پاکستان کا نیا نقشہ


5 اگست 2020 کی صبح اُٹھ کر اخبارات دیکھے تو چونک اُٹھا۔ شہ سرخیوں کے ذریعے یہ ’’خبر‘‘ دی گئی تھی کہ پاکستان نے ’’یوم استحصال کشمیر‘‘ کی مناسبت سے ’’نیا نقشہ‘‘ جاری کردیا ہے۔ اس نقشے میں ہمارے جغرافیائی حدود کو طے کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو پاکستان کا باقاعدہ حصہ قرار دیا گیا ہے۔ ’’نیا نقشہ‘‘ کے استعمال نے مجھے بہت حیران کیا۔

1960کی دہائی میں لاہور کے رنگ محل مشن ہائی سکول میں غالباََ تیسری جماعت سے جغرافیہ نامی مضمون سے آگاہی کا آغاز ہوا تھا۔ ان دنوں پاکستان کا جو نقشہ میرے ذہن میں بٹھایا گیا اس میں تمام تر جموںوکشمیر ہمارے وطن کا حصہ ہی دکھائے گئے تھے۔ شاید 1966کے معاہدے تاشقند کے بعد ہماری درسی کتاب میں آزادکشمیر کو ’’مقبوضہ کشمیر‘‘ سے جدا کرکے دکھانے کا عمل شروع ہوا تھا۔ یہ حقیقت بھی یاد دلانا ہوگی کہ ان دنوں ہمارا ’’مشرقی پاکستان‘‘ بھی ہوا کرتا تھا۔ جونا گڑھ اور مناوڑ بھی وطنِ عزیز کا حصہ شمار ہوتے تھے۔ اپنی نسل کے درسی تجربات کی بنیاد پر یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ 4اگست 2020کے دن پاکستان کا ہرگز ’’نیا نقشہ‘‘ جاری نہیں ہوا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور جوناگڑھ کے حوالے سے فقط ہمارے تاریخی دعوے کا بھرپور انداز میں اعادہ ہوا ہے۔ اسی دعوے کی بنیاد پر ہم کشمیر کو پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ پکارتے رہے ہیں۔

سیاسی اعتبار سے مشرقی پاکستان کو جو اب بنگلہ دیش بن چکا ہے بھلاتے ہوئے ماضی کے مغربی پاکستان کے ’’اصل نقشے‘‘ کا احیاء وقت کی ضرورت تھا۔ بھارت نے گزشتہ برس کی 5اگست کے دن انگریزی استعمار کے دنوں میں بھی ’’خودمختار‘‘ رہی ریاستِ جموںوکشمیر کی تاریخی اور جغرافیائی شناخت کو اپنے آئین کے آرٹیکل 370کے خاتمے کے بعد ڈھٹائی سے ’’ہمارا‘‘ قرار دیا۔ ماضی کی ریاست کو کاٹ کر دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ لداخ جموںوکشمیر سے الگ ہوگیا۔ ایسا کرتے ہوئے چین کے نقشے میں شامل ’’اکسی چن‘‘ کو بھی بھارت نے اپنا حصہ قرار دیا۔ بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے لوک سبھا میں بڑھک یہ بھی لگائی کہ مذکورہ علاقے کو ’’چینی قبضے سے آزاد کروایا جائے گا‘‘۔ اس کے بعد اجیت دوول کے ایماء پر بھارت کے سرکاری ٹی وی نے مظفر آباد،سکردو اور ہنزہ کے ’’موسم کا حال‘‘ سناتے ہوئے انہیں نقشوں کی مدد سے نئی دلی کے زیر نگین علاقوں میں شمار کرنا شروع کردیا۔ ہم جواباََ پی ٹی وی سے سرینگر اور لیہہ کا موسم دکھانا شروع ہوگئے۔

منگل کے روز جاری ہوا نقشہ درحقیقت تاریخی حقائق کو اجاگر کرنے کی کوشش ہے۔ وہ اعلان جسے ’’حقِ دعویٰ‘‘ کہا جاسکتا ہے ۔ اسے اجاگر کرتے ہوئے بروقت اس حقیقت کو بھی شدت سے بیان کرنا ضروری تھا کہ ہم زمین کے کسی ٹکڑے پر اپنا ’’حقِ ملکیت‘‘ نہیں جتارہے۔ پاکستان کا یہ مطالبہ اپنے تئیں بھرپور اندازمیں برقرار ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں باقاعدہ منظور ہوئی قراردادوں کے تحت کشمیری عوام کو آزادانہ استصواب رائے کے ذریعے یہ طے کرنے کا حق دیا جائے کہ وہ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا بھارت میں ضم۔ ہمیں یقین کامل ہے کہ ’’پاکستان سے رشتہ کیا؟‘‘والا نعرہ بلند کرتے کشمیری بھاری اکثریت سے ہمارے ساتھ الحاق کا فیصلہ کریں گے۔ یہ اعتماد ہی ’’نئے نقشے‘‘ کی بنیاد ہے۔ ہمیں بھارت کی مانند زور زبردستی سے کشمیر پر اپنے ’’حق ملکیت‘‘ کے اصرار کی ہرگز ضرورت نہیں۔ اندھی نفرت وعقیدت میں منقسم ماحول میں عمران حکومت کے مخالفین نے طیش میں ’’نئے نقشے‘‘ کی بابت ٹویٹس کے ذریعے فروعی سوالات اٹھانا شروع کردئیے۔ ان سوالات کے شوروغوغا نے اس حقیقت کو اجاگر نہ ہونے دیا کہ میری دانست میں مودی سرکار کو اصل ’’تکلیف‘‘ نئے نقشے سے یہ ہوگی کہ اس میں جوناگڑھ اور سرکریک پر بھی حقِ ملکیت جتایا گیا ہے۔ میری بات کو سمجھنا ہو تو نقشے پر نگاہ ڈالیں۔ بھارت کے صوبے گجرات پر زوم اِن کریں۔ یہ کرتے ہوئے ہرگز فراموش نہ کیجئے گا کہ نریندرمودی کا سیاسی سفر گجرات ہی سے شروع ہوا تھا۔ سرکریک سمندری حدود کے تعین کے تناظر میں بہت اہمیت کا حامل ہے۔ دورِ حاضر میں مختلف ممالک کے مابین بیشتر جھگڑے سمندری حدود کے تعین کی بنیاد پر ہی سنگین تر ہورہے ہیں۔ 1979سے ہمارا یار چین اپنی معیشت پر یکسوئی سے توجہ مبذول کرتے ہوئے بالآخر اتنا طاقت ور ملک بن گیا کہ اب عالمی GDPکے 16فیصد کامالک ہے۔ امریکہ اس کے مقابلے میں اب بھی 25فی صد کاحصے دار ہے ۔ اسی باعث دنیا کی ’’واحدسپر طاقت‘‘ کہلاتا ہے۔

انتہائی غور طلب حقیقت مگر یہ ہے کہ 1979 تک چین کا عالمی GDPمیں حصہ تقریباَ نہ ہونے کے برابر تھا۔ امریکہ کے بعد جاپان، برطانیہ اور یورپ کے جرمنی جیسے ممالک امیر ترین ملکوں میں شمار ہوتے تھے۔ چین نے بتدریج ان سب کو پچھاڑ ڈالا۔ اب وہ عالمی معیشت میں اپنے حصے کی بنیاد پر امریکہ کے بعد دُنیا کا دوسرا امیر ترین ملک ہے۔ وہ مزید ترقی کا خواہش مند ہے۔ امریکہ کے برابر ہوجانے اور بعدازاں اسے پیچھے چھوڑنے کے لئے مگر لازمی ہے کہ بحری راستوں کے ذریعے ہوتی عالمی تجارت پر امریکہ کا اجارہ نہ رہے۔ چین کو اس ضمن میں برابر کا حصہ دارتسلیم کیاجائے۔ چین کی اس خواہش کو بھاپنتے ہوئے امریکہ نے آسٹریلیا اور بھارت جیسے ممالک کو مسلسل اُکسایا کہ وہ South China Seaپر توجہ دے۔ ویت نام،انڈونیشیا،فلپائن اور حتیٰ کہ ملائیشیاء کو بھی مجبور کیا جارہا ہے کہ وہ سمندر کے اس مقام کے ذریعے دنیا تک اپنا سامان پہنچانے والے چین کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرے۔ جاپان بھی بے تحاشہ تاریخی وجوہات کی بنا پر پیش بندی کی ان کاوشوں یا سازشوں میں اپنا حصہ ڈالنے کو مجبور ہے۔ بھارت کو یہ زعم ہے کہ امریکہ کی تھپکی سے وہ ان بحری راستوں کا ’’پردھان‘‘ بن سکتا ہے جو تاریخ میں “Indo-Chinese”خطے کا حصہ شمار ہوتے رہے ہیں۔ سرکریک کو اپنا حصہ بتا کر پاکستان نے اسے یاد دلانے کی کوشش کی ہے کہ سائوتھ چائنا پر نگاہ ڈالنے سے قبل وہ اپنے ’’پچھواڑے‘‘ پر بھی توجہ دے۔ ریاستِ پاکستان نے درحقیقت ’’نئے نقشے‘‘ کے اجراء کے ذریعے دنیا کو باور کروایا ہے کہ بحری راستوں پر اجارہ حاصل کرنے کی جو نئی کش مکش شروع ہوئی ہے وہ بھی اس کا ایک اہم فریق ہے۔ سمندر کے ساتھ ہماری زمین کراچی سے شروع ہوکر جیوانی تک 1100کلومیٹر لمبی ہے۔ اس پٹی پر گوادر بھی ہے جسے چین جدید ترین بندرگاہ میں تبدیل کر رہا ہے۔ اتنی طویل پٹی کے ہوتے ہوئے ہماری سمندری حدود کا تعین بھی ضروری ہے۔ سمندری حدود کے حوالے سے  Exclusive Economic Zonesکا تذکرہ بھی ہوتا ہے۔ بحری تجارت کے علاوہ یہ زونز آپ کو سمندر کی تہہ سے تیل وگیس کی تلاش کا حق بھی دیتے ہیں۔ ماہی گیری کے لئے مختص حدود کا تعین اپنی جگہ ضروری ہے۔ 14اگست 2020کو جاری ہوا پاکستان کا ’’نیا نقشہ‘‘ میری دانست میں فقط کشمیر پر ہمارے ’’حق ملکیت‘‘ کا اعادہ نہیں ہے۔ جوناگڑھ اور سرکریک کے تذکرے نے اس کا Strategicکینوس وسیع تر بنادیا ہے۔ سوشل میڈیا پر حاوی پھکڑپن اور یوٹیوب پر چھائے ’’ماہرینِ دفاعی اور خارجہ امور‘‘ کے یاوہ گوئی پر مبنی خطبات کے ذریعے اس کینوس کی گہرائی اور مضمرات کا ہرگز اندازہ نہیں ہو پائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments