حکومت کی ناکام کشمیر پالیسی کی پہلی برسی


مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے انڈیا میں ضم کرنے کا ایک سال مکمل ہونے کے موقع پرپاکستان اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان میں سرکاری طور پر 5 اگست کو ”یو استحصال“ ، یوم سیاہ کے نام سے منایا گیا۔ اس سے ایک دن پہلے وزیر اعظم عمران خان نے گلگت بلتستان، آزاد کشمیر سمیت مقبوضہ جموں و کشمیر کے خطے پاکستان میں ظاہر کرنے والا ایک نقشہ جاری کرتے ہوئے پاکستان کے اس نقشے کو سیاسی نقشہ قرار دیتے ہوئے تعلیمی نصاب میں شامل کرنے اورعالمی اداروں کو ارسال کرنے کی بات کی۔

اس سے ایک دو دن پہلے حکومت کی طرف سے اسلام آباد کی ”شاہراہ کشمیر“ کا نام تبدیل کر کے ”شاہراہ سری نگر“ رکھ دیا گیا۔ اس طرح مقبوضہ جموں وکشمیر کو انڈیا میں مدغم کرنے کا ایک سال مکمل ہونے کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی تینوں اقدامات ایک مذاق بنے اور وسیع پیمانے پر اس پر تنقید بھی سامنے آ رہی ہے۔

اس دن کو ”یوم استحصال“ قرار دینے کا مشورہ دینے والی شخصیت کی انگریزی شاید اتنی اعلی پائے کی ہے کہ اردو سے ان کی شناسائی کم معلوم ہوتی ہے، ورنہ وہ لفظ استحصال کے معانی اور تشریح سے ضرورآگاہ ہوتی۔ نئے پاکستان کی اصطلاح متعارف کرانے کی طرح ہی پاکستان کے نقشے میں مقبوضہ جموں و کشمیر کو پہلی بار شامل کرنے کادعوی کرتے ہوئے اسے پاکستان کے سیاسی نقشے کانام دیا گیا۔ موجودہ حکومت سے پہلے تک پاکستان کے سرکاری نقشوں میں تمام متنازعہ ریاست جموں و کشمیر پاکستان کے ساتھ شامل تھی۔ سروے آف پاکستان کے جاری کردہ نقشوں میں بھی تمام متنازعہ ریاست کو پاکستان کے ساتھ شامل کیا گیا ہے۔ اب پاکستان کے پرانے سرکاری نقشے اور عمران خان حکومت کے سیاسی نقشے میں فرق کیا ہے؟

پہلے سرکاری نقشے میں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو پاکستان کے زیر انتظام اور مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر لکھا ہوتا تھا۔ اب عمران خان حکومت کے جاری نئے نقشے میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے خطوں پہ تحریر پاکستان زیر انتظام کا لفظ ختم کر دیا گیا ہے، آزاد کشمیر کے خطے پہ ”اے جے اینڈ کے“ (آزاد جموں و کشمیر) اور گلگت بلتستان کے علاقے پہ گلگت بلتستان ہی لکھا ہے۔ یوں ایک تبدیلی یہ بھی کی گئی ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پہ لکھا گیا پاکستان کے زیر اتنظام کا لفظ ختم کر دیا گیا ہے۔

جبکہ پاکستان حکومت کا عرصہ دراز سے یہی سرکاری موقف ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو تسلیم کرتا ہے اور اسی کی رو سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو پاکستان کے زیر انتظام خطے قرار دیا گیا ہے اور اسی طرح مقبوضہ جموں وکشمیر کو بھارتی زیر انتظام کی اصطلاح عالمی اداروں، ملکوں کی طرف سے بھی استعمال کی جاتی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے علاقے پہ بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی جگہ ”انڈیا کے غیر قانونی قبضے والا جموں و کشمیر لکھا ہے اور اس کے نیچے سرخ تحریر میں لکھا ہے کہ“ متنازعہ علاقہ، حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق ہو گا ”۔

آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے خطوں پر یہ جملہ تحریر نہیں کیا گیا ہے کہ“ متنازعہ علاقہ۔ حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق ہو گا ”۔ 1947۔ 48 کی جنگ کشمیر کے بعد متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کو غیر فطری طور پر تقسیم کرنے والی، سلامتی کونسل کے ذریعے قائم کردہ سیز فائر، جسے شملہ سمجھوتے میں لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا، جس کا آخری پوائنٹ گلگت بلتستان کے علاقے میں سیاچن کے قریب پوائنٹ 9862 طے کرتے ہوئے اگلے علاقوں کو ناممکن علاقے تصورکرتے ہوئے ادھورا چھوڑ دیا گیا۔ اسی کو بہانہ بناتے ہوئے انڈیا نے نوے کے دہائی کے شروع میں سیاچن پر قبضہ کر لیا۔ اب نئے نقشے میں پوائنٹ 9862 کو فطری طور پر سیدھا آگے بڑھاتے ہوئے چین کی سرحد کے ساتھ ملایا گیا ہے، جبکہ سیاچن اس وقت بھی انڈیا کے قبضے میں ہے۔ یعنی اس نقشے میں سیاچن پر اپنا قبضہ ظاہر کیا گیا ہے۔

کشمیر کے مسئلے پر انڈیا کی مذمت میں منائے جانے والی اس دن وزیر اعظم عمران خان نے مظفر آباد میں آزاد کشمیر اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی۔ وفاقی وزیر امور کشمیر علی امین گنڈا پور، چیئر مین پارلیمانی کشمیر کمیٹی شہر یار آفریدی اور معید یوسف ممبر نیشنل سیکورٹی کونسل بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے وزیر اعظم پاکستان کی توجہ اس ضرورت کی جانب مبذول کرائی کہ آزاد کشمیر حکومت کو کشمیر کاز کے حوالے سے آزاد کشمیر میں بامقصد بامعنی حکومت ناگزیر ہے، کشمیر سے متعلق فیصلوں میں کشمیریوں کو بھی مشاورت میں شامل رکھا جائے اورمسئلہ کشمیر کے حوالے سے نیشنل سیکورٹی کونسل کے اجلاسوں میں بھی آزاد کشمیر حکومت کی نمائندگی اور مشاورت ہونی چاہیے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے آزاد کشمیر میں رہنے والے کشمیری مہاجرین کے گزارہ الاؤنس میں اضافے کی ضرورت کی طرف بھی وزیر اعظم عمران خان کی توجہ مبذول کرائی۔

وزیر اعظم عمران خان نے اسمبلی اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے مایوس نہ ہونے کی بات کی اور گزشتہ ایک سال کے دوران کشمیر کے حوالے سے کی گئی اپنی مختلف تقاریر کی باتیں ہی دہرائیں کہ میں نے جنرل اسمبلی تقریر کے علاوہ امریکہ سمیت مغربی ملکوں کو انڈیا کے کشمیر سے متعلق عزائم کے بارے میں بتایا، مولانا فضل الرحمان کے دھرنے کی وجہ سے کشمیر مسئلے پر ہمارا فوکس ٹوٹ گیا۔ انہوں نے سینئر حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کوستارہ پاکستان کا اعزاز دینے کا اعلان کیا اور پاکستان کے نئے ”سیاسی نقشے“ کا تذکرہ بھی کیا۔ تاہم وزیر اعظم پاکستان نے وزیر اعظم آزاد کشمیر کی طرف سے کشمیریوں کی مشاورت اور مہاجرین کے گزارہ الاؤنس کے مطالبات کو نظر انداز کیا۔ وزیر اعظم عمران خان اپنی تقریر میں کوئی نئی بات نہ کر سکے۔

اسی روز مجھے پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں کشمیر کے حوالے سے گفتگو کا موقع ملا۔ پروگرام میں میزبان عائشہ مسعود کے ساتھ مکالمے کے انداز میں گفتگو ہوئی۔ 5 اگست 2019 کو انڈیا کی طرف سے مسئلہ کشمیر پرامن طور پر حل کرنے سے متعلق پاکستان کے ساتھ باہمی معاہدات، اقوام متحدہ کے ساتھ اپنے تمام عہد پست پشت ڈالتے ہوئے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے اسے انڈیا میں مدغم کر دیا۔

اس وقت آزاد کشمیر میں انڈیا کے اس اقدام کے خلاف عوام میں سیاسی تحریک پیدا ہوئی اور عوام کی طرف سے کنٹرول لائن عبور کرنے کے لئے مارچ بھی کیا گیا تھا۔ اس وقت ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ آپ نے کچھ نہیں کرنا ہے، ہم نے کوئی ایسا کام نہیں کرنا ہے کہ جس سے انڈیا کو ہم پر حملہ کرنے کا بہانہ مل جائے۔ بجائے اس کے کہ ہم کچھ کرتے، الٹا ہمارے ہاتھ پاؤں باندھ دیے، سیاسی سرگرمی سے بھی ہمیں روک دیا گیا۔ کشمیر سے متعلق انڈیا کے اقدام پرہم ایک سال انتظار ہی کرتے رہے۔

کسی نے خوبصور ت بات کہی کہ آج کشمیریوں کے ساتھ یوم یکجہتی ہے، انڈیا کے خلاف یوم سیاہ بھی ہے، اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم عمران خان کی ناکام کشمیر پالیسی کی پہلی برسی بھی ہے۔ یہ پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ پاکستان انڈیا اور عالمی برادری کو یہ باور کرائے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں ڈیموگریفک چینجز کر رہا ہے اور کشمیریوں کو اپنے وطن میں ایک اقلیت میں تبدیل کر نے کے اقدامات کر رہا ہے، کشمیر کو انڈیا میں مدغم کر دیا ہے، اس صورتحال میں پاکستان خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھے گا، ہماری حکومت کشمیر پر رننگ کمنٹری تک محدود ہے، سوشل میڈیا کی بدولت پوری دنیا کو پتہ چل رہا ہے کہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے۔

یہ ایسے ہے کہ جیسے کرکٹ کی رننگ کمنٹری ہو رہی ہے کہ اب انڈیا نے یہ کر دیا، اب یہ کر دیا، ہم نے کچھ نہیں کرنا، انڈیا خود اپنے اقدامات سے خود ڈوب جائے گا۔ ان کے اقدامات مایوس کن ہیں اور کہتے ہیں کہ مایوس نہیں ہونا آپ نے، پاکستانیوں کو بھی یہی کہتے ہیں کہ مایوس نہیں ہونا اور کشمیریوں کو بھی مایوس نہ ہونے کا کہتے ہیں، کچھ کریں تو سہی۔ اس وقت مسئلہ کشمیر پاکستان کی اولین ترجیحات میں نظر نہیں آر ہا، منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے، جب سیاسی مسائل پڑتے ہیں تو پھر مسئلہ کشمیر میں ایکٹیو ہو جاتے ہیں، اپنا اخلاص ظاہر کریں، یہ کشمیریوں سے مشاورت بالکل بھی نہیں کرتے، آزاد کشمیر حکومت کو کردار دیں کہ وہ تمام ریاست جموں وکشمیر کی نمائندہ کی حیثیت سے، جب کشمیری خود بات کرے گا باہر جا کر تو اس کا اثر ہو گا۔

ہم کشمیری انڈیا کی دس لاکھ فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں، انڈیا کی 26 انٹیلی جنس ایجنسیوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، کشمیریوں کو آپ بیوقوف نہ سمجھیں کہ وہ بیوقوف ہیں، کوئی ان کو بہکا لے گا، کشمیری بڑے ذہین لوگ ہیں، علامہ اقبال، امام خمینی بھی کشمیری تھے، پاکستان کے کئی علاقوں میں پرانے کشمیری کافی تعداد میں رہتے ہیں، کشمیر کو آپ انڈر ایسٹیمیٹ نہ کریں، ہمیں تو یہ گلہ ہے کہ پاکستان کی انتظامیہ انڈیا کے مائینڈ سیٹ کو نہیں سمجھتے، ہمیں انڈیا کے ہاتھ لگے ہوئے ہیں، ہم انڈیا کو اچھے طریقے سے جانتے ہیں، ہم اس کا مقابلہ کر رہے ہیں، ہمیں معلوم ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔

اور دوسری بات کہ کشمیری اپنے عمل سے بتا رہے ہیں کہ وہ پاکستانی ہیں، ہمیں کیوں بار بار یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہم پاکستانی ہیں؟ ہمیں آپ کو بار بار یقین دہانی کرانا پڑتی ہے؟ پاکستان انتظامیہ جب تک کشمیریوں کی مشاورت کو شامل نہیں کر ے گی، آزاد کشمیر حکومت کو کشمیریوں کی نمائندہ حکومت کا کردار نہیں دے گی، اس وقت تک آپ کا اخلاص ظاہر نہیں ہو سکتا۔

میزبان عائشہ مسعود اور مہمان عظمی گل کی طرف سے کشمیریوں میں باہمی اتفاق کی کمزوری کی بات پر میں نے عرض کیا کہ میں خود تیس چالیس سال سے دیکھتا آ رہا ہوں پاکستان اسٹیبلشمنٹ کا طرز برتاؤ، مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کے ساتھ، مقبوضہ کشمیر کے فریڈم فائٹرز کے ساتھ اور آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ، جو طرز برتاؤ ہے وہ اگر میں کہنا چاہوں تو آپ کا میڈیا اس کی تاب نہیں لا سکے گا۔ ہمیں پاکستان کے عوام سے کبھی کوئی گلہ نہیں رہا، ایک ٹانگے والا، دکاندار، ہر پاکستانی شہری کشمیر کے لئے اپنے بچوں کی بھی قربانی دینے کو تیار ہے۔

پاکستان اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیاں خود پاکستان کے مفاد میں نہیں رہیں، کشمیریوں کے مفاد میں کیا رہیں گی۔ جب آپ نے اپنی مرضی سے کمانڈ کرنی ہے تو اس میں کشمیریوں کی تقسیم ہی انہیں مطلوب ہوتی ہے۔ ہم دانشورملک کے مفاد میں اپنے لوگوں کے مفاد میں بات کرتے ہیں، جو ہماری اسٹیبلشمنٹ میں بیٹھے ہیں، جو حکومت میں لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، وہ کوئی بیوقوف لوگ نہیں ہیں، انہوں نے وہی کرنا ہے جو وہ کر رہے ہیں، جو باتیں ہم کرتے ہیں، وہ باتیں وہ کرنا ہی نہیں چاہتے۔

پاکستان کی حکومتیں اس طرح کا تاثر دیتی آئی ہیں اور ابھی بھی دے رہی ہیں کہ جیسے یہ ”ایل او سی“ کے پار کے کشمیریوں کا کوئی مسئلہ ہے، یہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء کا مسئلہ ہے۔ آج ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم کشمیریوں کے وکیل بنیں گے، یہ وکالت کی بات نہیں یہ اب پاکستان کی بقاء کی جنگ ہے، پاکستان کے استحکام کی جنگ ہے، اگر آج انڈیا جس طرح ساڑھے چار لاکھ ڈومیسائل غیر ریاستی باشندوں کو جاری کر دیے ہیں، دوسرا انڈیا آرمی نے وہاں بے تہاشہ زمینیں قبضے میں لے لی ہیں، مزید زمینیں قبضے میں لے رہے ہیں تا کہ وہاں بڑی انڈسٹریز لگیں گی، ایک ایک انڈسٹری میں تیس، تیس، چالیس، چالیس ہزار کام کرنے والے ہوں گے، وہ کشمیری نہیں ہوں گے، وہ سب انڈیا سے آئیں گے، پانچ، دس سال رہنے کے بعد انہیں بھی کشمیر کا ڈومیسائل دے دیا جائے گا۔

ہم جس طرح ہاتھ پہ ہاتھ رکھے بیٹھے ہیں، محض رننگ کمنٹری کر رہے ہیں، وہاں کشمیری اپنے ہی وطن میں اقلیت بن جائیں گے۔ کشمیر سے آنے والے دریا پاکستان کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، انڈیا کو یہ پوزیشن حاصل ہو گئی ہے کہ وہ کسی بھی وقت ان دریاؤں کا پانی روک کر، ہمیں تین چار ماہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے، انڈیا نے کشمیر میں اتنے ڈیم، بیراج بنا لئے ہیں کہ وہ جس وقت چاہے گا، گرمیوں کے موسم میں ہمیں پانی کی ضرورت ہو گی وہ پانی کو کنٹرول کر لے گا، پھر انہیں یاد آئے گا کہ کشمیر اور پاکستان تو ایک ہی ہے۔ عوام کی رائے کی نمائندہ پارلیمنٹ ہوتی ہے، آپ پارلیمنٹ کو با اختیار بنائیں، ہماری پارلیمنٹ پالیسیوں کے حوالے سے بے بس ہوتی ہے، اس کا کام اب صرف ربڑ سٹیمپ کا رہ گیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments