پسند کی شادی حرام ہے


ولیئم شیکسپیئر کہتا ہے، “زندگی ایک اسٹیج ہے۔“ انسان کی عمر کا ہر ایک حصہ یعنی بچپن، نوجوانی، جوانی، بڑھاپا یا بزرگی، ایک اسٹیج کی طرح ہوتا ہے، جس میں عمر کا ہر ہر حصہ انسان کی زندگی کی ایک قسط ہوتا ہے۔ انسان زندگی کے اسٹیج کا  اداکار ہے۔ عمر کے ہر ایک حصے کے ساتھ چند خصوصیات مخصوص ہوتی ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ ڈراما یعنی زندگی کون سے موڑ پر ہے۔ مثال کے طور پر انسان کا بچپن بے پروائی، معصومیت اور کھیلنے کودنے کے ساتھ، نوجوانی عشق و عاشقی کے ساتھ، جوانی شادی اور ذمہ داریوں کے بوجھ کے ساتھ مخصوص ہے۔

شکسپیئر نے مجھے ایک بات سمجھائی کہ انسان کے پاس ایک ہی زندگی ہوتی ہے۔ جب انسان زندگی کی ایک قسط میں ہوتا ہے تو دوسری اقساط کے افراد چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے، جب اسے روکتے ٹوکتے ہیں یا بڑھاوا دیتے ہیں، اس امید پہ کہ وہ شخص ان کی مانے، وہ سراسر غلطی پر اور غلط امیدوں پر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ایک نوجوان، نیا نیا عاشقی میں آتا ہے، اور اپنی عمر کے تقاضا کے مطابق وہ کسی حد تک جنونی اور جذباتی کیفیت میں ہوتا ہے تو اسے 35 یا 60 سال کی عمر والا، اگلی قسط کا شخص نصیحت کرتا ہے، یہ غلط ہے، عاشقی حرام ہے، یہ نہیں کرنا، وہ نہیں کرنا۔ پسند کی شادی نہیں کرنا۔ ہمارے تجربات سے سیکھو وغیرہ وغیرہ۔ تو وہ نوجوان کنفیوز تو ہوتا ہی ہے کہ اسے اس عمر میں عاشقی کا کیا پتا۔ ساتھ ہی اس نوجوان کے دل میں نفرت کا تاثر ابھرتا ہے کہ اسے سمجھا نہیں جا رہا۔

بالکل یہی قصہ اس 35 یا 60 سال کی عمر کے شخص کے ساتھ بھی ہو چکا ہوتا ہے۔ یعنی اسے اس کے بزرگوں نے، ان بزرگوں کو ان کے بزرگوں نے، ان کو ان کے ابا و اجداد نے نوجوانی میں عشق و عاشقی سے روکا ہوتا ہے۔ لیکن یہ سلسلہ کبھی رکا نہیں، اور جوں کا توں ہر نسل میں چل رہا ہے۔ عاشقی کو مثال کے طور پر پیش کیا۔ زندگی کے سارے معاملات میں یہی نظام چل رہا ہے۔ طلبا کا ڈگری کے انتخاب، انسان کے پروفیشن سے لے کر حج کی صحیح عمر اور سالار کے انتخاب تک میں یہی نصیحتیں اور مشورے چلتے ہیں۔ انسانی زندگی ایک دائرے میں چل رہی ہے۔ ہر شخص دنیا میں آ کر اپنے تجربات کرتا ہے، سیکھتا ہے اور پھر چاہتا ہے کہ اس کی نسل تجربات نہ کرے، بلکہ ڈائریکٹ اپنے بڑوں کے تجربات سے سیکھ لے۔ حالانکہ ان والدین نے خود اپنی عمر کے حصوں میں والدین کے تجربات کو پس پشت ڈالا ہوتا ہے۔

سائنسی ریسرچ کے مطابق انسانی دماغ کا سب کانشس اس طرح ڈیزائن ہوا ہے کہ یہ اپنے ہم عمر کی باتیں زیادہ مانتا ہے، بہ نسبت ادھیڑ عمر افراد کی باتوں کے۔ اور اپنی زندگی میں عمر کے ہر حصے میں سب کچھ کر کے سیکھتا ہے، نا کہ اپنے والدین کی نصیحتوں یا تجربات سے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments