کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا ایک سال: ’دفعہ 370 آئین سے خارج ہوا مگر دلوں میں بس گیا‘


کشمیر

بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے کشمیری کارکنوں نے 5 اگست سے دس روزہ جشن کا اعلان کیا ہے۔ یہ جشن گزشتہ برس اسی روز کشمیر کی نیم خودمختاری ختم کرنے اور خطے کو دو الگ الگ مرکز کے زیر انتظام علاقے قرار دیے جانے کے تاریخی فیصلے کی یاد میں منایا جائے گا۔

بی جے پی کے لئے یہ فیصلہ بے پناہ سیاسی مفادات کا حامل ہے تاہم حکومت ابھی تک اس فیصلے کو کشمیریوں کے لیے قابل قبول بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے ایک سال گزر جانے کے باوجود انتظامیہ نے پھر ایک بار وادی میں سخت کرفیو نافذ کیا ہے اور ان خفیہ اطلاعات کا حوالہ دیا ہے کہ ’بعض پاکستان نواز عناصر نے اس روز یوم سیاہ منانے اور تخریبی کارروائیاں کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔‘

گذشتہ برس اگست کے اوائل میں جب یہ فیصلہ کیا گیا تو کئی ہفتے قبل اس کے لیے بے شمار سکیورٹی انتظامات کئے گئے تھے: تقریباً دو لاکھ اضافی سیکورٹی اہلکار وادی کے چپے چپے پر تعینات کئے گئے اور دہشت گردوں کے حملوں کی خفیہ اطلاعات کا حوالہ دے کر امرناتھ یاتریوں، سیاحوں اور غیرمقامی مزدوروں کو چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر وادی چھوڑنے کے لئے کہا گیا۔

دوسری جانب سینکڑوں علیحدگی پسند کارکنوں اور اُن کے رہنماؤں کو قید کیا گیا، جماعت اسلامی اور کشمیر لبریشن فرنٹ کو کالعدم قرار دیا گیا اور بڑے پیمانے پر انتظامیہ میں تبادلے عمل میں لائے گئے۔

اور تو اور پانچ اگست سے ایک دن قبل سب ہی ہندنواز کشمیری رہنماؤں کو گھروں یا گیسٹ ہاؤسز میں قید کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

آرٹیکل 370 کا خاتمہ: کیا مسئلہ کشمیر حل ہو چکا ہے؟

آرٹیکل 370 تھا کیا اور اس کے خاتمے سے کیا بدلے گا؟

سرینگر کا نواحی علاقہ صورہ: کشمیری مزاحمت کا نیا مرکز

سرینگر کے علاقے صورہ میں کئی ہفتوں تک مظاہرے ہوئے جنہیں بالآخر دبا دیا گیا۔ کئی دیگر مقامات پر بھی لوگوں نے ناراضگی کا اظہار کرنے کی کوشش کی لیکن سخت ترین کرفیو اور رابطوں پر قدغن نے ان مظاہروں کو پھیلنے نہیں دیا۔

کئی ماہ بعد بندشیں نرم کی گئی، بیشتر ہند نواز رہنماؤں کو رہا کیا گیا تاہم اب بھی تیز رفتار انٹرنیٹ پر پابندی ہے اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی سمیت کئی ہندنواز گھروں میں نظربند ہیں۔ تعلیمی سرگرمیاں گزشتہ خزاں میں شروع ہوئی تھیں کہ سخت ترین سردیوں سے پھر معطل ہوگئیں اور اس سال مارچ میں ابھی سکول اور کالج کلاس ورک بحال نہیں کرپائے تھے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے سب کچھ پھر سے وہیں پہنچ گیا جہاں پچھلے سال اگست میں تھا۔

انڈیا کی حکومت کا اصرار ہے کہ دفعہ 370 کشمیریوں کی ترقی اور خوشحالی میں ایک رُکاوٹ تھی اور اس کے ہٹنے سے پاکستانی حمایت یافتہ علیحدگی پسندی اور ہند مخالف سوچ ختم ہوجائے گی۔ تاہم اس فیصلے کے بعد نہ صرف کشمیر کو تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے بلکہ اب بھی حکومت کہتی ہے کہ فیصلے کی سالگرہ پر پاکستانی حمایت یافتہ لوگ تخریب کاری کریں گے۔

تاجروں کی سب سے پرانی انجمن کشمیر چیمبر آف کامرس کے سربراہ شیخ عاشق کہتے ہیں: ’ایک سال کے اندر کشمیری معیشت کو چالیس ہزار کروڑ روپے کا خسارہ ہوا ہے۔ پانچ لاکھ سے زیادہ ایسے لوگ بے روزگار ہوگئے جو باقاعدہ کام دھندہ کررہے تھے، دیگر بے روزگاروں کو ہم نے شمار نہیں کیا۔ حکومت نے عالمی سرمایہ کاری کا دعویٰ کیا، لیکن یہاں فیکٹریاں بند پڑی ہیں۔ ہم بھی ڈھونڈ رہے ہیں کہ وہ خوشحالی اور ترقی کہاں ہے؟‘

کشمیر

غور طلب بات یہ ہے کہ ایک سال کے اندر سینکڑوں قوانین کو جموں کشمیر میں نافذ کیا گیا اور ان میں سے غیرمقامی لوگوں کو شہریت دینے، فوج کو کہیں بھی تعمیر کرنے کی بے روک ٹوک اجازت اور نوکریوں کے لئے پورے بھارت کے اُمیدواروں کو اہل قرار دیے جانے کی رعایت جیسے فیصلے سے جن سے عام لوگوں کو خدشہ ہے کہ کشمیر کا مسلم اکثریتی کردار تبدیل کیا جارہا ہے۔

اکثر حلقے یہاں حیران ہیں کہ جن تبدیلیوں کا وعدہ کیا گیا تھا اُن کی جگہ خوف و ہراس، غیر یقینی، بےروزگاری اور ایک بار پھر سے کرفیو جیسی صورتحال کیوں ہے؟

نوجوان صحافی اور تجزیہ نگار ریاض ملک کہتے ہیں: ’دفعہ 370 کو ہٹانے کا اعلان اس دعوے کے ساتھ کیا گیا تھا کہ مسئلہ کشمیر حل ہوجائے گا، لیکن اسی ایک سال کے اندر دو سو سے زیادہ مسلح عسکریت پسند مارے گئے، متعدد سیکورٹی اہلکار مارے گئے اور فوج کا کہنا ہے کہ پاکستانی افواج نے ایل او سی پر ریکارڈ مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور اب اس فیصلے کی سالگرہ پر پھر ایک بار کہا جارہا ہے کہ سکیورٹی کو لاحق خطرات کے پیش نظر کرفیو نافذ رہے گا۔ اس میں تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کیا؟‘

سابق وزیر اور معاشی امور کے ماہر اور معروف کالم نگار ڈاکٹر حسیب درابو نے اپنی حالیہ تحریروں میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ: ’دفعہ 370 پہلے ہی کھوکھلا ہوچکا تھا، لیکن پچھلے سال اسے آ ئین کی کتابوں سے نکال کر لوگوں کے دلوں میں دوبارہ بسایا گیا۔ جس علیحدگی پسندی کو ختم کرنے کے لئے یہ سب کچھ کیا گیا اب وہ غالب سوچ بن گئی ہے اور دفعہ 370 محض ایک غیرمتعلق تحریر سے باقاعدہ ایک نظریہ بن گیا ہے۔‘

کشمیر

بی جے پی کے ایک سینئر کارکن نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا: ’ہمیں اپنی فوج پر بھروسہ ہے۔ ظاہر ہے پاکستان اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئے گا، کرفیو وغیرہ سیکورٹی ضرورت ہے، لیکن ہم پارٹی دفاتر پر جشن ضرور منائیں گے۔‘

بی جے پی نے پانچ اگست کو یوم فتح کے طور منانے کا اعلان کیا تھا جبکہ پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس نے اس دن کو یوم سیاہ قرار دیا ہے۔ پچھلے سال کے واقعات کے بعد پی ڈی پی کے بعض رہنماؤں نے ’اپنی پارٹی‘ نام سے الگ گروپ بنا کر وزیراعظم اور وزیرداخلہ کے ساتھ دلی میں ملاقات کی۔

اس جماعت کا کہنا ہے کہ یہ دن ’یوم تجدید عہد‘ کے طور منایا جائے گا۔ وضاحت کرتے ہوئے پارٹی کے ترجمان بشارت سید نے بتایا: ’ہم نے لوگوں سے وعدہ کیا ہے کہ جموں کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دلائیں گے، اور ڈومیسائل قوانین میں ترمیم کروائیں گے، اسی عہد کی تجدید ہوگی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp