاش اور پھر اس کا موازنہ کرنا پڑے گا، اور اس بات کا غیر متعصبانہ اور بے لاگ مشاہدہ اور تجزیہ کرنا پڑے گا کہ زیادہ خوش، خوشحال، کامیاب اور خود انحصار (دنیاوی اور زندگی کی حد تک ) کون ہے؟

رہی بات فلسفیانہ تاویلات کی تو کسی جانور کو دیکھ کر انڈے کا تصور کر لینا غلط ہو گا کیونکہ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ جانور بچے دیتا ہو، یا اس کی افزائش نسل کا کوئی اور طریقہ کار ہو جیسے بعض یک خلوی جانداروں، بیکٹیریا اور وائرسز میں ہوتا ہے لہذا صرف قیاس کو کسی تجربے کی بنیاد اور عمل، تصور کر لینا درست نہ ہو گا۔ اسی طرح آپ نے روح کے دائمی قرار کو تصور، قیاس اور اینٹی تھیوری سے ثابت کرنے کی جو کوشش فرمائی ہے، مجھے اس سے اتفاق نہیں میری نظر میں اس تمام فنامنا کو ایک نئے اور مختلف نقطہ نظر سے دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔

بنیادی طور پر روح، زندگی کی ایک خاصیت ہے، جس کا وجود ہمیں دیگر غیر شعوری، یعنی حیوانی مخلوق میں بھی نظر آتا ہے، اب اپنے نام نہاد خود ساختہ احساس برتری جسے مذاہب نے مزید تقویت دی ہے، کی بناء پر ہم نے خود کو سب سے برتر تصور کر لیا ہے جبکہ عملی طور پر ہمارے مقابلے میں ایک وائرس کا اپنے وجود کو طویل ترین عرصہ تک بطور ایک نسل یا قسم برقرار رکھنا اور انتہائی تیز رفتاری سے اپنے اندر اپنی ضرورت کے مطابق ارتقائی تبدیلی پیدا کر لینا، انتہائی تیزی سے اپنی نسل میں بغیر جنس کے اضافہ کر لینا، ہم انسانوں جیسی باشعور اور بزعم خویش اعلی مخلوق کے بس کی بھی بات نہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ طویل وقت پر محیط عمل ارتقاء کا مشاہدہ اور تجزیہ کرتے ہوئے ہم انسان کے بتدریج شعوری ارتقاء کو نظر انداز کرتے ہوئے اس کو اس کی اعلی ترین منزل پر تصور کر لیتے ہیں جبکہ ہمارا ظالمانہ اور استحصالی کردار اس بات کا ثبوت ہے کہ ابھی ہم منزل یعنی مکمل درجہ انسانیت سے دور ہیں نسان اتنا پر اعتماد تو ہو ہی چکا ہے کہ وہ ہر گناہ، ظلم، زیادتی اور استحصال پورے اعتماد کے ساتھ کر رہا ہے یہ لرزتا وجود صرف بس یقین پر یقین لے آنے والوں میں ہی دکھائی دیتا ہے کیونکہ ان کی نام نہاد روحانیت اور روحانی دنیا بری طرح ایکسپوز ہو کر کسی شعوری مکالمے کے قابل نہیں رہی لہذا بے گانگی، نفرت و کراہت اور کبھی کبھی تشدد کے روئیے اپنا کر اپنے لرزتے وجود کو سہارا دینے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے۔

گو اسی سمت میں شعور کا شعوری سفر جاری ہے، یہاں آ کر ان دیرینہ اور مقدس سمجھے جانے والے پروٹوکول پر بھی سوال کھڑا ہو جاتا ہے کہ شاید یہ اعلی سمجھے جانے والے پروٹوکول زاد راہ کی حیثیت رکھتے ہوں اور ان کا اصل مقصد ہمیں کسی نہ کسی طرح اس شعور اعلی یعنی شرف انسانیت اور اشرف المخلوقات کے درجے تک لے جانا ہی ہو، جب ہمارے ضمیر کو وہ روشنی اور توانائی، وسیع پیمانے پر حاصل ہو جائے گی، جو دراصل عالم انسانیت کے، ایک نئی منزل تک پہنچنے کے ایک نئے سفر کا آغاز ہو گا، جہاں علم و فن کو بغیر کسی حیل و حجت کے اپنا اصل مقصد یعنی فلاح و بہبود انسانیت اور ترتیب و تحفیظ، نوع حیات و حیوانات اور کرہ ارض اور ماورا کو قابل باشت رکھنے اور بنانے کے لیے عمل میں لایا جائے گا، اور ہم یعنی نوع انسان اپنی شعوری زندگی کے کم از کم بنیادی تقاضوں جن کا انسانیت کے لیے تعین کیا جانا کسی حد تک شروع بھی کر دیا گیا ہے اور مختلف اجتماعی وعدے اور معاہدے چاہے وہ باہمی یا سیاسی تعلقات کے بارے میں ہوں، انسانی اور حیوانی حقوق کے بارے میں، یا اس کرہ ارض کی ماحولیات کے بارے میں اسی سمت میں ایک واضح پیش رفت کی حیثیت رکھتے ہیں۔

یعنی غیر شعوری طور پر انسانیت کا اپنی منزل مراد کے راستے تک پہنچنے کا سفر شروع ہو چکا ہے اور کرہ ارض پر سیاسی، ثقافتی، اور اخلاقی تبدیلیوں کا آغاز واضح طور پر اس ترقی افکار کا ثبوت ہے۔ دنیا میں پچھلے ایک ہزار سال کا ہی تجزیہ کیا جائے تو اس شعوری ارتقاء کے واضح اشاریے دکھائی دیتے ہیں، جابرانہ بادشاہتوں اور آمریتوں کا خاتمہ، قدیم ادارہ غلامی کا خاتمہ، جمہوریت کا ایک نظام کے طور پر باقی نظاموں کے مقابلے میں آگے آ جانا، انسانی حقوق کے بلا تخصیص اثبات، کا اعتراف، علمی و سائنسی ترقی، اور اس سب کے ساتھ ساتھ حریت شعور کے واضح اظہار اور اس کو ایک بنیادی انسانی حق تسلیم کر لیا جانا اور اس کی اخلاقی جوازیت کا اثبات، ہی وہ امید افزاء اقدامات اور نظریات ہیں جو صدیوں کے بعد انسان کو اپنے ماحول کو خود اپنی نظر سے دیکھنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments