اب نقشوں میں ہی کشمیر فتح ہو سکتا ہے!


اگر شاہراہوں کے نام بدل کر، نغمے جاری کر کے اور ملک کا نیا نقشہ منظور کرنے سے ہی کشمیر آزاد ہو سکتا ہے تو وزیر اعظم عمران خان اور ان کی حکومت اس مقصد میں پوری طرح کامیاب ہے۔ اور اگر اشتعال دلانے سے بھارت کشمیر کے سوال پر پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے پر آمادہ ہوجائے گا اور مقبوضہ وادی میں استصواب کا مطالبہ مان لے گا تو بھی عمران خان کا یہ دعویٰ درست ہے کہ آج کا دن تاریخی ہے۔

تاہم اگر ان حکومتی اقدامات کو ٹھنڈے دل و دماغ سے حقیقت حال کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کی جائے تو پاکستان نے درحقیقت کشمیر پر اپنا مقدمہ ہارنے کا باقاعدہ اعلان کیا ہے۔ دوسرے لفظوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت میں نریندر مودی کی حکومت نے گزشتہ برس 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی انتظامی حیثیت تبدیل کرتے ہوئے، بھارتی آئین کے تحت اس کی خصوصی حیثیت ختم کی تھی۔ اس طرح پاکستان کے لئے سفارتی اور سیاسی جال تیار کیا تھا۔ آج پاکستان کے اقدام سے واضح ہؤا ہے کہ وہ اس جال میں پوری طرح پھنس چکا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ سے وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ قرار دینے کے لئے لوک سبھا سے مسودہ قانون منظور کروایا تھا لیکن پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دینے کے لئے کابینہ سے نقشہ تبدیل کرنے کی منظوری لی ہے۔ اور اعلان کیا ہے کہ اب یہی نقشہ نصاب میں پڑھایا جائے گا اور پاکستان کا سرکاری نقشہ کہلائے گا۔ عمران خان اسے اپنی حکومت اور پاکستان کی اتنی بڑی کامیابی قرار دے رہے ہیں کہ انہوں نے نہ صرف آج کے دن کو تاریخی قرار دیا ہے بلکہ اس اہم فیصلہ و اعلان پر قوم کو مبارک باد بھی پیش کی ہے۔ شاید عمران خان کو اس بات کا احساس ہی نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی روایتی کشمیر پالیسی سے بھی دست بردار ہونے کا اعلان کررہے ہیں جس کے تحت کشمیر کی تقدیر کا فیصلہ پاکستان نے نہیں کشمیریوں نے کرنا ہے۔

پاکستان نے عملی طور پر نہ سہی اصولی طور پر ہمیشہ یہ مؤقف اختیار کیا ہے کہ کشمیری عوام کو اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ اس لئے انہیں رائے دہی کے ذریعے اپنے خطے کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ پاکستان، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی سات دہائی پرانی جن قراردادوں کا حوالہ دیتا ہے ان میں بھی استصواب ہی کی بات کی گئی ہے۔ اگرچہ ان قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام اس رائے دہی کے ذریعے پاکستان یا بھارت کے ساتھ شامل ہونے کا فیصلہ کرسکیں گے۔ ان قراردادوں میں خود مختار کشمیر کا آپشن موجود نہیں ہے۔ لیکن اس دوران پلوں کے نیچے سے بہت پانی گزر چکا۔ دنیا اور خطے کے ہی نہیں کشمیر میں رہنے والے لوگوں کے حالات اور سوچنے کے طریقے بھی تبدیل ہوچکے ہیں۔ 70 سال قبل موجود نسل ختم ہوچکی یا ان میں سے کچھ بقید حیات لوگ عمر کے اس حصہ میں ہیں جس میں کوئی مؤثر سیاسی کردار ادا نہیں کیا جاسکتا۔ اس دوران چار نسلیں پیدا ہوئیں اور تیسری نسل جوانی کی دہلیز عبور کررہی ہے۔ اسی لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کو فرسودہ کہا جاتا ہے۔

اقوام متحدہ کو کسی اور طرف سے نہیں خود دنیا کی سپر پاور امریکہ کی طرف سے شدید خطرہ لاحق ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں اقوام متحدہ کے عالمی صحت کے بارے میں کام کرنے والے اہم ادارے ڈبلیو ایچ او سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ وہائٹ ہاؤس کی طرف سے اقوام متحدہ کو دیے گئے وسائل کم کرنے کی بات بھی کی جاتی رہی ہے۔ دنیا کا کوئی ملک ایک عالمی وبا کے بیچ ایک اہم ادارے کو کمزور کرنے کی امریکی کوشش کو روکنا تو دور کی بات، اس کی کھل کر مذمت بھی نہیں کرسکا۔ اسی سے اقوام متحدہ کی کمزور حیثیت اور عالمی سفارت کاری میں کمتر کردار کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی طاقتوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے قائم ہؤا تھا۔ اس نے عالمی معاملات میں صرف بڑی طاقتوں کے مفادات کی حفاظت کے لئے ہی کام کیا ہے۔ اسرائیل کے قیام سے لے کر افغانستان اور مشرق وسطیٰ کی جنگوں میں اقوام متحدہ کا کردار اس کی گواہی دیتا ہے۔ علاوہ ازیں سلامتی کونسل میں پانچ ملکوں کو حاصل ویٹو استحقاق کے ہوتے یہ توقع کرنا کہ اس فورم پر کوئی متوازن اور انصاف پر مبنی فیصلہ ممکن ہے، خود کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔

اس پس منظر میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو کشمیر کے مسئلہ کا حل قرار دینے والی پاکستانی حکومتوں کو اس سوال پر بے عملی کا شکار سمجھا جاتا رہا ہے۔ سلامتی کونسل کے فورم پر بھارت کے مقابلے میں پاکستان جیسے چھوٹے اور کمزور ملک کی آواز کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ یہ ضرور ہے کہ چین کے ساتھ پاکستان کے مراسم کی وجہ سے سلامتی کونسل میں کوئی قرارداد براہ راست پاکستان کے خلاف منظور کروانا آسان نہیں ہے۔ صرف اس بنیاد پر پاکستانی حکومت اپنی شرائط پر مسئلہ کشمیر حل کروانے میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ سلامتی کونسل میں کشمیر کے سوال 1948 میں منظور کی گئی قراردادوں پر امتدادزمانہ کے علاوہ، اس ادارے کی کمزور حیثیت کی وجہ سے بھی عمل درآمد نہیں ہوسکا۔

 اس دوران 2001 میں پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم واجپائی کے درمیان آگرہ میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں جن اصولوں پر اتفاق ہونے والا تھا، وہ بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بجائے خطے کی صورت حال کے مطابق متعین کئے جارہے تھے۔ یہ کوشش کامیاب نہیں ہوسکی اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل کرنے کے بارے میں پاکستان کی سرکاری پوزیشن بھی برقرار رہی۔ لیکن سفارتی حلقوں میں اس آپشن پر مفاہمت تلاش کرنے کی بات کی جاتی رہی ہے کہ پاکستان یا بھارت کے ساتھ کشمیر کے الحاق کی بجائے یا تو موجودہ لائن آف کنٹرول کو حتمی بین الاقوامی تسلیم شدہ سرحد مان لیا جائے یا کشمیر کو خود مختار ریاست بنانے کی راہ ہموار کی جائے۔ یہی رائے یا آپشن درحقیقت کشمیری عوام کی خواہشات اور رائے کی عکاسی بھی کرتا ہے تاہم اس کا باقاعدہ اظہار ہونے اور اس کا موقع فراہم کئے جانے تک کوئی حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں۔ پاکستان کے سفارتی حلقے بہت مدت سے اس بات سے آگاہ ہیں کہ اگر کشمیر کے سوال پر کبھی رائے دہی کی نوبت آئی تو کشمیری صرف پاکستان یا بھارت کا ساتھ دینے کے سوال پر رائے نہیں دینا چاہیں گے بلکہ ایک خود مختار ریاست کا آپشن بھی لازمی ایسے کسی معاہدہ کا حصہ ہوگا۔

پاکستان نے ہمیشہ بھارت کو کشمیر پر مذاکرات کی دعوت دی ہے۔ موجودہ حکومت اور عمران خان کا بھی یہی مؤقف رہا ہے کہ یہ معاملہ بات چیت کے ذریعے ہی حل ہوسکتا ہے۔ اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دینے والا نقشہ دراصل مذاکرات کے آپشن سے انکار کا راستہ ہے۔ یعنی نریندر مودی کی حکومت نے گزشتہ چند برس میں مذاکرات سے گریز کا جو رویہ اپنایا ہے اور 5 اگست 2019 کے اقدامات میں جو مؤقف اختیار کیا ہے، اب پاکستان بھی بالواسطہ طور سے اسی کو درست تسلیم کرنے کا سرکاری اعلان کررہا ہے۔ اس معاملہ پر کابینہ کے فیصلہ کو ہی کافی سمجھا گیا ہے۔ منتخب پارلیمنٹ میں بحث کروانے اور قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ پاکستان جس طرح کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھا کر کشمیریوں کے حق خود اختیاری سے انکار کا موجب بنا ہے بعینہ مذاکرات سے فرار اختیار کرتے ہوئے دراصل اس نے بھارت کے اس مؤقف کی تائد کردی ہے کہ ایک خطے کے حوالے سے دونوں ملکوں کی اپنی اپنی رائے ہے جس پر نہ تو کشمیری عوام کو رائے دینے کا حق حاصل ہے اور نہ ہی مذاکرات میں کوئی راستہ تلاش کیا جاسکتا ہے۔

مقبوضہ کشمیر کو نقشے پر پاکستان کا حصہ ظاہر کرنے سے بلاشبہ بھارت کو اشتعال دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ وہی رویہ ہے جو بھارت نے گزشتہ سال 5 اگست کو اختیار کیا تھا۔ اگرچہ بھارت کے یک طرفہ اقدام کے بعد پاکستان اس معاملہ پر عالمی سفارت کاری میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔ البتہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اختیا رکیا گیا پاکستانی مؤقف اس اصول پر استوار تھا کہ کسی بھی خطہ کے عوام کی طرح کشمیریوں کو بھی خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ بھارت نے گزشتہ برس اس اصول سے دست برداری اختیار کی لیکن پاکستان اس اصول پر اصرار کرتا رہا۔ اس لئے اسے کشمیر میں بھارت کے یک طرفہ اقدمات کے بعد کم از کم اخلاقی برتری ضرور حاصل تھی۔ کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دے کر پاکستان اس اصولی مؤقف سے دست بردار ہؤا ہے۔ یوں اس کی اخلاقی پوزیشن بھی متاثر ہوئی ہے۔ پاکستانی کابینہ جب نئے نقشہ کی منظوری دیتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ کہتی ہے اور استصواب کو اس مسئلہ کا حتمی حل قرار دیتی ہے تو دراصل وہ یہ اعلان کررہی ہے کہ وہ کشمیری عوام کے صرف اس فیصلہ کو مانے گی جس میں کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنادیا جائے۔

عالمی سفارت کاری میں شاید اخلاقیات کی کوئی خاص اہمیت نہ ہو لیکن ایک بڑے علاقے پر ناجائز طور سے قابض ملک کے خلاف عدل و انصاف اور جمہوری اصول پر مبنی مؤقف سے پاکستان یہ آواز ضرور بلند کرسکتا تھا کہ وہ کشمیر کے ایک کروڑ عوام کے جائز اور بنیادی انسانی حق کی بات کررہا ہے۔ کشمیر کو نقشہ پر پاکستان کا حصہ دکھانے سے یہ اخلاقی برتری ختم ہوگئی ہے۔ اس اعلان سے سب سے زیادہ مایوسی کشمیری عوام کو ہوگی۔ وہ اب تک پاکستان کی اخلاقی اور سفارتی امداد کو اپنی جد و جہد میں اہم سمجھتے تھے۔ اب بھارتی قابض حکمران انہیں بتائیں گے کہ پاکستان بھی بس وادی پر قبضہ کا خواب ہی دیکھ رہا ہے۔اسے کشمیریوں کی آزادی سے کوئی غرض نہیں ہے۔ یہی عمران خان، حکومت اور مملکت پاکستان کی سب سے بڑی ناکامی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments