استحصال کرنے والوں کے نام!


آج 5 اگست 2020ء جب کہ پاکستان میں سرکاری طور پر ’مقبوضہ کشمیر‘ کے ’مظلوم کشمیریوں‘ کے لیے ’یوم استحصال‘ ہر قسم کے جوش و خروش سے منایا جا رہا ہے۔ چند منٹوں کی خاموشی اختیار کی جارہی ہے۔ شاہراؤں کے نام بدلے جا رہے ہیں۔ ’نئے پاکستان‘ کے نقشے جاری کیے جا رہے ہیں۔ ’دشمن کی نیندیں اڑا دینے والے ان اقدامات‘ کے باوجود مجھے نجانے کیوں ’مظلوم پاکستانیوں‘ کی یاد ستانے لگی ہے۔ ’یادوں کی اس برات‘ کو بے وقت کی راگنی سمجھتے ہوئے درگزر فرمائیے۔ اپنے دکھوں، تکلیفوں اور مصیبتوں کو بھلانے نے کے لیے ’بیگانوں‘ پر آئی مشکلوں اور سختیوں کا ذکر کرنے کا یہ ’طریقۂ علاج‘ وطن عزیز میں سال ہا سال سے بہت کارگر ثابت ہوا ہے۔

اس ’نسخۂ کیمیا‘ کی بدولت غربت، بے روزگاری اور کرپشن کے خلاف ’جہاد‘ کی بجائے ’سارے جہاں‘ میں ’جہاد‘ کر کے کئی فوائد ’سمیٹے‘ جا چکے ہیں۔ یہاں کا عام آدمی اپنے دکھوں کو ’قسمت‘ کا لکھا سمجھ کر خاموش اور دوسروں کے دکھوں کو دیکھ کر ’پرجوش‘ ہو جاتا ہے۔ اب ’خداؤں‘ کے آگے کس کا زور۔ جے سوہنا میرے دکھ وچ راضی، تے میں سکھ نوں چولہے پاواں۔

تاریخ میں شاید ہی کوئی ایسی قوم گزری ہو جس نے اس طرح دیوانہ وار ’یوم استحصال‘ منایا ہو۔ سچ ہے اس قسم کی دیوانگی اور فرزانگی چند قوموں کے نصیب میں ہی آتی ہے۔ ’یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے، یہ بڑے نصیب کی بات ہے‘ ۔ نجانے انسانی نفسیات کی وہ کون سی معراج ہو گی کہ جس میں کسی کے دکھوں اور تکلیفوں کا منایا جاتا ہو گا۔ بہرحال، مسلم تاریخ میں صدیوں سے دکھوں، رنجوں اور غموں کو منانے کی اک پوری روایت موجود ہے۔ ’مظلوموں‘ کے دکھ منا کر ’ظالموں‘ کوٹھکانے لگانے کی ریت بڑی پرانی ہے۔

استحصال، کوئی عالمی طاقت کرے یا کوئی عالمی ادارہ، کوئی علاقائی طاقت کرے، یا کوئی ملک، اپنے ہی کسی علاقے یا قوم کا کرے۔ استحصال، انسانیت کے نام پر ہو یا مذہب کے عنوان پر، قوم کے نام پر ہو یا قومی مفاد کے نام پر ہو، کوئی خوبصورت نعرہ ہو یا دلچسپ ٹرینڈ، دجل و فریب کی ایسی داستانیں ہیں کہ خاموشی ہی بھلی۔

انگریز سے آزادی کے لیے قربانیاں ہمارے آبا و اجداد نے اس لیے دی تھیں کہ وہ ہمارا سیاسی، معاشی اور فکری استحصال کرتا تھا۔ ہمیں ’رعایا‘ کے درجے پر رکھتا تھا۔ یہاں کی پیداواری دولت سے لندن کے کارخانے چلا کرتے تھے۔ یہاں کے لوگ انگریز کے لیے جنگیں لڑا کرتے تھے۔ انگریز حکومت کرنا یہاں پسند کرتا تھا، اور مرنا برطانیہ میں۔

کہنے کو یہ ملک ’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ ہے۔ آئین کے آرٹیکل 2 کے تحت اسلام ریاست کا سرکاری مذہب ہے۔ اور اسلام میں ہر قسم کا استحصال ممنوع ہے۔ لیکن آپ خود فیصلہ کیجیے کہ ’اسلام‘ کے نام پر اس ’ہجوم نما قوم‘ پر کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے گئے۔ ہم نے اپنے خود ساختہ ’اسلام‘ کا وہ مکروہ چہرہ دکھایا کہ دنیا والے ’اصل اسلام‘ کو بھول بیٹھے۔ اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظلم ہوا ہو گا!

آئین پاکستان کے آرٹیکل 3 کے مطابق ریاست پر یہ لازم قرار دیا گیا ہے کہ وہ ملک میں استحصال کی تمام شکلوں کا خاتمہ کرے گی۔ تہتر سالہ ’آزادی‘ میں استحصال کی کن صورتوں کا قلع قمع کیا گیا اورکون کون سے نئے طریقے ایجاد کیے گئے۔ یہ ایک ایسا حساس موضوع ہے، جس پر قلم لکھنے سے قاصر، زبان بولنے سے محروم اور ذہن سوچنے سے عاری ہے۔ لیکن آپ بتائیے، ہمارے پیارے دیس میں کو نسا شعبہ ایسا ہے جہاں کسی کی مجبوری کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جا تا ہو؟ کون سا ایسا طبقہ ہے جو دوسرے طبقے کو دبانے میں مصروف نہیں۔ کیا امیر، کیا غریب، کیا پڑھا لکھا، کیا ان پڑھ، کیا چھوٹا، کیا بڑا۔ جس کا جہاں اور جتنا بس چلتا ہے، لوٹنے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ دوسروں کے وسائل کو اپنے لیے استعمال کرنا کوئی ہم سے سیکھے۔ قرضوں کی رقم سے عیاشی کرتا کوئی ہم کو دیکھے۔

ہماری عدالتوں میں انصاف نیلام ہوتا ہے، لیکں وہاں لکھ ہوتا ہے، ”لوگوں کے درمیان حق کے مطابق فیصلہ کرو۔“

آپ کسی بھی سرکاری دفتر چلے جائیے، آپ کو ہر گریڈ کے ’فرعون‘ سے واسطہ پڑے گا۔ ”رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں“ کی حدیث مبارکہ کے عین نیچے دھڑلے سے رشوت لی اور دی جا رہی ہو گی۔ فائلوں کو پہیے لگانا ہمارا ”قومی کاروبار ’ہے۔

ہمارے تعلیمی ادارے جہالت بیچتے ہیں، مگر وہاں لکھا ہوتا ہے، ”علم حاصل کرو، ماں کی گود سے لے کر گور تک۔“

ہمارے اسپتال موت بانٹتے ہیں، مگر وہاں لکھا ہو گا، ”اور جس نے ایک زندگی بچائی، اس نے گویا سارے انسانوں کو بچایا۔“

آپ بازار چلے جائیے، جھوٹ، خیانت اور ملاوٹ کے اڈے ہیں لیکن وہاں لکھا ہوتا ہے، ”اور جس نے ملاوٹ کی، وہ ہم میں سے نہیں۔“

ہماری سیاسی جماعتیں ’ایمپائر کی انگلی کھڑے ہونے‘ کی بات کرتے ہوئے ذرا نہیں شرماتی۔ ’ووٹ کوعزت دینے کی بات کرنے والے‘ اپنی عزت بچاتے نظر آتے ہیں۔ کچھ شخصیات ہیں جو کبھی نہیں مرتیں۔ تہتر کے آئین کے تناظر میں کیا کیا کھیل نہیں ہوتے۔ اسلام کے نام پر جماعتیں ہیں، لیکن اسلام کہیں نظر نہیں آتا۔ اس سے بڑھ کرلوگوں کا سیاسی استحصال کیا ہو گا کہ خود سیاسی جماعتوں کے اندر بد ترین ’خاندانی آمریت‘ ہونے کے باوجود یہ بات ’جمہوریت‘ کی کرتی ہیں۔ اور تو اور ہماری جان سے بھی پیارے ’مقتدر محکمے‘ دن دیہاڑے ’دشمن کو ووٹ کی طاقت سے شکست دینے کی بات کرتے ہیں۔

لوگ روزی روٹی کو ترس گئے ہیں۔ اپنے بچوں کو لے کر نہروں میں چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ تبدیلی زدہ گھروں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے بے گھر ہو گئے ہیں۔ کروڑوں نوکریوں کے چکر میں بے روزگار ہوئے پھرتے ہیں۔ آٹا، چینی اور پٹرول کے گرد اگرد طواف کرتے کرتے چور چور ہوئے پھرتے ہیں۔ سود اور قرضوں میں جکڑی معیشت کا نام ہم نے ’ریاست مدینہ‘ رکھ چھوڑا ہے۔ خدا کی پناہ!

آپ بتائیے، کہ عام پاکستانی سے بڑھ کر بھی کوئی مظلوم ہو گا؟ کشمیریوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے، پاکستان ان کے لیے جو کچھ کر سکتا ہے، پاکستان کر رہا ہے؟ ہم نے کئی جنگیں لڑیں، آدھا ملک گنوایا، ہر عالمی فورم پہ اس مسئلے کو اجاگر کیا، قومی ریاستوں کے اس دور میں ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں۔ دیر بدیر کشمیری بھی یہ سبق بڑی اچھی طرح سیکھ چکے ہیں یا سیکھ جائیں گے کہ کشمیریوں کا اپنا مقدمہ بہرحال خود ہی لڑنا پڑے گا۔ اپنی آزادی کی جنگ خود ہی جیتنا ہو گی۔

مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ساتھ کوئی ایک دن مظلوم پاکستانیوں کے نام کا منا لینے میں کیا حرج ہے۔ دن منانا دکھوں کا مداوا تو نہیں، لیکن کیا فرق پڑتا ہے۔ اتنے سارے دنوں میں ایک دن اور سہی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments