کاہلی کے فوائد


کاہلی خدا کی ان نعمتوں میں سے ہے جس کا بھید کسی کسی پر کھلتا ہے۔ کروڑوں رحمتیں ہوں رسل کی قبر پر کہ ایک آدھ صدی قبل اس راز کی پرتیں ہم ایسے نعمت یافتہ اشخاص کے لیے ہٹا دی تھیں۔ جس نے اس پھل یعنی کاہلی کا ذائقہ نہیں چکھا بلاشبہ تونگری سے محروم رہا۔ اٹھتے بیٹھتے اندر کی کھدائی کی تو معلوم ہوا ہمیں یہ نعمت پوری پوری طرح دان ہوئی ہوئی ہے۔ عالم آب و دانہ میں گویا کاہلی لینے کوئی کٹوری، ڈنگیا نہیں ایک لمبا چوڑا منجھولا لے گئے تھے۔

لیکن خدا جانے یہ بھید ہمارے اندر رہ کر بھی پنہاں کیوں رہا، رسل کے بتانے پر بھی اس راز پر جوں تک کیوں نہیں رینگی کہ عمر کے جوبلی سال اندر موجود رحمتوں کا احساس تک نہ ہوا اور کچھ نہ کچھ کرتے گزار دیے۔ اب کیفیت یہ ہے کہ کاہلی کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جان لاک ”فطرت آدمی“ کے بارے یہ بتانا بھول گئے کہ کاہلی سماج کے تصور سے پہلے موجود تھی۔ اور یہ نعمت ارزاں داموں میسر آتی تھی۔ بس جب آسمان دوست بنتا ہے تو آدمی پر نعمتوں کے راز کھلنا شروع ہو جاتے ہیں۔

چند ساعتیں فلک مہرباں کیا ہوا کہ فوراً کاہلی کی آیات اپنے اندر الہام ہونا بلکہ پیوست ہونا شروع ہو گئیں۔ پتا چلا کہ بھئی کام میں کیا رکھا ہے، جس کے لیے بھاگ رہے ہو اس نوکری میں کیا رکھا ہے؟ نوکری سالی گورنمنٹ کی غلامی ہی تو ہے۔ گورنمنٹ کیسے بنتی ہے، اپنی آزادی کو سماج کے بھلے کے لیے چند لوگوں کے آگے سپرد کر دیا جائے۔ تو مطلب اپنی آزادی کو سلب کرنے کے لیے بندہ اب کام کیوں کر کرے؟ چلو چھوڑو سرکار کی ایک اور تعریف کیے دیتے ہیں شاید ہم ہی غلط ہوں۔ سرمایہ دارانہ کلاس کا مسلط ہو جانا سرکار کہلاتا ہے۔ اگر ایسا ہے ہم تو ٹھہرے کٹر مارکسی اب ہمارے لیے گورنمنٹ سے کیا لینا دینا رہ گیا۔ بھائی یہاں نظریاتی نہیں بننا کچھ اور استدلال ہے تو وہ لاؤ۔

چلو ایک قطعیت اورسمجھ لو گر نوکری لینے پر بضد ہو۔ نوکری ہم کریں گے پیسہ اشرافیہ کی جیب میں غالب کی چھت کی طرح ٹپکے گا۔ نوکری ہم کریں گے بٹوے سیاست دانوں کے بھریں گے۔ گویا ہماری نوکری سی پیک منصوبہ ہوئی۔ خود کو سپرد پاکستان کرے گا فائدہ چین لے جائے گا۔

من نہیں بھرا تو ثبوت اور سن لو۔ سنو سنو

فرض کرو ہم نوکری کر لیتے ہیں۔ ہماری نوکری سے سرکار کا ایک ملازم بڑھ جائے گا جس سے یقیناً سرکار کی جڑیں مضبوط ہوں گی۔ جب سرکار مستحکم ہوتی ہے تو اس کے شعبہ جات بڑھیں گے۔ پھر ٹیکس بھی بڑھ جائیں گے۔ اب لگان کا بوجھ غریب کو دبائے گا۔ اب غریب کے نقصان کے، غریب پر بوجھ کے ذمہ دار کون ہوں گے۔ ہم اور صرف ہم۔

آگے دیکھو اس غریب کے لگان سے امیر کی صنعتیں چلیں گی۔ امیر کی صنعت طبقاتی تقسیم میں رجحان لائے گی۔ تو ذمہ دار کون؟ ارے ہم نا!

پھر بات مارکس تک جائے گی بابا مارکس سے گالیاں پڑیں گی ہمیں۔

صنعت سے یاد آیا صنعت تو بجلی سے چلتی ہے۔ بجلی واپڈا بناتی ہے تو صنعتوں کا پیسہ واپڈا کو لگے گا۔ اب اپنی زبان سے کیا غیر کی شرح کرنی سو تضمین انور مسعود سے واپڈا کے لیے کچھ کہہ دیتے ہیں

نظام برق لیا واپڈا نے ہاتھوں میں
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
باقی اس شرح سے ہماری کیا مراد ہے وہ خود سجھ لیجیے۔ یا پھر ہمیں ہی باچھیں کھولنی پڑیں گی؟

تو میاں دیکھو اب ایسے کارخانۂ سرکار میں گھسنے کا کیا فائدہ جس نے جمہور کو ذلیل کرنا ہو جو آپ کے چراغوں کو گل کر دینے والا ان کے لیے کام کرو گے؟ لہٰذا دور رہو ان نوکریوں سے۔

ویسے بھی کرونا کے ایام ہیں گویا ہر بندہ کرونا ڈھال میں لپٹا ہوا ہے سو اس ڈھال کا بھرم رکھ لو، اس کرونا کا واسطہ مان لو

یہ کاہلی ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدا stay at home
گھر رہیو سست رہیو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments