بیروت دھماکوں سے متعلق سوشل میڈیا پر غلط خبریں اور سازشی نظریات کیسے پھیلے؟


بیروت دھماکے

بیروت کی بندرگاہ پر دھماکوں کے چند لمحوں بعد ہی سوشل میڈیا پر اس کے بارے میں خبریں اور اطلاعات آنا شروع ہو گئیں تھیں۔

سوشل میڈیا پر آنے والی بیشتر ویڈیوز مستند تھیں اور انھیں مقامی افراد نے اپنے گھروں سے فلمایا تھا لیکن ان دھماکوں کے فوراً بعد ہی ٹوئٹر اور واٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس دھماکے کی وجوہات اور محرکات کے حوالے سے غلط خبریں اور افواہیں بھی گردش کرنے لگی۔

ان دھماکوں کے بارے میں سوشل میڈیا پر کون سی غلط اطلاعات پھیلی تھی؟

یہ بھی پڑھیے

’بیروت رو رہا ہے، چیخ رہا ہے اور لوگ غصے میں ہیں‘

بیروت دھماکہ: امونیم نائٹریٹ کیا ہے اور یہ کتنا خطرناک ہے؟

بیروت: ’بکھرے ہوئے شیشے، کانپتی عمارتیں اور زوردار دھماکہ‘

آتش بازی سے ایٹمی بم تک

بیروت دھماکے

بیروت دھماکوں کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی تھی جس میں آغاز میں چھوٹے پیمانے پر آگ لگتے اور کم نوعیت کے دھماکے ہوتے نظر آئے اور بعد میں ایک بڑا دھماکہ ہوا جس کے بعد ٹوئٹر پر ایسی ٹویٹس کی گئی کہ یہ دھماکہ ایک آتش بازی کا سامان بنانے والی فیکٹری میں ہوا ہے۔

آتش بازی کے باعث دھماکے ہونے کی خبریں ابتدا میں قابل فہم لگی تھی لیکن دیگر وائرل ٹویٹس میں یہ کہا گیا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ ایٹمی بم کی وجہ سے ہوا ہے کیونکہ فوٹیج میں سفید مشروم نما دھوئیں کا بادل اٹھتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

وہ ٹویٹ جس میں یہ کہا گیا تھا کہ یہ ‘ایٹمی’ دھماکہ تھا ایک مستند ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی گئی تھی جس کے ایک لاکھ سے زائد فالور تھے اور اس کو ہزاروں مرتبہ شیئر اور لائیک کیا گیا۔ تاہم بعد میں اس ٹویٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا تھا۔

ہتھیاروں کے ماہرین نے فوراً اس ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ایٹمی دھماکہ ہوتا تو اس سے آنکھیں چندھیانے والی روشنی پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی گرمی پیدا ہوتی کہ لوگ بری طرح جھلس جاتے۔

اسی طرح مشروم نما دھوئیں کا بادل بننا صرف ایٹمی بم کی وجہ سے نہیں ہوتا۔ ماہرین کے مطابق اس طرح کا دھوئیں کا بادل ہوا میں نمی کے دباؤ کی وجہ سے بھی بنتا ہے جو ہوا میں موجود پانی کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بادل بنا دیتا ہے۔

‘بم یا میزائل حملہ’

اسی طرح ان دھماکوں کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر بے بنیاد الزامات بھی گردش کرتے رہے جن میں امریکہ، اسرائیل یا حزب اللہ کو اس حملے کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ ان ٹوئٹس کو مختلف گروہوں کی حمایت یافتہ نیوز ویب سائٹس کے ساتھ ساتھ عوامی شخصیات نے بھی سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔

انسٹی ٹیوٹ فار سٹرٹیجک ڈائیلوگ کی تحقیق کے مطابق ان سازشی نظریات کو انتہائی دائیں جماعت سے تعلق رکھنے والے گروہوں نے بھی فیس بک، فور چین، ریڈاٹ سمیت ٹیلی گرام جیسے دیگر سوشل میڈیا مسیجز پلیٹ فارمز پر ان ٹویٹس اور خیالات کو فروغ دیا۔

بیروت دھماکے

ان پیغامات میں ان غلط دعوؤں پر توجہ مرکوز کروائی گئی کہ یہ اسرائیل کی جانب سے کیا گیا بم یا میزائل حملہ تھا جس کا مقصد حزب اللہ کے ہتھیاروں کے ڈِپو کو تباہ کرنا تھا۔

انسٹی ٹیوٹ فار سٹرٹیجک ڈائیلوگ کی کولوئے کولیور نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ہم نے دیکھا ہے کہ اس وقت بھی انھیں ذرائع نے غلط معلومات پھیلائی جو پہلے بھی ایسے بے بنیاد دعوے کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان میں انتہائی دائیں بازو کے شدت پسند آن لائن نیٹ ورکس بھی شامل ہیں جو دھماکے کی نوعیت اور اس کے محرکات کے بارے میں بے بنیاد دعوے پھیلا رہے تھے۔’

انھوں نے مزید بتایا کہ ‘ان سازشی نظریات میں اس دھماکے کا تعلق اسرائیل اور دیگر ممالک سے جوڑنے کی کوشش بھی کی گئی۔’

لبنان اور اسرائیل کے حکام نے ان خبروں کو مسترد کر دیا ہے کہ اسرائیل کا اس واقعے سے کوئی لینا دینا ہے۔

کیو آنان سمیت انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سازشی نظریات کے گروہوں نے اس دھماکے کے متعلق غلط خبریں اور اطلاعات فیس بک پر بھی پھیلانی شروع کر دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ حملہ ‘اس جنگ سے منسلک ہے جو حکومت اور مرکزی بینکنگ کے نظام کے درمیان چل رہی ہے۔’

کیو آنان بڑے پیمانے پر پھیلایا جانے والا ایک بے بنیاد سازشی نظریہ ہے جس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حکومت، کاروبار اور میڈیا میں بچوں سے بدفعلی کرنے والے شیطان کے پوجاریوں کے خلاف ایک خفیہ جنگ لڑ رہے ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے 2018 میں دھماکے کی جگہ کی نشاندہی کی تھی؟

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو

منگل کو بیروت میں ہونے والے دھماکے کے فوراً بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی سنہ 2018 کے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے خطاب کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے یہ دعوے کیے گئے کہ ان میں وہ دھماکے کے مقام کا ذکر کر رہے ہیں۔

بعض سوشل میڈیا صارفین اس تصاویر کو بطور ‘ثبوت’ پیش کرتے رہے کہ اس دھماکے میں اسرائیل کا ہاتھ ہے۔

تاہم یہ تصاویر اصلی اور درست تھیں لیکن انھیں یہاں بنا سیاق و سباق کے استعمال کیا گیا تھا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے دراصل بیروت میں کسی اور ضلع کا حوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیا تھا کہ حزب اللہ نے وہاں ہتھیار چھپا رکھے ہیں۔ جبکہ دھماکے کا مقام اس جگہ سے چند کلومیٹر شمال میں واقع ہے جس کا نین یاہو نے نقشے پر حوالہ دیا تھا۔

امریکی صدر ٹرمپ کا تبصرہ

امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی پریس کانفرنس میں اس واقعے کو ‘ایک خوفناک حملہ’ قرار دینے کے بعد ممکنہ حملے سے متعلق افواہوں نے تیزی پکڑ لی تھی۔

انسٹی ٹیوٹ فار سٹرٹیجک ڈائیلوگ کی تحقیق میں اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ سوشل میڈیا پر انتہائی دائیں بازو کے گروپوں کی جانب سے صدر ٹرمپ کے تبصرے کو شیئر اور ایڈٹ کیا جاتا رہا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ یہ دھماکہ دہشت گرد یا بم حملہ تھا۔

امریکی صدر ٹرمپ

ٹیلی گرام پر ایک پوسٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ‘یہ انتہائی ہولناک دہشت گردی کا حملہ لگتا ہے’ جبکہ دراصل انھوں نے کہا تھا کہ یہ ایک ‘خوفناک حملہ’ معلوم ہوتا ہے۔

مس کولیور کا کہنا ہے کہ ‘ہم نے دھماکے کے بارے میں صدر ٹرمپ کے بیان کو ‘حملہ’ قرار دینے والے دعوؤں کا بھی مشاہدہ کیا، ان دعوؤں نے گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران سازشی نظریات اور غلط خبریں پھیلانے والے طبقوں کو بحران کے دوران غلط زبان استعمال کرتے ہوئے بطور ایندھن فراہم کیا۔’

اسی طرح ایک اور سوشل میڈیا پوسٹ میں یہ بے بنیاد دعویٰ کیا گیا کہ صدر ٹرمپ کے تبصرے سے یہ تاثر ملتا ہے کہ امریکہ کو اس دھماکے کے متعلق پہلے ہی خبردار کر دیا گیا تھا۔

یہاں یہ بات یاد رکھنا اہم ہے کہ بریکنگ نیوز والے واقعات غلط خبروں اور افواہوں کے آن لائن پھیلاؤ کا بہترین وقت ہوتے ہیں اس لیے آپ بھی کچھ بھی شیئر کرنے سے پہلے ایک بار ضرور سوچا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32507 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp