آرٹیکل 370 کا ایک سال: جموں کشمیر سے الگ ہوکر ایک سال میں لداخ کو کیا ملا؟


لییہ

لداخ کا نام لیتے ہی اس کے خوبصورت مناظر کی تصاویر ہمارے ذہنوں میں ابھرنے لگتی ہیں۔ انڈیا کی پیشانی پر قدرت کا یہ انوکھا تحفہ ایک سال پہلے تک ریاست جموں و کشمیر کا حصہ ہوا کرتا تھا۔

لیکن گذشتہ سال 5 اگست کو انڈین پارلیمنٹ نے آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کر کے جموں و کشمیر کو دی جانے والی خصوصی حیثیت ختم کردی۔ لداخ کو جموں وکشمیر سے علیحدہ کرتے وقت دونوں کو دو علیحدہ وفاق کے زیر انتظام ٹیریٹریز بنایا گیا۔

اس کے بعد جموں و انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی تو الگ کہانی رہی لیکن اس تقسیم پر لداخ میں جشن منایا گیا۔ لوگوں میں خوشی تھی کہ جو مطالبہ وہ گذشتہ 70 سالوں سے کر رہے ہیں اس کا 50 فیصد ہی سہی پورا تو ہوا۔

50 فیصد کیوں؟ دراصل لداخ والوں کی جموں و کشمیر سے علیحدہ اسمبلی والا وفاقی خطہ بنائے جانے کا پرانا مطالبہ تھا۔ لیکن لداخ کو مرکز کی حکمرانی میں لانے کے باوجود انھیں اسمبلی نہیں دی گئی۔ قیام کے ایک سال بعد بھی وہاں کے لوگوں کے دلوں میں یہ سب سے بڑی تکلیف کی وجہ ہے اور دیگر تمام وجوہات اس سے وابستہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

شق 370 کا خاتمہ: لداخ کے معاملے پر چین ناراض

’پاکستان 370 کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا تھا‘

کشمیر کا مسئلہ کیا ہے؟

گذشتہ ایک سال میں کیا لداخ کو وہ حاصل ہوا جو وہ چاہتا تھا؟ کیا ملک کا سب سے بڑا لوک سبھا کا حلقہ اپنے خوابوں کو سچ ہوتا دیکھ رہا ہے؟ عوام کی توقعات کیا ہیں، وہ مرکز سے کیا مطالبہ کر رہے ہیں؟ بی بی سی نے ان سب کی جانچ کی ہے۔

لداخ

لہٰذا سب سے پہلے ان امیدوں کا ذکر جو لداخ کے باشندوں نے مرکز کا علاقہ بننے کے بعد پال رکھی ہیں۔ لیکن اس سے پہلے ذکر اس لداخ کا جس سے پورا ملک بخوبی واقف نہیں ہے۔

سیاحوں کے لیے لداخ کا مطلب عموماً لیہ ہوتا ہے۔ اور کہا بھی لیہ لداخ ہی جاتا ہے۔ لیکن لیہ کے ساتھ کارگل کا ذکر کم ہی ہوتا ہے اور سیاح بھی لیہ کے مقابلے وہاں کم پہنچتے ہیں۔ اور یہی وہ درد ہے جس کا ذکر کارگل کے تقریباً تمام رہائشی کرتے ہیں۔

کارگل کا سب سے بڑا مطالبہ برابری

سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق لداخ میں 46.4 فیصد مسلمان آباد ہیں جن کی آبادی تقریبا تین لاکھ ہے۔ لیہ اور کارگل یہاں دو اضلاع ہیں۔ لیہ میں بدھ مت کے پیروکاروں کی اکثریت ہے اور کارگل میں مسلمان ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر مسلم اکثریتی تھی اور ان کی باتیں کم سنی جاتی تھی، لیکن آج جب لداخ مسلم اکثریتی نہیں ہے تو کارگل کے لوگ شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔

کارگل کے عوام کا مطالبہ ہے کہ جب لیہ اور کارگل میں تقریبا برابر آبادی ہے تو پھر زیادہ تر ترقیاتی منصوبے لیہ کے لیے کیوں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو کارگل کی بھی اس طرح ترقی کرنی چاہیے جتنا وہ لیہ میں کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

کارگل میں بی جے پی کے رہنما بھی اصرار کرتے ہیں کہ حکومت کارگل میں بھی وہی کرے جو وہ لیہ میں کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔

کارگل میں بی جے پی کے بڑے رہنما حاجی عنایت علی کا کہنا ہے کہ ‘سب سے بڑا مسئلہ ہوائی اڈے کی توسیع کا ہے۔ یہاں جلد از جلد بڑی پرواز کے اترنے کا بندوبست کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک کوئی مرکزی وزیر کارگل نہیں پہنچا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہاں کا ہوائی اڈہ ہے۔ لیہ سے کارگل کا سفر تقریباً 250 کلومیٹر کا ہے جو سڑک کے ذریعہ ہوتا ہے۔ ایئر پورٹ پر بڑی پرواز نہیں اُتر سکتی، لہذا وزرا آتے ہی نہیں۔ کوئی بھی پانچ سے چھ گھنٹے کا سفر نہیں کرنا چاہتا۔’

کارگل میں کانگریس کے رہنما نصیر منشی کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے ہمیں یہاں یہ سمجھنا چاہیے کہ جب بھی ہم جغرافیائی بنیاد پر انڈیا کے سب سے بڑے لوک سبھا حلقہ لداخ کے بارے میں بات کرتے ہیں تو وہ کارگل کے بارے میں نہیں بلکہ لیہ لداخ کے بارے میں ہوتی ہے۔

‘جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطالبے پر کچھ نہیں ہوا’

کارگل میں اس وقت مظاہرے ہوئے جب لداخ کو وفاقی علاقہ بنایا گیا۔ اس کے بعد گورنر ستیہ پال ملک یہاں آئے۔ اس دوران بی جے پی کے بغیر کانگریس، نیشنل کانفرنس اور دیگر مذہبی تنظیموں نے مشترکہ ایکشن کمیٹی تشکیل دی اور انھیں ایک 14 نکاتی میمورنڈم پیش کیا۔

حاجی عنایت علی کہتے ہیں کہ اس میں جو کچھ تھا اس پر ابھی تک کوئی کام نہیں ہوا ہے۔

ناصر منشی کہتے ہیں ‘جب لداخ کو وفاقی علاقہ بنایا گیا اور جب گورنر کارگل آئے تو ان کے سامنے جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ انتظامیہ کے صدر دفاتر کو چھ ماہ کارگل چھ ماہ لداخ میں رکھا جائے۔ انھوں نے اس کی یقین دہانی کرائی۔ راج بھون، سکریٹریٹ اور پولیس ہیڈ کوارٹر دونوں لیہ اور کارگل دونوں اضلاع میں تعمیر کیے جانے تھے۔ ایک سال بعد اس پر کچھ نہیں ہوا۔’

ان کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک سال میں ہمیں کھونے کے سوا کچھ نہیں ملا۔

انھوں نے کچھ مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ ‘ہم آرٹیکل 370 اور 35 اے کی حمایت اس لیے کرتے تھے کیونکہ یہ ہمارے لیے دیوار کی طرح تھا۔ وہ یہاں ملازمت کے متعلق تحفظ فراہم کرتا تھا۔ یہاں ملازمتیں صرف مقامی لوگوں کو دستیاب تھیں۔ انھیں ختم کیے جانے کے بعد گذشتہ ایک سال میں کوئی نئی تقرری نہیں ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہر چیز کو آؤٹ سورس کی جارہی ہے۔ دہلی سے نجی ایجنسی آئی ہے وہ لوگوں کو بھرتی کررہی ہے۔ وہ مقامی لوگوں کو معاہدے کے ذریعہ بھرتی کررہی ہے۔ انھیں باہر سے آنے والوں کے مقابلے میں نصف تنخواہ دی جارہی ہے۔ ہمارے پاس تو کوئی ڈومیسائل قانون بھی نہیں ہے۔’

ان کا کہنا ہے کہ کچھ دن پہلے گورنر نے اعلان کیا تھا کہ یہاں 45 فیصد ملازمتیں شیڈول قبائل کے لیے مختص ہوں گی۔

لیکن اسی کے ساتھ ناصر منشی یہ بھی کہتے ہیں کہ ایک طرف لداخ کا پورا علاقہ شیڈول ٹرائب کے زمرے میں آتا ہے اور دوسری جانب ہمارے پاس ڈومیسائل قانون نہیں ہے تو ہم یہ مان لیں کہ اس اعلان میں انڈیا بھر کے تمام شیڈول قبائل آئیں گے۔

بی جے پی کے سینیئر رہنما حاجی عنایت علی نے ڈومیسائل قانون کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ‘ہمیں سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ملازمت کے لیے اپیل کس طرح کی جائے۔ گذشتہ سال ریاست کے خطے کی تشکیل سے قبل فوج کے لیے چار پانچ سو لوگوں کی بھرتی کا اہتمام کیا گیا تھا لیکن نتیجہ ابھی سامنے نہیں آیا ہے۔ گذشتہ ہفتے سیاسی جماعتوں اور طلباء یونین نے بھی ایک روزہ ہڑتال کا انعقاد کیا تھا۔ آج نوکر شاہ یہاں سب کچھ چلا رہے ہیں۔’

ہل کونسل کو مضبوط بنانے کا مطالبہ

لداخ خودمختار پہاڑی ترقیاتی کونسل لیہ اور کارگل دونوں میں ایک مضبوط سیاسی تنظیم رہی ہے۔ اگرچہ دونوں کے انتخابات مختلف ہیں۔ اس سال لیہ میں انتخابات ہونے ہیں جبکہ کارگل میں ہل کونسل کے انتخابات تین سال بعد ہوں گے۔ حکومت ہل کونسل کی ہے لیکن حاجی عنایت علی کا کہنا ہے کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مقامی لداخ خودمختار ہل ترقیاتی کونسل میں کل 30 کونسلر ہیں۔ ان میں سے 26 منتخب اور چار نامزد ممبر ہیں۔ ان میں سے ایک چیف ایگزیکٹو کونسلر اور چار ایگزیکٹو کونسلر بنائے گئے ہیں۔ ان کے پاس کابینہ کی طرح ہی طاقت ہے۔ لیکن اس وقت ان کی طاقت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔

حاجی عنایت علی واضح لہجے میں کہتے ہیں کہ آج ہل کونسل صرف ایک ایسا نام بن کر رہ گئی ہے جہاں سیاسی جماعت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

حاجی عنایت علی کی بات کو ناصر منشی اس طرح کہتے ہیں کہ جموں و کشمیر سے علیحدگی کے ساتھ ہی قانون ساز کونسل میں ہماری نمائندگی ختم ہوگئی۔ اس کے بعد لیہ اور کارگل کے عوام کی نمائندگی ہل ڈویلپمنٹ کونسل تک محدود ہو گئی۔

‘ہل کونسل کو کمزور کیا گیا’

کارگل میں بی جے پی اور کانگریس دونوں کا کہنا ہے کہ یہاں جمہوری نظام کو ختم کرکے ہل کونسل کو انتظامی فیصلوں کا محتاج بنایا گیا۔

کانگریس کے رہنما ناصر منشی کا کہنا ہے کہ ‘ہمارا مطالبہ تھا کہ ہمیں آئین کے چھٹے شیڈیول میں شامل کیا جائے تاکہ مقامی عوام کے روزگار، زمین، ہماری شناخت اور ثقافت کا تحفظ ہو سکے۔ یہ بھی نہیں کیا گیا۔ بلکہ ہل کونسل کی طاقت کو بھی ختم کردیا گیا۔ کونسل کے پاس ایک فنڈ تھا جس میں مرکز، ریاست اور دوسری جگہ سے آنے والے فنڈز رکھے جاتے تھے۔ ہل کونسل کے پاس اختیارات تھے۔ کونسل ڈپٹی کمشنر کے ساتھ مل کر اس فنڈ کی ترجیح کا فیصلہ اور اس پر عمل درآمد کا کام کرتی تھی۔ جنوری کے مہینے میں یہ مالی کنٹرول ختم کر دیا گیا۔ اس کے علاوہ ہل کونسل میں ٹیکنیکل اکنامک کنٹرول کے لیے 20 کروڑ کی طاقت تھی اسے بھی سیکرٹری کی سطح پر لے جایا گیا۔ مجموعی طور پر خودمختار پہاڑی کونسل جو پہلے ان دو اضلاع کی ترقی کے لیے تمام فیصلے لیتی تھی آج اس کی طاقت صلب کر لی گئی ہے۔’

یہی بات بی جے پی کے حاجی عنایت علی نے بھی کہی۔

وہ کہتے ہیں: ‘ڈی سی، کمشنر یا بیوروکریٹس جو لداخ آتے ہیں وہ یہاں کے ماحول کو نہیں جانتے۔ وہ مرکز میں بیٹھ کر ہم سے پوچھے بغیر لداخ کے بارے میں پالیسی بناتے ہیں۔ لداخ کا موسم، ثقافت اور ماحول الگ ہے۔ جو بیوروکریٹس باہر سے یہاں آتے ہیں انھیں کیا پتا کہ سردیوں میں اور گرمیوں میں کس قسم کی پریشانی ہوتی ہے۔ جو کمشنر لیہ میں بیٹھے ہیں انھیں بھی معلوم نہیں ہوگا کہ لوناک میں کیا ہو رہا ہے۔ وہ اس علاقے میں کیا کام ہونا چاہیے سے آگاہ نہیں ۔ وہ ہم سے پوچھے بغیر منصوبے بناتے ہیں جو ہمارے موافق نہیں ہوتے ہیں۔’

ناصر منشی کہتے ہیں : ‘یہاں کے عوام میں زمین اور روزگار کے متعلق سکیورٹی نہیں ہے۔ ابھی کنفیوژن ہے۔ نہ ہی گورنر کی سطح پر اور نہ ہی ڈویژنل کمشنر کی سطح پر کوئی وضاحت ہے۔ مجموعی طور پر مختلف انتظامی فورسز متفقہ نہیں دکھائی دیتی ہیں۔ دو اضلاع پر ایل جی ہے، ان کے ماتحت مشیر اور پھر چار سیکریٹری ہیں، ان کے ماتحت 12 ڈائریکٹرز ہیں اور درمیان میں دو کونسلیں ہیں۔ ان میں کس کا کیا کردار اور اختیارات ہیں وہ پتا نہیں۔’

لیہہ لداخ

لیہ کا مطالبہ: ہل کونسل کو ہی مضبوط کیا جائے

جہاں کارگل کے دونوں رہنما اس بات پر زور دیتے ہیں کہ حکومت سب سے پہلے ہل کونسل کو بااختیار بنائے وہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ جب تک عوام کا نمائندہ حکومت میں شامل نہیں ہوگا اس وقت تک ہماری آواز کیسے پہنچے گی۔ یہی آواز لیہ سے بھی سنائی دیتی ہے۔

بی بی سی نے لداخ کی سب سے طاقتور سماجی مذہبی تنظیموں میں سے ایک لدخ کی بدھسٹ ایسوسی ایشن کے صدر پی ٹی کنزانگ سے بات کی۔

انھوں نے کہا: ‘لداخ کو مرکزی علاقہ بنانے کا مطالبہ ہم نے ہی دوسری تمام سیاسی جماعتوں اور مذہبی تنظیموں کے ساتھ سنہ 1949 میں کیا تھا۔ اسے پورا ہونے میں 70 سال لگے۔ ہم نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کا شکریہ بھی ادا کیا۔’

تاہم ان کا کہنا ہے کہ ‘لوگوں میں تشویش پائی جارہی ہے کیونکہ لداخ کو کوئی آئینی تحفظ فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ ایسے شکوک و شبہات ہیں کہ مرکزی خطے کی تشکیل کے بعد ہماری زمین، روزگار، ماحولیات کا تحفظ اور ثقافتی شناخت کو کس طرح ترقی دی جائے گی۔’

لیکن اسی کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ‘5 اگست کو آرٹیکل 370 ہٹانے اور لداخ کو مرکزی خطے بنانے کے ایک سال کے دوران ترقیاتی کام کرنے کا کوئی موقع نہیں ملا کیونکہ 31 اکتوبر کے بعد جب یہ عمل میں آیا تو ابتدائی مہینوں میں سردیوں کا موسم آگیا اور پھر اس کے بعد سے کورونا وائرس کی وبا جاری ہے۔’

کنزانگ کا کہنا ہے کہ لیہ اور کارگل کو ملا کر تین لاکھ سے کم آبادی ہے اور لداخ کا 98 فیصد قبائلی اکثریتی آبادی پر مبنی ہے۔ اس لیے قبائلیوں کے مفادات کو آئینی تحفظ فراہم کیا جائے۔

وہ کہتے ہیں: ’17 فروری 2020 کو ہم نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک میمورنڈم دیا ہے۔ ہم نے یہ مطالبہ اس لیے کیا ہے کیونکہ لداخ کو مرکزی علاقہ بنانے کا مطالبہ ہم نے اسمبلی یا مقننہ کے ساتھ کیا تھا۔ لیکن اسمبلی نہیں ملی اور ہل کونسل کو ہیاس میں رکھا گیا ہے۔ پھر مرکزی حکومت کو ہل کونسل کو قانون بنانے کا حق دینا چاہیے۔’

کارگل اور لیہ میں جس سے بھی بات کریں وہ یہاں کے نوجوانوں کے مستقبل اور روزگار کے متعلق تشویش رکھتا ہے۔

لیہ پریس کلب کے نائب صدر اور ریچ لداخ بلیٹن کے ایڈیٹر اسٹینزن ڈاسل کا کہنا ہے کہ لداخ میں ایک سٹیٹ پبلک سروس کمیشن (پبلک سروس کمیشن) تشکیل دیی جائے تاکہ اس جگہ کے نوجوانوں کو گزٹیڈ آفیسرز بننے کا موقع مل سکے۔

لداخ سٹوڈنٹس یونین کیا کہتی ہے؟

لداخ سٹوڈنٹس یونین لیف کے صدر جیگمیت پالزو نے کہا کہ طلبا یونین کی جانب سے گذشتہ سال لداخ کو مرکزی علاقہ بنانے کا خیرمقدم کیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا: ‘لداخیوں کو اس فیصلے سے بہت امیدیں وابستہ تھیں۔ آئینی تحفظ، لداخ کی سرزمین، ماحولیات، روزگار اور ثقافت کی حفاظت کی امید تھی لیکن گذشتہ ایک سال میں اس پر کوئی ٹھوس کام نہیں ہوا ہے۔ ہمارا آئینی تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ ہے۔’

پالزور بھی دوسروں کی طرح لداخ خود مختار ہل ڈویلپمنٹ کونسل کو مضبوط بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جمہوری آواز کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘لیہ اور کارگل میں اس کونسل کو مستحکم کیا جانا چاہیے۔ اس کی تشکیل سے سنہ 2019 تک اس میں بہت ساری ترامیم ہوئی ہیں، لہذا ان پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے۔’

وہ کہتے ہیں کہ انھین امید ہے کہ نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک سال میں ایسا نہیں ہوا تھا لیکن مستقبل میں نوجوانوں کو روزگار ملے گا۔ ملازمت نہ ملنے کی بڑی وجہ یہاں پر بھرتی بورڈ اور ملازمت کی پالیسی کی عدم موجودگی ہے۔

انھوں نے زور دے کر کہا کہ اعلی تعلیم کی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے یہاں کے نوجوان باہر جانے پر مجبور ہیں۔ آنے والے سالوں میں حکومت سے امید ہے کہ وہ اس پر توجہ دے گی۔

کچھ دن پہلے مرکز نے لداخ میں سینٹرل یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ لیکن پالزور کا کہنا ہے کہ کسی دوسری طرف جانے سے پہلے موجودہ نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

پالزور کا کہنا ہے کہ ‘لداخ میں پہلے سے لداخ یونیورسٹی اور سینٹرل یونیورسٹی آف بدھسٹ اسٹڈیز موجود ہیں۔ ان کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کسی تیسرے آپشن سے زیادہ کارگر ثابت ہوں گے۔’

نوجوانوں کی توقع یہ ہے کہ یہ مرکزی خطہ نوجوانوں اور لداخیوں کے لیے بنائے جائیں تاکہ اسے انڈیا بھر میں ایک مثال کے طور پر دیکھا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32494 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp