دوستی اور محبت ضرور کریں


فیس بک سے شروع ہونے والی اکثر دوستیاں واٹس اپ پر محبت کی صورت پروان چڑھتی ہیں۔ اور پھر تنہائی میں کی گئی باتیں سوشل ہونے پر دم توڑ جاتی ہیں۔ لڑکیوں کی غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیو کے لیک ہونے کی تعداد میں جوں جوں اضافہ ہو رہا ہے اس سے لڑکیاں اتنی شرمندہ تو نظر نہیں آتیں لیکن اس پر پریشان ضرور ہیں کہ کوئی دوسرا ان کی ویڈیو شیئر کر کے ان کے ساتھ زیادتی کر رہا ہے۔ ممکن ہے ان کی پریشانی کی وجہ یہ ہو کہ یہ کام بھی انھوں نے خود ہی کرنا تھا۔ کچھ معصوم تو ”فیک ہے“ کہہ کر پتلی گلی سے نکل جاتی ہیں لیکن کچھ اتنی اچھی ہوتی ہیں کہ ان کے سچا ہونے کا اقرار کر لیتی ہیں تاکہ اس غلط کام کی سزا مخالف فریق کو دلوا سکیں، جس نے ان کی ویڈیو فارورڈ کی۔ لیکن سچ یہ ہے کہ منا ایویں بدنام ہوتا ہے، ویڈیو کو شیئر کرنے کا اصل کام تو منی خود کر چکی ہوتی ہے۔

جب سے سوشل میڈیا غیر سوشل ہوا ہے اکثر لوگ اس کے فائدے اور نقصان کی بحث میں الجھے رہتے ہیں۔ آپ اسے فائدہ کہیں یا نقصان، لیکن اس پلیٹ فارم سے محبت کے لمحات کو دوام ملا ہے کہ دوسری طرف بھی اگر سنجیدگی ہے تو پھر کوئی پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ یعنی لڑکا یا لڑکی یہ کہے مجھے تم سے کبھی محبت نہیں تھی تو فوراً موبائل نکال کر میسج کی صورت ثبوت دکھا دیا جاتا ہے کہ محبت نہیں تھی تو پھر یہ کیا تھا؟ قربت اور فرصت کے لمحات کو موبائل میں محفوظ کر کے محبت زندہ رکھنے کا اہتمام کر لیا گیا ہے۔

اس محفوظ محبت سے لڑکوں کے مار کھانے کے امکان جہاں ختم ہوئے ہیں وہیں محبت میں مرنے مارنے کی باتیں بھی اپنی موت آپ مر گئی ہیں۔ کہ لڑکے اب لڑکی کے گھر کے سامنے کھڑے ہو کر سیٹیاں بجا کے کسی باپ بھائی کی غیرت کو للکار کر ہڈیاں تڑواتے ہیں اور نا ہی کسی پارک میں خود سے فاصلہ رکھ کر بیٹھی لڑکی سے باتوں میں اس قدر محو ہوتے ہیں کہ کسی وردی والے کو آکر ڈندے کے زور پر یہ محویت توڑنا پڑے۔ اب واٹس اپ پر لڑکوں کے میسج ہوتے ہیں اور لڑکیوں کی ویڈیو یا تصاویر۔ لڑکیاں میسج پڑھ کر ڈیلیٹ کر دیتی ہیں اور لڑکے ویڈیو یا تصاویر دیکھ کر فارورڈ۔

جو نا مراد عاشق چوہے مار گولیاں کھا کر سمجھتے تھے کہ شیر کی موت مر رہے ہیں، اس دلیری میں بھی کمی آ گئی ہے۔ اب کوئی ٹیپو سلطان بننے کی کوشش نہیں کرتا، محبت میں جان دینے والے احمق سمجھ چکے ہیں کہ جان ہے تو جہان ہے، لہذا ماؤں کے لعل اب جان سے نہیں جاتے، بیٹی کی وائرل ہوئی نازیبا ویڈیو سے صرف باپ کی عزت جاتی ہے لیکن گھبرانے کی بات نہیں، کہ عزت چلی گئی کا ماتم کرنے والے بھی زیادہ دیر گریہ جاری نہیں رکھ سکیں گے، کہ مذہب کے تڑکے پر ابال کھانے والوں کا وقت رخصت ہے اور غیرت کے نام پر مرنے مارنے والوں کی بھی آخری نسل چل رہی ہے۔

اب تو نئے زمانے میں براڈ مائنڈڈ لوگوں کا زمانہ ہے سو مائنڈ کرنے والی بات اب نہیں ہو گی کہ لوگوں نے اپنے چہروں پہ چڑھائے نقاب اتارنا شروع کر دیے ہیں اور اس حقیقت کو تسلیم کرنا شروع کر دیا ہے کہ جو ہو رہا ہے یہ ہمیشہ سے ہوتا ہی ہے۔ بس چند صبر کر لیجیے گنتی کے چند دن اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔

لڑکی کی اپنےعاشق  کے سکون قلب کے لیے مزید ویڈیوز منظر پر آ جائیں تو عاشقی میں عزت سادات بھی گئی کا مرثیہ پڑھنے والے خود ہی نارمل ہو جائیں گے۔ ایک بار لوگ اس کے عادی ہو گئے تو گھر والے بے شک شادیانے نہ بجائیں لیکن غصہ سے لال پیلے بلکہ ہرے نیلے بھی نہیں ہوں گے۔ بس ایسی کسی ویڈیو پر سرسری نظر ڈال کر سکرول کر دیا کریں گے کہ اخلاقیات کی بات کرنے والوں کو پدر سری معاشرہ یا بوسیدہ سوچ کے مالک کہہ کر شرمندہ کرنے والیوں کی گرفت مضبوط ہو رہی ہے۔ سو پریشانی کی چنداں ضرورت نہیں۔

مجھے یاد پڑتا ہے جب نیا نیا موبائل آیا تھا تو کسی لڑکی کے پاس اگر موبائل پایا جاتا تو اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا، لیکن اب اگر کسی کے پاس موبائل نہ ہو تو اسے بری نظر سے بھی نہیں دیکھا جاتا، کیوں کہ اسے بیچاری سمجھ کر بات کرنے کے قابل ہی نہیں سمجھا جاتا، ترحم بھری نظروں سے دیکھا جاتا ہے کہ اس غریب کو موبائل لے دیا جائے۔

غیر اخلاقی ویڈیو اور تصاویر کے وائرل ہونے کا معاملہ بھی اسی طرح ہے، مستقبل میں جس لڑکی کی غیر اخلاقی ویڈیو وائرل نہ ہو گی اس پہ حیرت ہوا کرے گی کہ یہ لڑکی کس دور میں جی رہی ہے؟ ابھی ہماری عورت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ شاید اسی لیے ابھی وہ خود یہ فیصلہ نہیں کر پا رہی کہ وہ چاہتی کیا ہے۔ یہی دیکھ لیں وہ غیر اخلاقی تصاویر اور ویڈیو بنا کے سینڈ بھی کرتی ہے اور اس کے وائرل ہونے پہ رونا دھونا بھی مچاتی ہے۔ کچھ تو زم زم سے نہانے بھی چلی جاتی ہیں۔

ممکن ہے کہ ابھی ہمارے یہاں کی عورت شعور کی منازل طے کر رہی ہے تبھی تو وہ انھیں شیئر کر کے سمجھتی ہے کہ یہ فارورڈ نہیں ہو گی، یہ بات ناممکن ہے۔ اگر کوئی بھی لڑکی اپنی مرضی سے اپنی خلوت کے لمحات میں اپنے محبوب کو تصاویر یا ویڈیو کے ذریعے اپنے جلوے دکھا رہی ہے تو پھر واویلا کرنا چھوڑ دے کہ ظلم ہوگیا، دھوکا ہوا۔ لڑکے نے ویڈیو سوشل میڈیا پہ ڈال دی یا اس کا غلط استعمال کیا، محبت کے نام پر اس کے ساتھ کھیلا گیا۔

یہ سارے الزام لگانے سے پہلے وہ ایک بار یہ ضرور سوچے کہ کھیلنے کو میدان کس نے فراہم کیا تھا۔ اپنے تک رسائی خود لڑکی نے اپنی مرضی سے دی تھی، تو جب وہ خود اپنی حفاظت نہیں کر سکی تو کسی دوسرے سے کیسے توقع کر سکتی ہے کہ دوسرا یہ سب اپنے پاس محفوظ رکھے گا۔ اب زیادہ تر مردوں پریہ الزام نہیں لگ سکتا کہ انھوں نے کسی معصوم کلی کو مسلا ہے کہ محبت کے نام پر یہ کام لڑکیاں خود کر رہی ہیں۔ اگر کوئی بھی لڑکا کسی لڑکی سے میرے لیے خاص تصویر بناؤ کا تقاضا کرے تو لڑکی انکار کیوں نہیں کرتی۔

پہلی بات یہ کہ اگر لڑکا سنجیدہ ہو تو ایسا تقاضا کرتا ہی نہیں عزت کے ساتھ بیاہ کے لے جاتا ہے لیکن اگر وہ تقاضا کرے تو لڑکی انکار کرے تو لڑکا اس انکار پر سرشار بھی ہو سکتا ہے کہ لڑکی اتنی با کردار تو ہے کہ اس نے محبت پر عزت کو ترجیح دی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لڑکی ایسے تقاضے پر انکار نہیں کرتی۔ اگر انکار کرے تو لڑکا بلاک کرنے کی دھمکی دیتا ہے اور لڑکی بلاک ہونے کے نام پر ہلاک ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اور کسی پکے ہوئے پھل کی طرح لڑکے کی جھولی میں جا گرتی ہے۔

لڑکی خود کو پیش کر دیتی ہے انکار نہیں کرتی۔ یہ ہے وہ وجہ جس سے بعد میں رسوا ہوتی ہے۔ لیکن الزام مرد پہ ڈال کے بری ہونا چاہتی ہے۔ انٹرنیٹ کے اس دور میں جب کوئی بھی انجان اور معصوم نہیں رہا تو پھر لڑکیاں سامنے کی بات کیوں نہیں سمجھتیں کہ عموماً لڑکے اس لڑکی سے شادی نہیں کرتے جن سے شادی سے پہلے قربت کے لمحات گزار لیں۔ لڑکیوں کو یہ بات آخر کیوں سمجھ نہیں آتی کہ لڑکی کے لیے دنیا چھوڑ دینے کی بات کرنے والا اپنی ضد کیوں نہیں چھوڑ دیتا۔ خود کو پیش کر دینے والی لڑکی سے لڑکے محبت کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن شادی شاذ ہی کرتے ہیں۔ لڑکی اگر اتنی سی بات سمجھ لے کہ محبت کے نام پر قربانی یا آزمائش لڑکی ہی کیوں دے تو یقیناً وہ اس ذلت سے بچ سکتی ہے جو اس کی غیر اخلاقی تصاویر شیئر ہونے کی صورت اس کا مقدر بنتی ہے۔

دوستی یا محبت ضرور کریں کہ یہ غلط نہیں ہے لیکن دوستی یا محبت کی آڑ لے کر غلط کرنا بہت غلط ہے جس کا بھگتان اکثر اوقات رسوا ہونے کی صورت صرف عورت ہی کو بھگتنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر اپنی مرضی سے کچھ غلط کر ہی لیا ہے تو پھر ہمت کیجیے اپنی غلطی کو اپنائیے، کہ پہلے ویڈیو بنا کے اپنی مرضی سے شیئر کی تھی، اب آپ کے شیئر کرنے کے بعد پھر دوسرے کی مرضی کہ وہ اسے آگے شیئر کرے، محفوظ یا ڈیلیٹ۔ اپنے کیے کو دوسرے پر ڈال کر خود بری ہونے اور دوسرے کو پھنسانے کی کوشش مت کریں کہ یہ اور زیادہ غلط ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments