عرفان صدیقی : پھول کی شرح سے صرف بلبل واقف ہے



صوفی از پرتو مے راز نہانی دانست
گوہر ہر کس ازیں لعل توانی دانست
شرح مجموعہ گل مرغ سحر دانس و بس
کہ نہ ہر کو ورقے خواند و معانی دانست
۔ حافظ شیرازی

صوفی نے شراب کے پرتو سے پوشیدہ راز کو جان لیا۔ پھول کے مجموعے کی شرح صرف بلبل جانتی ہے۔ کبھی کبھی لگتا ہے، ایک آواز غیب سے آیی ہوگی، اٹھ عرفان، اٹھ عرفان صدیقی، غالب کو آئے صدیاں گزر گین۔ یہ پھولوں کا مجموعہ قبول کر کہ اس کی خوشبوؤں کا تعاقب کرنا سب کے لئے آسان نہیں ہوگا۔

میری عرفان صدیقی سے چار پانچ ملاقاتیں تھیں۔ ایک ملاقات مرحوم شاہد انور کے گھر ہوئی تھی۔ باقی ملاقاتیں لکھنؤ میں۔ محبت سے ملے۔ مگر زیادہ کھلے نہیں۔ اگر کھل جاتے تو پوشیدہ راز کے پردے اٹھ جاتے۔ وہ کھلتے کہاں تھے۔ اب جب وہ نہیں ہیں، تو روشنی کا ایک ہیولا ذہن میں حرکت کرتا ہے۔ جلتے بجھتے فانوسوں کے درمیان ایک شبیہ ابھرتی ہے۔ نگاہ کی برکت مٹی کو بھی لعل میں تبدیل کر دیتی ہے۔ میں ان نگاہوں کی زد میں ہوں، جو بولتی نہیں تھیں۔ خدا معلوم اگر بولتیں تو تو ان نگاہوں سے بھی طور کا سینہ چاک ہو جاتا۔ عرفان صدیقی کے اشعار سنئے، اور سر دھنئے کہ ایسا لعل بھی ہمارے خزانے میں تھا۔ ۔ ۔

پس غبار مسافت چراغ جلتے رہیں
خدا رکھے یہ پراسرار بستیاں آباد
سوختگاں کی بزم سخن میں صدر نشیں آسیب
چیخوں کے صد غزلوں پر سناٹوں کی تحسین
ہم بھی پتھر ’تم بھی پتھر سب پتھر ٹکراؤ
ہم بھی ٹوٹیں ’تم بھی ٹوٹو‘ سب ٹوٹیں ’آمین
تھک گیا لمبی رات میں تنہا جلتے جلتے
سورج نکلے اور محراب سے رخصت ہو لوں
ایک رنگ آخری منظر کی دھنک میں کم ہے
موج خوں، اٹھ کے ذرا عرصۂ شمشیر میں آ
اس تکلف سے نہ پوشاک بدن گیر میں آ
خواب کی طرح کبھی خواب کی تعبیر میں آ
میں گوشہ گیر ہوں صدیوں سے اپنے حجرے میں
مصاف بیعت و پیمان میں نہیں آتا
مرے خدا، مجھے اس آگ سے نکال کہ تو
سمجھ میں آتا ہے، ایقان میں نہیں آتا
بہت کچھ دوستو ’بسمل کے چپ رہنے سے ہوتا ہے
فقط اس خنجر دست جفا سے کچھ نہیں ہوتا
تمام تاب و تب عاشقی بہانہ ترا
بدن کسی کا بھی ہو وصل جاودانہ ترا
میں بجھتا جاتا تھالیکن کنار جوئے وصال
جھمک رہا تھا ابھی گوہر یگانہ ترا
تو مرے عشق کی دنیائے زیاں کا سچ ہے
کیوں کسی اور کو افسانہ سناؤں تیرا
وہ مرحلہ ہے کہ اب سیل خوں پہ راضی ہیں
ہم اس زمین کو شاداب دیکھنے کے لیے
ہم نہ زنجیر کے قائل ہیں نہ جاگیر کے اہل
ہم سے انکار کیا جائے نہ بیعت کی جائے
یہ بھی اچھا ہوا تم اس آشوب سے اپنے سر سبز بازو بچا لے گئے
یوں بھی کوئے زیاں میں لگانا ہی تھا ہم کواپنے لہوکا شجر یا اخی
تیرے تن کے بہت رنگ ہیں جان من، اور نہاں دل کے نیرنگ خانوں میں ہیں
لامسہ، شامہ و ذائقہ، سامعہ، باصرہ، سب مرے رازدانوں میں ہیں
ناقہٴ حسن کی ہم رکابی کہاں، خیمہٴ ناز میں بازیابی کہاں
ہم تو اے بانوئے کشور دلبری پاس داروں میں ہیں، ساربانوں میں ہیں
بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں
وہ ستارہ ہے سر آسماں ابھی میری شام زوال میں
کبھی میرے دست کمال میں تہہ آسماں اسے دیکھنا
حق فتح یاب میرے خدا کیوں نہیں ہوا
تو نے کہا تھا، تیرا کہا کیوں نہیں ہوا

میں حیران ہوں، وہ اپنے عہد، ماضی، تاریخ، فلسفہ، کھوے ہوؤں کی جستجو، آتش رفتہ کا سراغ، قافلۂ نیم شب، معرکہ کربلا، طلسم ہوشربا، اساطیر، حالات، سیاست، وہ کہاں کہاں سے انسانی جمالیات کے رنگ کشید کرتا ہے، استعارات وعلائم کا جہاں گمشدہ کیسے آباد کرتا ہے؟ عشق نامہ سے سات سماوات کی سیر کو کیسے نکلتا ہے؟ وہ پیادگان کو ظفریاب اور شاہ سواروں کو لوٹتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ صدیوں سے نہریں بند کرنے والوں کو پہچانتا ہے۔

وہ کوئے زیاں میں اپنے لہوکا شجر لگانا چاہتا ہے۔ بانوئے شہر، ہمیں تجھ سے ندامت ہے مگر۔ ۔ ۔ وہ ملا تھا نخل مراد سا ابھی مجھ کو نجد خیال میں۔ ۔ ۔ جہان معنی کی روشن جہتیں ڈھونڈھنے والا اب بھی ہمارے درمیان ہے۔ یہ مشک ہے کہ محبت مجھے نہیں معلوم۔ مہک سی میرے ہرن کی طرف سے آتی ہے۔ ہم کہاں کے یوسف ثانی تھے لیکن اس کا ہاتھ۔ ایک شب ہم کو بلائے پیرہن لگنے لگا۔ ۔ ۔ وہ لفظوں کو کیسے مصوری میں تبدیل کرتا ہے۔ کیسے کیسے نقش بناتا ہے اور حیران کر جاتا ہے۔

انسان کی ”سائیکی“ سے گزرتا ہے۔ بہار و خزاں، ہجر وو وصال کے موسم کو حوالہ بناتا ہے، نا آفریدہ کیفیات کو گرفت میں لیتا ہے۔ اساطیری رموز و اسرار کی پھیلی ہوئی داستانوں کے درمیاں رات سے چراغ اور چراغ سے افسانے نکالتا ہے۔ قدیم و جدید تمدن و تہذیب کے بہشتی زیور سے شعری کائنات کو آراستہ کرتا ہے۔ رومانی تصورات کے ساتھ تہذیبوں کے تصادم سے دو دو ہاتھ کرتا ہے اور اپنے تجربوں سے انسانی فکر کی نئی تاریخ مرتب کرتا ہے۔

اکثر مجھ سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ غالب ومیر کے بعد اردو شعری کائنات میں وسعت اور بصیرت کی سطح پر وہ دنیا کیوں آباد نہ ہوسکی جس نے غالب کو غالب بنایا اور میر کو میر۔ اس طرح کی باتیں عام شعری منظرنامے میں اکثر اٹھتی رہتی ہیں اور اس کا جواب بہت آسان ہے۔ غالب و میر کے بعد بھی ایک بڑی دنیا آباد رہی لیکن برا ہو تنقیدی منظرنامہ کا جو غالب و میر سے آگے دیکھنے کو ہی تیار ہی نہ تھا۔ غالب کا اپنا رنگ وآہنگ تھا تو اقبال، فیض، جمیل مظہری، اجتبیٰ حسین رضوی کی اپنی شعری کائنات آباد تھی۔

اور ہر کائنات دوسری کائنات سے مختلف تھی۔ غالب کی ہی روایات میں، میں جمیل مظہری اور اجتبیٰ حسین رضوی کو عظیم شاعروں کے زمرے میں شمار کرتا ہوں۔ اسی طرح اس روایت کو آگے بڑھائیے تو میری نگاہ دو ناموں پر ٹھہر جاتی ہے۔ ایک مصوری کو شعری پیکر میں ڈھالتا ہے۔ زیب غوری۔ اوردوسرا زندگی کے حسن وخیال اور فلسفے کی آمیزش سے اپنے شعروں میں نیا رنگ بھرتا ہے۔ یعنی عرفان صدیقی۔ ایک ساتھ کسی بھی عہد میں کئی نام نہیں ابھرتے، جو متاثر کرتے ہوں۔

مگر اردوزبان وادب کا کمال یہی ہے کہ اقبال کے بعد بھی سلسلہ رکا نہیں۔ فیض، ن م راشد، میراجی، اخترالایمان، فراق، زیب غوری اور عرفان صدیقی تک اچھے اور بڑے شاعروں کی ایک کہکشاں آباد ہے۔ اورغور کیجئے تو سب کے اپنے رنگ، سب کا اپنا شعری طلسم۔ اور یہ ہماری کم علمی اور کم نظری کی داستان ہے کہ ایک کو دوسرے پر فوقیت دینے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ عرفان صدیقی اترپردیش کے تاریخی شہر بدایوں میں 8جنوری1939ءکوپیداہوئے۔ 2004 میں ادب کی بستی سونی کر گئے۔ طاق میں رات کے افسردہ چراغوں کا دھواں۔ یہ بھی دیکھئے اپنے اور اپنے شہر بدایوں کے بارے میں وہ کیا لکھتے ہیں۔

جلتی دوپہر میں پیڑی کا پر اسرار درخت
جس سے لپٹا ہوا، گزری ہوئی صدیوں کا طلسم
پہلوئے خاک میں آسودہ کوئی مرد شہید
طاق میں رات کے افسردہ چراغوں کا دھواں
یہ گلی گنج شہیداں کی طرف جاتی ہے
مصحفی نے جو کہا ہے تمھیں معلوم نہیں
سرمہ چشم ہے یہ خاک تو خسرو کے لیے
ہم اسی مٹی سے اگنے کے لیے آئے ہیں

عرفان صدیقی نے شعری سطح پر وہی مہرے بچھائے جس کا تعاقب کرتے ہوئے آپ غالب کے اشعار تک پہنچ سکتے ہیں۔ غالب کے شعروں کا کمال یہ ہے کہ مصرعہ اول سے مصرعہ ثانی کی دنیا کا تعاقب آسان نہیں۔ غالب ایک مصرعہ کہتا ہے اور دوسرے مصرعہ سے اس شعر میں ایسی جاذبیت اورآفاقیت پیدا کرجاتا ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ یہ کرشمہ چونکانے کا عمل نہیں ہے۔ یہ کرشمہ وژن اور خیال سے پیدا ہوتا ہے۔ غور کریں تو یہی عمل آپ کو بہ آسانی عرفان صدیقی کی شعری کائنات میں نظر آ جائے گا۔

عرفان صدیقی ایک ذہین اور اعلی درجہ کی فکر رکھنے والے شاعر تھے۔ وہ ان شاعروں سے قدرے مختلف تھے جو محض اپنے ذوق و شوق کی خاطر غزلوں کی سیع کائنات کا حصہ بن گئے ہیں۔ اس کے برعکس عرفان صدیقی حیات و موت کے فلسفے کو باریک بینی سے اپنے تجربات سے وابستہ کرتے ہوئے جب اپنے خیالات کو شعری قالب میں ڈھالتے ہیں تو اس نئے رنگ وآہنگ پر ایک دنیا فدا ہوجاتی ہے۔

مجھے خوشی ہے کہ عرفان صدیقی سے میری چند ملاقاتیں رہی ہیں۔ لکھنو میں دو ایک گھنٹے، ان کے ساتھ سیر کرنے، یا گھومنے کا اتفاق بھی رہا ہے۔ اس درمیان ان کو قریب سے جاننے اور سننے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ عرفان صدیقی کی ایک خوبی یہ تھی کہ وہ خود کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔ وہ دوسرے ادیب یا شاعروں کی طرح ہر لمحہ ادب اوڑھنے کا ڈرامہ نہیں کرتے تھے۔ ان کے باطن میں فکر وخیال کی جو دنیا آباد تھی، وہ تنہائی کے لمحوں میں ہی معجزہ یا کرشمہ دکھاتی تھی۔ میں عرفان صدیقی کو اس عہد کا عظیم شاعر تسلیم کرتا ہوں اور اس بات پر بھی فخر کرتا ہوں کہ چند ملاقاتیں ہی سہی، مجھے عرفان صدیقی جیسے شاعر کی صحبت حاصل رہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments