فیس بُک پر ممبر اسمبلی علی وزیر کی رہائی اور ’چمکتے لانگ بوٹ‘ نامی نظم شیئر کرنے پر نادرا افسر ملازمت سے برطرف


نادرا

تقریباً ایک سال قبل 27 مئی کو جب شہریوں کے کوائف کے اندارج کے قومی ادارے نادرا کے ایک افسر رضا خان سواتی نے آزاد رکن قومی اسملبی علی وزیر اور ان کے دیگر ساتھیوں کی رہائی سے متعلق اپنے فیس بُک اکاؤنٹ سے ایک پوسٹ شیئر کی تو شاید اُس وقت انھیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اس کی انھیں کتنی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

انھوں نے ناصرف علی وزیر کے حوالے سے شائع شدہ خبر شیئر کی بلکہ کمنٹس کے سکیشن میں سندھ کی مزاحمتی سیاست کے ایک بڑے نام رسول بخش پلیجو کی ایک نظم کا اُردو ترجمہ بھی پوسٹ کر دیا۔ سواتی کی پوسٹ کے مطابق اس نظم کا اُردو ترجمہ مشتاق علی شان نے کیا ہے اور کا عنوان ہے ’چمکتے لانگ بوٹ۔‘ رضا خان نے اپنی پوسٹ کے ساتھ ایک ’فوجی بوٹ‘ کی تصویر بھی شیئر کی۔

سندھ کے شہر جامشورو میں نادرا میں سپریٹنڈنٹ کے فرائض انجام دینے والے رضا خان نادرا ورکرز یونین کے عہدے دار بھی تھے اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر اپنے اکاؤنٹس کے ذریعے مزدوروں کے حقوق کی بات بھی کرتے ہیں جبکہ وہ نادرا انتظامیہ کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں سروس کے معاملات پر ہونے والے ایک کیس میں فریق بھی ہیں۔

پاکستان میں سرکاری ملازمین کے حوالے سے روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا استعمال کرنے کے حوالے سے موجود قواعد و ضوابط کیا ہیں اِن پر آگے چل کر بات ہو گی، پہلے پڑھیے کہ رضا خان کے ساتھ پھر کیا ہوا۔

یہ پوسٹس شیئر کرنے کے چند روز بعد یعنی چھ اگست 2019 کو نادرا انتظامیہ کی جانب سے ان پر عائد کردہ الزامات کی ایک فہرست جاری کی گئی۔ انھیں آگاہ کیا گیا کہ سرکاری ملازم ہونے کے ناطے وہ ’غیرقانونی سرگرمی‘ یعنی ’سوشل میڈیا پر عوام کو پاکستانی فوج کے خلاف بھڑکانے‘ میں مبینہ طور پر ملوث ہوئے ہیں۔

رضا خان نے ان تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔

انھیں بتایا گیا کہ وہ ایک ’قومی ادارے‘ کے خلاف مبینہ طور پر ’نامناسب اور غیرقانونی مواد سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘ انھیں یہ بھی بتایا گیا کہ ان کا یہ عمل گورنمنٹ سرونٹس رولز کے تحت ’مس کنڈکٹ‘ کے زمرے میں آتا ہے۔

اس کے بعد نادرا انتظامیہ کی جانب سے اسی روز جاری ہونے والی چارج شیٹ میں اگرچہ ’پاکستانی فوج کے خلاف بھڑکانے‘ جیسے الزام کا ذکر تو نہیں تاہم سوشل میڈیا پر ’قابلِ اعتراض مواد‘ شیئر کرنے اور سیاسی نوعیت کے ٹرینڈ میں شمولیت اختیار کرنے کے الزامات برقرار رہے۔

اسی روز اس معاملے کی تحقیق کے لیے نادرا انتظامیہ کی جانب سے ایک تین رکنی انکوائری کمیٹی کی تشکیل کا اعلان بھی کیا گیا۔

انکوائری چلتی رہی اور 19 نومبر 2019 کو رضا خان کو شوکاز نوٹس جاری کر دیا گیا جس میں کہا گیا کہ ’پس یہ ثابت ہو گیا کہ آپ (رضا) سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو فوج کے خلاف بھڑکانے میں ملوث پائے گئے ہیں۔۔۔‘ شوکاز میں بتایا گیا کہ رضا خان کا یہ عمل گورنمنٹ سرونٹس کنڈکٹ رولز 1964 کی خلاف ورزی ہے۔ شوکاز میں کہا گیا کہ اس مس کنڈکٹ کا ارتکارب کرنے پر ’کیوں نہ آپ کو نوکری سے برخاست کر دیا جائے؟‘

ساتھ ہی ملزم افسر کو سات دن کے اندر اندر اپنی آخری صفائی پیش کرنے کا کہا گیا۔

’وہ بوٹ تو انڈین فوج کا تھا‘

رضا خان کی جانب سے نادرا میں جمع کروائے جانے والے جواب میں ان تمام الزامات کی ناصرف سختی سے تردید کی گئی ہے بلکہ انھوں نے کہا ہے کہ وہ ایک محب وطن شہری ہیں جو ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔

انھوں نے کہا کہ درحقیقت جو بوٹ انھوں نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا تھا وہ انڈین فوج کا تھا اور اس کے ذریعے وہ یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ کیسے انڈین فوج کشمیر سے مسلمانوں کو بے دخل کرنے کے حربے استعمال کر رہی ہے۔

رسول بخش پلیجو کی نظم سے متعلق ان کا موقف تھا کہ یہ نظم سوشل میڈیا پر پہلے سے موجود ہے اور اس پر ابھی تک کسی بھی اتھارٹی نے کوئی پابندی عائد نہیں کر رکھی ہے۔

رسول بخش پلیجو

رسول بخش پلیجو کا انتقال سنہ 2018 میں ہوا تھا

رضا خان نے لکھا کہ وہ ملک کے ایک وفا شعار شہری ہیں اور وہ ہر سال 23 مارچ، 14 اگست اور چھ ستمبر خوب جوش و جذبے کے ساتھ مناتے ہیں اور اس حوالے سے سوشل میڈیا پر تصاویر اور مواد بھی شیئر کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا ان خصوصی ایام پر ان کی جانب سے شیئر کی جانے والی تصاویر اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ غدار نہیں ہیں۔

ان کے مطابق اتنے واضح ثبوت کے باوجود نادرا انتظامیہ کے کچھ عناصر انھیں ادارے سے بے دخل کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

نوکری سے فراغت

رضا خان کی جانب سے فراہم کردہ جواب سے انتظامیہ مطمئن نہ ہوئی اور 15 جولائی 2020 کو انھیں نوکری سے فراغت کا لیٹر موصول ہو گیا۔

اس لیٹر میں لکھا تھا کہ ان کے خلاف تمام الزامات ثابت ہو گئے ہیں اور سنہ 1973 کے گورنمنٹ سروس رولز کے تحت نوکری سے ڈس مِس کیا جاتا ہے۔

نادرا کا کہنا ہے کہ کوئی بھی سرکاری ملازم قومی اداروں کی بدنامی کا باعث بننے والا مواد میڈیا کے کسی بھی پلیٹ فارم پر شیئر نہیں کر سکتا۔

ایک سال کی انکوائری کے بعد نادرا نے رضا خان کو تو برطرف کر دیا مگر یہ سوال اب بھی جواب طلب ہے کہ آخر سرکاری ملازمین کے لیے میڈیا اور سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اظہار رائے سے متعلق کس حد ممانعت ہے اور رضا خان نے کس طرح ان حدود کی خلاف ورزی کی؟

حکومت کے رولز ہیں کیا؟

وفاقی حکومت نے گذشتہ ماہ 23 جولائی کو سرکاری ملازمین کے میڈیا اور سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے۔

اسٹیبلیشمنٹ ڈویژن سے جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ اس ڈویژن کے نوٹس میں یہ بات آئی ہے کہ ضابطے سے ہٹ کر سرکاری ملازمیں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں۔

اس ضابطے سے متعلق گورنمنٹ سروسز رولز 1964 کا حوالہ دیتے ہوئے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی سرکاری ملازم حکومت کی اجازت کے بغیر کسی بھی میڈیا پلیٹ فارم پر آ کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتا۔

‘پالیسی اور پاکستان کی آئیڈیالوجی کے خلاف بات نہیں ہو سکتی

سرکاری ملازمین کو آگاہ کیا گیا ہے کہ ان رولز کے تحت کوئی بھی سرکاری ملازم اس حوالے سے موجود پالیسی اور پاکستان کی آئیڈیالوجی کے خلاف بات نہیں کر سکتے۔

اس میں مزید وضاحت کی گئی کہ ایسی بات نہیں کی جا سکتی جو پاکستان کی سلامتی کے خلاف ہو، دوست ممالک کے ساتھ تعلقات پر اثر انداز ہو سکے یا جو وضع داری سے ہٹ کر ہو۔

عدالتوں میں سروسز کے مقدمات میں پیش ہونے والے سینیئر وکیل شعیب شاہین نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے سروسز رولز میں کچھ ایسی باتیں بھی شامل کر لی ہیں جو پہلے سے ہی آئین اور قانون کا حصہ ہیں اور ان پر ہر پاکستانی شہری کا عمل کرنا ضروری ہے۔

ان کے مطابق آئیڈیالوجی آف پاکستان کے خلاف بات کرنے سے آئین منع کرتا ہے اور اس طرح ججز کی توہین کرنے سے بھی آئین روکتا ہے تاہم یہ ضرور ہے کہ آئین جہاں پابندیاں عائد کرتا ہے وہاں شہریوں کے آزادی اظہار رائے جیسے بنیادی حقوق کا تحفظ بھی دیتا ہے۔

سروس رولز میں یہ کہا گیا ہے کہ کوئی سرکاری ملازم کسی حکومتی فیصلے اور پالیسی کے خلاف عوامی احتجاج کا حصہ نہیں بن سکتا اور نہ فرقہ واریت پھیلانے جیسے پراپیگنڈے کا حصہ بن سکتا ہے۔

‘سروسز رولز پر کبھی عمل ہوتا ہے کبھی نہیں ہوتا‘

شعیب شاہین کا کہنا ہے کہ جہاں تک بات سروسز رولز 1964 کی ہے تو ان پر کبھی عمل ہوتا ہے اور کبھی نہیں ہوتا۔

انھوں نے ایسے بہت سے سرکاری ملازمین کے نام بتائے جو اخبارات میں کالم لکھتے ہیں اور کچھ پالیسی ایشوز پر تنقید بھی کرتے ہیں۔

ان کے مطابق ایسے سرکاری ملازمین جن کو حکومتی پالیسیوں پر عملدرآمد کرانا ہوتا ہے وہ ان پالیسیوں پر عوامی پلیٹ فارمز پر تنقید نہیں کر سکتے اور اس کے لیے ان کے پاس ادارے کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے کا آپشن ہے یا وہ عدالتوں کا رخ بھی کر سکتے ہیں۔

شیعب شاہین کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں وفاقی وزیر ریلوے نے ایک سرکاری ملازم خاتون کے خلاف اخبارات میں لکھنے پر کارروائی کا آغاز کیا تو معاملہ سپریم کورٹ تک پہنچ گیا جہاں عدالت نے معمولی جرمانہ عائد کرنے کے بعد یہ قرار دیا کہ میڈیا پر آ کر تنقید کرنے سے پہلے سرکاری ملازم کے لیے سروسز رولز کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔

شعیب شاہین کے مطابق بعض دفعہ ادارے ان رولز کو اپنے مقاصد کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

ان کے مطابق ملازمین کو یونین سازی اور ایسوسی ایشن کا حق آئین دیتا ہے اور وہ کھل کر اپنی بات کر سکتے ہیں اور ایک دائرے میں رہ کر احتجاج بھی کر سکتے ہیں۔

انکوائری بورڈ جواب سے مطمئن نہ چیئرمین نادرا

رضا خان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپنا مؤقف دیتے ہوئے لکھا کہ ’یہ سب کچھ ان کے خلاف ایک انتقامی کارروائی ہے کیونکہ وہ ادارے میں بڑھتی بدعنوانیوں، لازمی سروسز ایکٹ کے نفاذ اور نادرا حکام کے ملازمین کے خلاف بڑھتے استحصال کے خلاف ہمیشہ ہی سے آواز بلند کرتے رہے اور انھیں یقین ہے کہ وہ آئندہ بھی اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے۔‘

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ رضا خان کو نادرا نے برطرف کیا ہو۔ اس سے قبل وہ تین بار برطرف ہوئے اور ہر بار قانونی کارروائی کے ذریعے دوبارہ بحال ہوئے۔

چیئرمین نادرا عثمان مبین نے اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

تاہم ایک نادرا ترجمان کے مطابق رضا خان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی بلکہ ان کی سرگرمیوں پر ایک سال تک انکوائری ہوتی رہی اور پھر ایک آزاد بورڈ نے ان کی برطرفی کی سفارش کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp