مطیع اللہ جان کیس: پولیس کو ابھی تک جدید تقاضوں کے مطابق تفتیش کرنا نہیں آئی، چیف جسٹس کے ریمارکس


منگل کو اسلام آباد سے اغوا ہونے والے صحافی مطیع اللہ جان

پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے صحافی مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا کے متعلق درج مقدمے میں اسلام آباد پولیس کی جانب سے اب تک کی جانے والی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس اس مقدمے میں خط و کتابت سے آگے نہیں بڑھی ہے۔

چیف جسٹس نے وفاقی دارالحکومت کی پولیس کے سربراہ عامر ذوالفقار کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’آپ نے تفتیش سے متعلق خود کچھ سیکھا نہ اپنے ماتحتوں کو سکھا سکتے ہیں۔‘

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جمعرات کو صحافی مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا اور ان کو توہین عدالت سے متعلق اظہار وجوہ کے معاملے پر از خود نوٹس کی سماعت کی۔

اسلام آباد پولیس کے سربراہ کی طرف سے اس مبینہ اغوا کے بارے میں اب تک کی جانے والی تفتیش کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی تو بینچ کے سربراہ نے اس رپورٹ کو دیکھ کر کمرہ عدالت میں موجود آئی جی سمیت دیگر اعلیٰ افسران پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ ’بدقسمتی ہے پولیس کو ابھی تک جدید تقاضوں کے مطابق تفتیش کرنا نہیں آئی۔‘

چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے کی تفتیش میں مختلف اداروں کے ساتھ خط و کتابت کا کیا مقصد ہے؟

اُنھوں نے کہا کہ پولیس کی جانب سے اس مقدمے میں ملوث افراد کے بارے میں معلومات کیوں اکٹھی نہیں کی گئیں؟

یہ بھی پڑھیے

مطیع اللہ جان سے اغواکاروں کا سوال: ’کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کو کس نے اغوا کیا؟‘

مطیع اللہ جان اغوا کیس کی تفتیش میں محکموں کے جواب کا انتظار ہے: پولیس رپورٹ

‘اغوا کاروں نے جب جھاڑیوں میں پھینکا تو کلمہ پڑھنا شروع کر دیا تھا’

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تحقیقات کے دوران وقت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور اگر دس منٹ بھی نکل جائیں تو ثبوت ضائع ہو جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ اسلام آباد پولیس کی طرف سے سپریم کورٹ میں جو رپورٹ جمع کروائی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ اس مقدمے کی تفتیش کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی ہے جو اس مقدمے کی تفتیش کر رہی ہے۔ اس عبوری رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اغواکاروں کو تلاش کیا جا رہا ہے اور مختلف محکموں سے طلب کی گئی تفصیلات کا انتظار ہے۔

پولیس کی طرف سے عدالت میں جمع کروائی جانے والی رپورٹ کے مطابق اغوا کاروں کی شناخت سے متعلق اسلام آباد سیف سٹی پروجیکٹ سے سی سی ٹی وی فوٹیج کی بھی درخواست کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ

چیف جسٹس نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ کس دور میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ صرف لیٹر بازی کرنے اور کرسی گرم کرنے سے کام نہیں ہوتا بلکہ تفتیش کے لیے باہر نکلنا پڑتا ہے۔

آئی جی اسلام آباد نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کروائی کہ وہ اس مقدمے کی تفتیش اور اس واقعہ میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کے لیے تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لے کر آئیں گے۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید نے بھی اسلام آباد پولیس کی طرف سے پیش کی جانے والی تفتیشی رپورٹ پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کو اس معاملے میں پیشہ وارانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس رپورٹ کے بعد نادرا اور ایف آئی اے سمیت تمام اداروں کو ساتھ ملایا ہے۔

چیف جسٹس نے اس تفتیشی ٹیم کے سربراہ ڈی آئی جی آپریشن وقار الدین کو مختلف اداروں سے معلومات حاصل کرنے کے لیے خط و کتابت سے روک دیا اور اُنھیں حکم دیا کہ جس ادارے سے معلومات لینی ہیں وہاں جا کر بیٹھ جائیں اور تفتیش کو جلد از جلد مکمل کریں۔

عدالت نے اسلام آباد پولیس کو مطیع اللہ جان کے اغوا کے مقدمے کی تفتیش چار ہفتوں میں مکمل کرکے رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔

توہین عدالت پر از خود نوٹس

صحافی مطیع اللہ جان کے خلاف توہین عدالت سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے مذکورہ صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے ابھی تک عدالت کی طرف سے دیے گئے نوٹس پر جواب جمع کیوں نہیں کروایا۔

مطیع اللہ جان نے جواب دیا کہ عید کی چھٹیوں اور پولیس تفتیش کی وجہ سے جواب تیار نہیں کر سکا۔

چیف جسٹس نے مذکورہ صحافی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جواب میں جتنی تاخیر آپ کریں گے اس کا نقصان آپ کو ہو سکتا ہے۔

عدالت نے مطیع اللہ جان کو جواب تیار کرنے اور وکیل کرنے کے لیے چار ہفتوں کی مہلت دے دی۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ نے مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا کے بارے میں پولیس کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس حکام میں اتنی جرات نہیں ہے کہ وہ حساس اداروں سے اس واقعہ سے متعلق معلومات حاصل کرسکیں۔

پی ایف یو جے سکریٹری جنرل پی ایف یو جے ناصر زیدی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تنظیم نے مطیع اللہ جان کیس میں فریق بننے کا فیصلہ کیا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ توہین عدالت کا نوٹس ایک ٹویٹ پر لیا گیا ہے اور اس فیصلے سے سوشل میڈیا کا مستقبل جڑا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل انیس اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔

ناصر زیدی کا کہنا تھا کہ پی ایف یو جے کا موقف ہے کہ اس معاملے ہر فیصلے سے پہلے آرٹیکل انیس پر ہمیں بھی سنا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp