جمہوری حکومت کے آمرانہ اطوار



عجیب جمہوریت ہے جس میں صرف آمریت کے رنگ نمایاں ہیں۔ ملکی تاریخ سے واقفیت رکھنے والا شخص میری اس بات سے کسی نہ کسی حد تک ضرور اتفاق کرے گا کہ موجودہ حکومت میں ضیاء دور حکومت کی واضح جھلک نظر آتی ہے۔

اگر معاشی صورتحال پر نظر دوڑائی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ موجودہ حکومت گزشتہ آمرانہ حکومتوں کے نقش قدم پر چل رہی ہے، قرضے تو بہر حال پاکستان کی ہر حکومت نے لیے لیکن جمہوری حکومتوں میں معیشت کو پیروں پر کھڑا کرنے کی کچھ نہ کچھ حد تک کوشش ضرور کی جاتی رہی، عوام کو بجٹ میں ممکنہ حد تک ریلیف پیکجز دیے جاتے رہے اور جن موٹر ویز، لیپ ٹاپ اسکیم اور بینظیر انکم پروگرامز کو کوسا جاتا رہا موجودہ حکومت میں ایسے معاشی اور فلاحی بہبود کے پروگرام کا تصور ہی سنہرے خواب جیسا معلوم ہوتا ہے یہاں تو حال یہ ہے کہ کافی عرصہ پہلے فلاحی پروگرام کے نام پر عوام کو جو لنگر سے کھانا کھلانے کا اعلان کیا گیا تھا اب اس کا بھی کچھ علم نہیں کہ وہ سہولت عوام کو کس مقدس جگہ پر میسر ہے۔

جس طرح آمریت میں محض قرضے لے لے کر ملک کو چلایا گیا اور اقتصادی اصلاحات کو یکسر فراموش کر دیا گیا اور قرضوں اور اس کے سود کا ملبہ بعد میں آنے والی حکومتوں پر ڈال دیا گیا اسی طرح حالیہ حکومت میں بھی کسی طرح کی اقتصادی اصلاحات تاحال دیکھنے میں نہیں آئی ہیں اور جہاں تک قرضوں کی بات ہے، ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرض رواں سال آئی ایم ایف سے لیا جا چکا ہے جس کے نتیجے میں مہنگائی نے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کر لی ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے عزیز جناب جہانگیر ترین صاحب کی اربوں روپے کی کرپشن سامنے آنے کے باوجود عوام کو حساب دینا تو دور عوام کی سننے والا ہی کوئی نہیں۔

آمریت کی ہی ایک خصوصیت ”زباں بندی“ ہے جس میں ہر سوال کرنے والے، بولنے والے کے لب یا تو ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیے جاتے ہیں یا پھر کچھ اس طرح سیے جاتے ہیں کہ دوبارہ کھل نہ سکیں۔ یہی رویہ ہمیں اس نام نہاد جمہوری حکومت میں دکھائی دیتا ہے جس میں ٹٹ پونجیے صحافیوں کو خرید کر حکومت کی شان میں قصیدے پڑھوائے جاتے ہیں اور اختلاف رائے رکھنے والے صحافیوں کی زباں بندی کے لئے ہر ممکن ہتھکنڈا اختیار کیا جا رہا یے اس سلسلے میں جنگ گروپ کے بانی میر شکیل الرحمان صاحب کی عرصہ دراز سے گرفتاری قابل ذکر ہے جن کو تقریباً چھ مہینے سے بنا کسی ثابت شدہ جرم کے حراست میں رکھا ہوا ہے اور جب اس بارے میں استفسار ہو تو نیب کو خود مختار ادارہ قرار دے کر کسی بھی قسم کے مزید سوال جواب سے جان چھڑا لی جاتی یے۔

کافی عجیب خود مختاری ہے جو وزیراعظم صاحب کے دوست احباب کی ثابت شدہ کرپشن پر تو خاموش رہتا ہے البتہ اختلاف رائے رکھنے والے صحافیوں کو بنا کسی جرم کے نظر بند کر رہا ہے اور جمہوری حکومت ان مسائل پر بات کرنے کو تیار ہی نہیں۔ زباں بندی کے لیے مختلف طریقے اپناتے ہوئے پی ٹی آئی کی جمہوری حکومت نے کئی ایسے قوانین تشکیل دیے ہیں جن میں عوام کا حق رائے دہی کا ہر ممکنہ اور غیر ممکنہ حد تک استحصال ہو سکے۔

سب سے اہم اور قابل غور نکتہ یہ ہے کہ جیسے آمروں کے پاس ذاتی طور پر عوام کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہوتا اور وہ اپنی نا اہلی کو مذہب کا پرچار کر کے چھپابے پر مجبور ہوتے ہیں اسی طرح موجودہ حکومت بھی مذہب کارڈ استعمال کر کے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش میں مشغول ہے۔ کبھی اسامہ بن لادن جیسے دہشت گرد کو شہید کا درجہ دے کر، کبھی اسلام آباد میں مندر کی تعمیرات روک کر اور کبھی ایک نصاب تشکیل دینے کی آڑ میں اقلیتوں کے حقوق غصب کر کے خود کو مذہبی حکومت کے طور پر پیش کر کے عوام کی آنکھ میں دھول جھونکا جا رہا ہے ان ہتھکنڈوں کا استعمال ہمیں تاریخ کے ان صفحوں تک لے جاتا ہے جب ضیاء حکومت میں جھوٹا مذہبی کارڈ کھیل کر ایسی اصلاحات تشکیل دی تھیں جن سے ملک سو سال پیچھے جا کھڑا ہوا تھا۔

یہ حالات تو ابھی محض دو سال تک حکومت کے بعد کے ہیں۔ ابھی بھی وقت ہے کہ حکومت اور وزیراعظم صاحب اپنے آمرانہ اطوار سے ہٹ کر تنقید کو اصلاح کے لئے استعمال کریں۔ ہر سوال کرنے والے پر کفر اور غداری کا فتویٰ عائد کرنے والی روایت کو توڑا جائے اور ایسے شر انگیز عناصر جو ایسے کریہہ اقدامات میں ملوث ہوں ان کو سخت ست سخت سزا دے کر جرم کی کمر توڑی جائے۔ ملک کو مزید قرضے تلے دبانے، مذہبی انتشار کو بڑھاوا دینے اور عوام کے جذبات کو کچلنے کے بجائے جمہوریت کی صحیح تعریف کو اپنایا جائے ورنہ خدانخواستہ یہ ملک دوبارہ سو سال پیچھے جانا برداشت نہیں کر سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments