گھریلو تشدد کا شکار افغان خاتون کی کہانی جن کے شوہر نے ’غیرت کے نام پر‘ اُن کی ناک کاٹ دی


زرقا

زرقا کا مقامی سطح پر علاج شروع ہوا لیکن یہ ناکافی تھا اور وہ اپنی ناک کی سرجری کروانا چاہتی تھیں

انتباہ: اس رپورٹ میں چند ایسی تصاویر اور پُرتشدد واقعات کی تفصیلات شامل ہیں جو ہمارے پڑھنے والوں کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔

دس ہفتوں سے زیادہ عرصے تک تکلیف برداشت کرنے کے بعد بالآخر زرقا کو امید کی ایک کرن نظر آئی۔

اپنے ہاتھ میں پکڑے ایک چھوٹے سے آئینے میں اب وہ اپنی ناک دیکھ سکتی ہیں۔ اُن کی ناک خون کے چھینٹوں اور ٹانکوں سے بھری ہوئی ہے لیکن پھر بھی اسے دیکھ کر ہ بہتر محسوس کرتی ہیں۔

دو ماہ قبل زرقا کے شوہر نے اُن کے چہرے پر چاقو سے وار کر کے ان کی ناک کاٹ دی تھی۔

جب ڈاکٹر نے ان کے چہرے پر بندھی پٹی کھولی تو اپنی ناک وہاں موجود پا کر زرقا نے کہا ’میں خوش ہوں۔ مجھے میری ناک واپس مل گئی ہے۔ یہ اچھا ہے، بہت اچھا ہے۔‘

زرقا ہاتھ میں پکڑے ہوئے شیشے کی مدد سے اپنے چہرے پر لگائی گئی ناک کو دیکھ دیکھ کر خصش ہو رہی تھیں۔

یہ بھی پڑھیے

لاک ڈاؤن میں گھریلو تشدد: ’کہتے ہیں شور مت مچاؤ، پڑوسی کیا کہیں گے‘

روس:باپ کو قتل کرنے والی بہنوں کے لیے ہمدردی کی لہر

گھریلو تشدد سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

افغانستان میں خواتین پر گھریلو تشدد عام ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک سروے کے مطابق افغانستان میں 87 فیصد خواتین نے اپنی زندگی میں کسی نہ کسی موقع پر جسمانی، جنسی یا نفسیاتی تشدد کا سامنا کیا ہے۔

گھریلو تشدد کے بدترین واقعات میں زیادہ تر شوہر یا اپنے ہی مرد رشتہ داروں کی جانب سے خواتین پر تیزاب پھینکنا یا چاقو سے حملہ کرنا شامل ہے۔

آخری مرتبہ جب زرقا کے شوہر نے انھیں تشدد کا نشانہ بنایا تھا تو اس دوران انھوں نے جیب سے چاقو نکال کر زرقا کی ناک بھی کاٹ دی تھی۔

Dr Zalmai inspecting Zarka's wounds

Dr Zalmai Khan Ahmadzai
زرقا جب ڈاکٹر زلمی سے ملی تو ان کے زخم خراب ہو چکے تھے

زرقا کی شادی کو دس سال ہو چکے ہیں اور اُن کا چھ سال کا بیٹا بھی ہے۔

28 سالہ زرقا لگ بھگ روزانہ کی بنیاد پر شوہر کی جانب سے ہونے والی مار پیٹ کی عادی ہو گئی تھیں لیکن انھیں یہ بالکل معلوم نہیں تھا کہ بات اس حد تک بڑھ جائے گی۔

ان پر اکثر مختلف قسم کے الزامات لگانے کے بعد انھیں مارا پیٹا جاتا۔ انھوں نے بتایا کہ اُن کا شوہر انھیں بدکردار کہتا تھا اور وہ اسے کہتی تھیں کہ یہ درست نہیں ہے۔ ’میرا شوہر ہر بات پر شک کرتا تھا۔‘

زرقا نے بی بی سی کو اس بات کی اجازت دی کہ وہ ان کی صحتیابی تک کے سفر کی کوریج کرے۔ اس دوران بی بی سی سے کی گئی بات چیت میں انھوں نے گھریلو تشدد کے وہ واقعات بھی بیان کیے جن کا اختتام ان کی ناک کٹنے پر ہوا۔

تین گھنٹے تک جاری رہنے والے آپریشن کے دوران زرقا ہوش میں تھیں اور اُن کے چہرے کو سُن کر دیا گیا تھا۔

زرقا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’آج جب میں شیشہ دیکھتی ہوں تو میری ناک بالکل ٹھیک ہو گئی ہے۔‘

زرقا

ڈاکٹر زلمی نے یہ آپریشن مفت کیا ہے

انھوں نے کہا کہ آپریشن سے پہلے بہت بُرا لگ رہا تھا۔

کئی دہائیوں کی جنگ سے تباہ حال ملک میں ڈاکٹر زلمی خان احمد زئی ان چند سرجنز میں شامل ہیں جو اس قسم کے آپریشن کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر زلمی احمد زئی زرقا کے زخم بھرنے کی رفتار سے بہت خوش ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ زرقا کا آپریشن بہت کامیاب رہا اور کوئی انفیکشن نہیں ہوا۔ تھوڑی بہت سوجن تھی جو کہ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔

گذشتہ ایک دہائی میں ڈاکٹر زلمی نے درجنوں ایسی خوایتن کا علاج کیا ہے جو اپنے شوہروں، والد یا بھائیوں کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بنیں۔

خواتین پر بُری طرح تشدد کرنا یا ان کے چہروں کو بگاڑ دینے کی اسلامی قوانین میں قطعی اجازت نہیں ہے لیکن معاشرے میں یہ برائی اسلام سے بھی پہلے کی ہے۔

طویل سفر

زرقا کا تعلق کابل سے 250 کلومیٹر دور پاکستان اور افغاناستان کی سرحد کے قریب واقع ضلع خیر کوٹ کے ایک انتہائی غریب خاندان سے ہے۔ وہ ناخواندہ ہیں۔

زاکٹر زلمی

Dr Zalmai Khan Ahmadzai
ڈاکٹر زلمی گھریلو تشدد کا نشانہ بننے والے بہت سے افغان خواتین کا علاج کر چکے ہیں

زرقا کا گاؤں طالبان کے کنٹرول میں ہے۔ ان کے علاقے کے بااثر سیاسی افراد اور طالبان کے درمیان طویل بات چیت کے بعد ہی انھیں علاج کے لیے کابل آنے کی اجازت ملی تھی۔

اس دوران ڈاکر زلمی کورونا وائرس کی لپیٹ میں آ گئے اور ان کی اہلیہ کا کورونا وائرس سے انتقال ہو گیا۔ 49 سالہ ڈاکٹر جلال آباد میں اپنی بیوی کی آخری رسومات ادا کرنے کے بعد زرقا کا علاج کرنے کابل چلے آئے۔

ڈاکٹر زلمی نے کہا کہ زرقا جب ان کے پاس پہنچیں تو ان کی ناک کے زخم بہت بگڑ چکے تھے۔

پندرہ جون کو ڈاکٹر نے ان کا معائنہ کرنے کے بعد انھیں انفیکشن اور سوجن کم کرنے کی دوائیں دیں۔ زرقا میں خون کی کمی بھی تھی جس کے لیے انھیں ملٹی وٹامن کی گولیاں بھی لکھ کر دی گئیں۔

پانچ ہفتوں بعد زرقا کابل واپس آئیں اور 21 جولائی کو ان کا آپریشن کیا گیا۔

شکی اور متشدد شوہر

زرقا نے بی بی سی کو ان کی صحت یابی کی ویڈیو بنانے کی اجازت دی اور گھریلو تشدد کی کہانی سنائی۔

زرقا

Dr Zalmai Khan Ahmadzai
زرقا سارے آپریشن کے دوران ہوش میں تھیں مگر ان کے چہرے کو سُن کر دیا گیا تھا

انھوں نے بتایا کہ اُن کا شوہر ان کا ہم عمر ہے اور گاؤں والوں کے مویشیوں کی دیکھ بھال کر کے روزی کماتا ہے۔

’میری منگنی بچپن ہی میں کر دی گئی تھی جب میں بہت چھوٹی تھی۔ اس وقت مجھے شادی اور زندگی کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا اور مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ اُس وقت میری کیا عمر تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ انھیں یہ بھی یاد نہیں کہ ان کا رشتہ کرنے سے قبل کسی نے ان سے اُن کی مرضی پوچھی تھی یا نہیں۔

ادلے بدلے کی شادی

کئی سال بعد انھیں معلوم ہوا کہ اُن کے چچا نے اُن کی شادی کے بدلے میں ان کے شوہر کی بہنوں میں سے ایک سے شادی کی تھی۔

Zarka after the surgery with a big bandage

افغانستان میں کچھ لوگوں اپنی بیٹیوں کی شادی کرنے کے لیے لڑکے والوں سے پیسے لیتے ہیں

انھوں نے بتایا کہ اُن کے چچا شادی کے لیے ان کے شوہر کو پیسے نہیں دے سکتے تھے تو اس کے بدلے میں انھوں نے میری اس سے شادی کروا دی۔

افغانستان میں کچھ لوگ اپنی بیٹیوں کی شادی کرنے کے لیے لڑکے والوں سے پیسے لیتے ہیں۔ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا لیکن افغان معاشرے میں یہ ایک عام روایت ہے۔

شادی کے بعد زرقا کو معلوم ہوا کہ اُن کا شوہر اپنی بہنوں کو مارتا پیٹتا ہے لیکن انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ ایسا کیوں کرتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ منشیات کا عادی نہیں اور نہ ہی وہ کوئی ذہنی مریض تھا۔

جان کا خطرہ

زرقا کی شادی کے ایک سال بعد ہی اُن کے شوہر نے کسی اور سے شادی کرنا چاہی۔

زرقا نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے شوہر نے انھیں بتایا کہ وہ انھیں پسند نہیں کرتے اور کسی اور سے شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس اتنے پیسے نہیں کہ وہ نئی دلہن کی قیمت ادا کر سکیں۔

اس بات پر زرقا کو اُن کے غصے اور مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے بتایا ان کا شوہر انھیں اتنا مارتا تھا کہ انھیں اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو گیا۔

انھوں نے کہا کہ جب ان کے شوہر نے بہت زیادہ مار پیٹ شروع کر دی تو وہ بھاگ کر اپنے گھر (میکے) آ گئیں اور اپنے والد کی منتیں کیں کہ وہ انھیں اِس ظلم سے بچا لیں۔

انھوں نے گھر چھوڑنے سے پہلے اپنے شوہر سے اجازت نہیں لی تھی اور وہ انھیں ڈھونڈتا ہوئے ان کے گھر پہنچ گئے۔

زرقا

Dr Zalmai Khan Ahmadzai
ڈاکٹرز کے مطابق سرجری کے بعد زرقا کے زخم تیزی سے بھر رہے ہیں

’میں نے ایک رات (اپنے شوہر کے) گھر سے باہر گزاری تو اگلی صبح وہ ایک بڑی سی چھری لے کر میرے والدین کے گھر پہنچ گیا۔ وہ میرے والد کو مجھے اپنے کے حوالے کرنے کو کہہ رہا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ اُن کے والد اور بھائی نے شوہر سے کہا کہ جب تک وہ کوئی ضامن نہیں لائیں گے وہ انھیں حوالے نہیں کریں گے۔

اس بات پر زرقا کا شوہر ضامن لے آیا جنھوں نے زرقا کے تحفظ کی ضمانت دے دی۔ لیکن جب وہ اپنی سسرال واپس پہنچیں تو صورتحال اور زیادہ خراب ہو گئی۔

جب وہ اپنے گھر واپسی پہنچیں تو ان کے شوہر نے ان پر دوبارہ حملہ کر دیا اور ایک چھری نکال کر ان کی طرف دوڑا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ہمسائیوں کے گھر بھاگ گئیں کیونکہ وہ ان کی ناک کاٹنے کی دھمکی دے رہا تھا۔

ہمسائیوں نے بیچ بچاؤ کرایا، لیکن یہ محض وقتی حل تھا۔

وہ ایک بار پھر انھیں گھر واپس لے گیا اور یہ وعدہ کیا کہ انھیں اُن کے والدین کے گھر بھیج دے گا لیکن یہ ایک دھوکہ تھا۔

تکلیفدہ زخم

’وہ مجھے کسی اور گھر لے گیا اور گھیسٹ کر دلان میں پہنچا دیا۔‘ زرقا نے بتایا کہ اس وقت ان کے شوہر کے پاس بندوق بھی تھی۔

’اس نے مجھے قابو کر کے کہا کہ کہاں بھاگتی ہو۔ یہ چھوٹا سا دلان تھا اور پھر اس نے جیب سے چاقو نکال کر میری ناک کاٹ دی۔‘

زرقا کے شوہر نے ان سے کہا کہ وہ ان کا چہرہ اس لیے بگاڑ رہا ہے کیونکہ وہ بغیر بتائے گھر چھوڑ کر چلی گئی تھی جس سے اس کی بے عزتی ہوئی ہے۔

ان کی ناک کاٹنے کے بعد وہ انھیں خون میں لت پت چھوڑ کر چلا گیا۔

زرقا

Dr Zalmai Khan Ahmadzai
زرقا نے بتایا کہ ان کے شوہر نے وعدہ کیا تھا کہ وہ انھیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے مگر یہ صرف ایک دھوکہ تھا

زرقا کو بہت تکلیف ہو رہی تھی اور ان کا خون تیزی سے بہہ رہا تھا جس کی وجہ سے انھیں سانس لینے میں بھی دشواری ہو رہی تھی۔

ان کی چیخیں سن کر محلے والے جمع ہو گئے اور ایک ہمسائے نے ان کی کٹی ہوئی ناک کا ٹکڑا انھیں تھما دیا۔

انھیں ایک مقامی ڈاکٹر کے پاس لے جایا گیا جس نے کہا کہ ناک کا دوبارہ جوڑنا ممکن نہیں ہے۔

بدلہ لینے کا عزم

زرقا کا دل ٹوٹ گیا تھا اور وہ اپنے آپ کو بہت بدصورت محسوس کر رہی تھیں۔

ان کے والد اور مرد رشتہ دار بدلہ لینا چاہتے تھے لیکن وہ ان کے شوہر کو ڈھونڈ نہیں سکے۔

وہ بہت غصے میں تھے کہ ان کا شوہر یہ سب کچھ کیسے کر سکتا ہے اور وہ اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ اُن کے والد اور والد کے بھائیوں نے ان لوگوں کے گھروں پر فائرنگ کی جو ان کے شوہر کے ضامن بن کر آئے تھے۔

اس سے پہلے کہ زرقا کے رشتہ دار اُن کے شوہر تک پہنچتے پولیس نے انھیں پکڑ کر جیل بھیج دیا۔

خون آلود چہرہ

زرقا

BBC
دس ہفتوں سے زائد عرصے تک تکلیف برداشت کرنے کے بعد بالآخر زرقا کو امید کی ایک کرن نظر آئی

زرقا کا مقامی سطح پر علاج شروع ہوا لیکن یہ ناکافی تھا اور وہ اپنی ناک کی سرجری کروانا چاہتی تھیں۔

انھوں نے کہا کہ ’میرا چہرہ کیسا بھی نظر آتا، میں بس اپنی ناک واپس لگوانا چاہتی تھی۔‘

زرقا کے خون آلودہ چہرے کی تصویر ویب سائٹ پر بہت لوگوں نے دیکھی اور یہ ڈاکٹر زلمی تک بھی پہنچ گئی۔

انھوں نے سوشل میڈیا پر زرقا کا مفت علاج کرنے کی پیشکش کی۔ انھوں نے چند مقامی لوگوں کے ذریعے ان سے رابطہ کیا اور ان ہی کی مدد سے انھیں کابل بلانے میں کامیاب ہوئے۔

ان کی حالت بہتر ہونے کے بعد انھوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ ان کا آپریشن کیا۔

علاج

ڈاکٹر زلمی نے بتایا کہ انھوں نے پہلے زرقا کی ناک کے درمیانی حصہ پر کام کیا جس کو چاقو سے کاٹا گیا تھا۔ ’ہم نے ناک کے اردگرد سے ان کی کھال کے ٹشوز لیے اور ان کی مدد سے دوبارہ ناک جوڑ دی۔‘

Zarka having a look at her face

زرقا کہتی ہیں کہ وہ اپنے آپریشن سے خوش ہیں

ان کا آپریشن ان کا چہرہ سن کر کے کیا گیا تھا اور زرقا سارے آپریشن کے دوران ہوش میں تھیں اور انھیں پتا چل رہا تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ ان کی ناک بالکل ٹھیک ہو جائے گی۔ وہ دو ماہ سے یہ بات سننے کے لیے ترس رہی تھیں۔

ڈاکٹر زلمی ان کا مستقل معائنہ کر رہے ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو وہ لیزر سے ان کا علاج کریں گے اور دوسرے مرحلے میں سلیکون سے ناک کی شکل ٹھیک کریں گے۔

انھوں نے زرقا کو یقین دلایا ہے کہ ناک میں خون کا بہاؤ بالکل ٹھیک ہے۔

ڈاکٹر زلمی نے کہا کہ وہ عام طور پر اس طرح کا آپریشن کرنے کے دو ہزار ڈالر لیتے ہیں۔ نہ صرف انھوں نے زرقا کا آپریشن بالکل مفت کیا بلکہ پانچ سو ڈالر کی دوائیں بھی انھیں خرید کر دیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ ان کا اعتماد بحال کرنے کے لیے نفسیاتی مدد فراہم نہیں کر سکتے۔

بیٹے کی یاد

زرقا کو اپنے بیٹے کی فکر ہے جو ابھی تک ان کی سسرال میں ہے۔

زرقا

BBC
زرقا کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ناک واپس لگوانا چاہتی تھیں

گذشتہ تین مہینوں سے انھوں نے اپنے بیٹے معشوق کو نہیں دیکھا ہے۔ ’میں اپنے بیٹے سے ملنا چاہتی ہوں۔‘

وہ کہتی ہے کہ وہ شکر کرتی ہیں کہ اُن کے بیٹے نے اپنے باپ کا وحشیانہ پن نہیں دیکھا۔

زرقا کا بیٹا ان کے سسرال والوں کے پاس ہے لیکن انھیں یہ نہیں پتا کہ وہ کہاں ہے۔ کیونکہ ان کا اپنا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے اس لیے مقامی قانون کے مطابق اُن کا بچہ فی الحال باپ کے پاس ہی رہے گا۔

’بیٹے کی جدائی بہت اذیت ناک ہے۔ میں اس کو ہر وقت یاد کرتی ہوں اور جب بھی کچھ کھاتی ہوں تو اس کا خیال آتا ہے۔‘

زرقا کے والد اور چچا بچے کی تحویل کے لیے قانونی جنگ لڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور انھیں خدشہ ہے کہ ان کا شوہر لڑکے سے ملنے ان کے گھر آنے کے بعد نہ جانے کیا کرے۔

انھوں نے زرقا کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو بھول جائیں۔ زرقا کہتی ہیں کہ وہ ایسا نہیں کر سکتیں۔

زرقا کہتی ہیں کہ اب وہ آزاد ہونا چاہتی ہیں کیونکہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں۔ ’میرے خیال میں جب میں طلاق لے لوں گی تو وہ میرا بچہ واپس نہیں کریں گے اور مجھے بس اسی بات کی فکر ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp