جب طالبان نے نجیب اللہ کو مار کر لاش کھمبے سے لٹکا دی


نجیب اللہ

18 مارچ 1992 کو افغانستان کے صدر نجیب اللہ نے اعلان کیا کہ جیسے ہی ان کے متبادل کا بندوبست ہوتا ہے وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیں گے۔

انھوں نے اپنے استعفے کی تاریخ کی وضاحت نہیں کی لیکن کہا کہ ان کا استعفے کے آپشن کے ساتھ جانا بہت ضروری ہے۔ سنہ 1989 میں افغانستان سے سوویت فوج کے انخلا کے بعد سے نجیب اللہ کی اقتدار پر گرفت کمزور ہوتی جا رہی تھی۔

گذشتہ کئی برس سے تقریباً 15 مختلف مجاہدین تنظیمیں کابل کی طرف گامزن تھیں اور ان سب کا مقصد ایک ہی تھا یعنی نجیب اللہ کو اقتدار سے ہٹانا۔ وہ نجیب کو نہ صرف سوویت یونین کی کٹھ پتلی بلکہ ایک ایسا کمیونسٹ سمجھتے تھے جو خدا پر یقین نہیں رکھتا تھا مگر ایک مکمل مذہبی مسلم ملک کا حکمران تھا۔

नजीबुल्लाह

انڈیا میں سیاسی پناہ لینے کی کوشش

17 اپریل 1992 تک، نجیب اللہ اپنے ہی ملک میں تنہا ہو چکے تھے۔ دو ہفتے قبل ان کی اہلیہ اور بیٹیاں انڈیا جا چکی تھیں۔

اس دن وہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے نمائندے بینن سیون کے ساتھ ایک خفیہ پرواز میں انڈیا جانا چاہتے تھے۔

انڈیا کے سابق سفارتکار ایم کے بھدر کمار نے اخبار دی ہندو کے 15 مئی، 2011 کے شمارے میں اپنے مضمون ‘منموہن سنگھ تک پہنچنے والی افغان پالیسی’ میں لکھا ’بنین سیون نے انڈیا سے نجیب اللہ کو سیاسی پناہ فراہم کرنے کی درخواست کرنے سے پہلے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سے یہی درخواست کی۔ نواز شریف کو اس بارے میں اعتماد میں لیا گیا تھا‘۔

ایک گھنٹے میں ہی انڈیا وزیراعظم نرسمہا راؤ نے بھی یہ پیغام دے دیا کہ انڈیا نجیب اللہ کا بطور سرکاری مہمان استقبال کرے گا۔ یوں تین کاروں کے قافلے میں، نجیب اللہ نے کابل ایئرپورٹ کا رخ کیا۔

بینن سیون

بینن سیون

اقوام متحدہ کے ایک اور عہدیدار فلپ کورون اپنی کتاب ‘ڈومڈ اِن افغانستان – اے یو این آفیسرز میموائرز آف دی فال آف کابل اینڈ نجیب اللہ فیلڈ ایسکیپ’ میں اس دن کے بارے میں لکھتے ہیں، ’17 اپریل 1992 کو میں آدھی رات کو نجیب کی رہائش گاہ پر پہنچا۔ نجیب نے گہرے خاکستری رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ ان کے ہمراہ ان کے چیف آف اسٹاف جنرل توخی بھی تھے جن کے ساتھ ان کی اہلیہ اور تین بچے بھی تھے۔ نجیب کے ساتھ ان کے بھائی، محافظ اور ایک نوکر بھی تھے۔ اس ٹیم میں مجموعی طور پر نو افراد شامل تھے ، جن میں نجیب بھی شامل تھے۔ رات پونے دو بجے ہم نے سارا سامان تین کاروں میں بھرا۔

’میں اقوام متحدہ کے انتظامی افسر ڈین کوئرک کے ساتھ آگے والی کار کی اگلی نشست پر بیٹھ گیا۔ نجیب اللہ کا محافظ اور نوکر پچھلی سیٹ پر کلاشنکوف لیے بیٹھے تھے۔ نجیب اور ان کے بھائی درمیانی گاڑی میں پچھلی سیٹ پر تھے۔ تیسری ٹویوٹا منی بس میں جنرل توخی اور ان کا کنبہ بیٹھا ہوا تھا۔ ہمیں اندرونی سکیورٹی کے وزیر نے ایک کوڈ ورڈ دیا تھا جس کا استعمال کرتے ہوئے ہم نے متعدد چوکیوں کو عبور کیا۔ جب ہم آخری چوکی پر پہنچے تو اب وہاں موجود سکیورٹی اہلکار نے جو کوڈ ورڈ چل رہا تھا اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ڈین نے کئی بار کوڈ ورڈ دہرایا لیکن فوجیوں نے ہماری گاڑی کو آگے نہیں بڑھنے دیا‘۔

ہوائی اڈے کے قریب کاریں رک گئیں

اچانک کوئرک نے دیکھا کہ ان فوجیوں نے دوسری وردی پہن رکھی ہے۔ کوئرک اور کورون نے اس سے اندازہ لگایا کہ عبدالرشید دوستم کے ساتھی راتوں رات ہوائی اڈے پر قابض ہو چکی ہے۔

نجیب کا محافظ بھی اپنی کلاشنکوف کے ساتھ اترا اور وہاں موجود فوجیوں سے بحث شروع کر دی۔ اسی دوران کار کے ڈرائیور اونی نے ہوائی اڈے پر بینن سے رابطہ کیا جو رن وے پر اقوام متحدہ کے طیارے میں بیٹھے نجیب اللہ کا انتظار کر رہے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ وہاں موجود فوجیوں نے طیارے کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے۔ انھوں نے اپنے ہوائی جہاز کو اندر سے مقفل کر لیا ہے تاکہ وہ جہاز پر سوار نہ ہو سکیں۔

عبدالرشید دوستم

عبدالرشید دوستم

فلپ کورون بتاتے ہیں کہ، ’پھر نجیب نے گاڑی کے اندر سے فوجیوں پر چیخنا شروع کر دیا۔ ان کی آواز بلند تھی لیکن ان کے سارجنٹ نے جواب دیا کہ اگر انھیں آگے جانے کی اجازت دے بھی دی جائے تو پورا عملہ ہوائی اڈے پر مارا جائے گا کیونکہ دوستم کے سپاہی کسی کو ہوائی اڈے میں داخل ہونے کی اجازت دے رہے ہیں اور نہ باہر جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔‘

’چند منٹ تک اپنی بات سمجھانے کی ناکام کوششوں کے بعد، نجیب اللہ نے ہی گاڑیاں واپس موڑنے کا فیصلہ کیا۔ ڈرائیور نے ان سے پوچھا کہ کیا ہم آپ کو آپ کی رہائش گاہ پر لے جائیں، نجیب نے چیخ کر کہا نہیں، ہم اقوام متحدہ کے احاطے میں جائیں گے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر وہ اپنے گھر واپس جاتے ہیں تو جن لوگوں نے انھیں کابل ایئرپورٹ پر نہیں جانے دیا وہ انھیں جان سے مار ڈالیں گے۔ رات کے دو بجے کاروں کا قافلہ اقوام متحدہ کے صدر دفتر کی طرف روانہ ہو گیا۔‘

دوستم

نجیب اللہ کے قریبی لوگوں نے انھیں دھوکہ دیا

دریں اثنا، نہ صرف دوستم بلکہ ان کی اپنی جماعت کے لوگوں نے بھی ان سے چھٹکارا پانے کی کوششیں شروع کر دی تھیں۔

نیویارک ٹائمز نے 18 اپریل 1992 کے اپنے شمارے میں لکھا تھا، ’نجیب اللہ کے وزیر خارجہ عبدالوکیل اور ان کے آرمی چیف جنرل محمد نبی عظیمی اپنے سیاسی دفاع کے لیے نجیب کو مجاہدین فوجیوں کو بطور تحفہ دینا چاہتے تھے‘۔

عبدالوکیل نے ریڈیو کابل پر ایک پیغام نشر کیا اور اعلان کیا کہ ’فوج نے نجیب اللہ کے ملک سے فرار کی کوشش ناکام بنا دی ہے۔‘

چند گھنٹوں میں نجیب اللہ عبدالوکیل کے لیے ایک ’قابلِ نفرت آمر’ بن گئے۔ سیون شروع سے ہی نجیب کو ان حالات سے بچانا چاہتے تھے۔ نجیب کے اقوام متحدہ کے ہینڈلرز نے تقریبا 3:20 منٹ پر، انڈین سفیر ستیش نمبیار کو اطلاع دی کہ نجیب کو دوستم کے فوجیوں نے روک لیا ہے۔

نمبیار 4.35 بجے اقوام متحدہ کے دفتر پہنچے۔ اس دن نجیب اللہ سے ملنے والے وہ پہلے غیرملکی تھے۔

بعد میں نمبیار نے خود ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ ‘انڈیا اور اقوام متحدہ نجیب کو بچانے کے اس منصوبے کے بارے میں اتنے پراعتماد تھے کہ انھوں نے کسی بھی متبادل منصوبے پر سوچا ہی نہیں تھا’۔

پھر جب اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے اصرار کیا تو نمبیار نجیب اللہ کو انڈین سفارت خانے میں پناہ دینے پر راضی ہو گئے مگر شرط رکھی کہ اس کے لیے درخواست اقوام متحدہ کی جانب سے کی جائے۔

اویناش پلییوال اپنی کتاب ‘میرے دشمن کے دشمن’ میں لکھتے ہیں، ’نمبیار نے ہم سے دہلی ریڈیو کا استعمال کرتے ہوئے رابطہ کیا اور تازہ ترین پیشرفت سے آگاہ کیا اور انڈین سفارتخانے میں نجیب کو سیاسی پناہ دینے کے لیے حکومت سے اجازت مانگی۔ انڈیا کے لیے دہلی میں نجیب کے اہل خانہ کو پناہ دینا اور ان کی دیکھ بھال ایک چیز تھی لیکن نجیب کو خود اپنے سفارتخانے میں رکھنا ایک اور بات تھی۔ 5.15 منٹ پر حکومت ہند نے نجیب کو ہندوستانی سفارتخانے کو سیاسی پناہ دینے سے انکار کر دیا۔

نمبیار نے دلیل دی کہ نجیب اقوام متحدہ کے دفتر میں زیادہ محفوظ رہیں گے۔’اگر ہم انھیں انڈین سفارتخانے میں پناہ دیتے تو ہر طرح کے مسائل پیدا ہو جاتے اور نجیب کی حفاظت کرنا مشکل ہوتا۔‘

وزیر داخلہ شنکرراؤ چاون اور وزیراعظم نرسہما راؤ

وزیر داخلہ شنکرراؤ چاون اور وزیراعظم نرسہما راؤ

بھارت نے نجیب اللہ کو مایوس کیا

انڈیا کو تشویش لاحق تھی کہ جب کابل کے عوام کو معلوم ہو گا کہ نجیب اللہ انڈین سفارتخانے میں چھپے ہوئے ہیں تو وہ وہاں مقیم ہندوستانی نژاد افراد کو نشانہ بنانا شروع کر دیں گے۔ اس وقت سفارتخانے کے عملے سمیت چند سو انڈینز کابل میں قیام پذیر تھے۔

اسی دوران جے این ڈکشٹ کو، جو 1991 سے 1994 تک انڈیا کے سیکریٹری خارجہ رہے، یہ خدشہ بھی تھا کہ نجیب اللہ کو پناہ دینے سے انڈیا کے لیے سیاسی طور پر صورتحال مزید پیچیدہ ہو جائے گی۔

22 اپریل 1992 کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری بطروس غالی اچانک انڈیا پہنچے۔ اس دورے کا واحد مقصد وزیراعظم نرسمہا راؤ کو تیار کرنا اور نجیب کو کابل سے نکال کر انڈیا میں سیاسی پناہ دلوانا تھا۔

چھ دن کی مشاورت کے بعد، وزیر داخلہ شنکرراؤ چاون نے اعلان کیا کہ اگر نجیب اللہ چاہیں تو انڈیا انہیں پناہ دے سکتا ہے۔ چاون کے بیان سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ انڈیا اس معاملے میں احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتا ہے۔

بطروس غالی

بطروس غالی

جب اس بارے میں پارلیمنٹ میں پوچھا گیا تو وزیر مملکت برائے امور خارجہ ایڈورڈو فیلیرو نے کہا کہ یہ ایک فرضی سوال ہے کیونکہ انھیں نجیب اللہ کی جانب سے اس بارے میں کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔ جب ارکان پارلیمان نے اصرار کیا کہ اگر ایسی کوئی درخواست آجاتی ہے تو حکومت کا رویہ کیا ہو گا تو نرسمہا راؤ اور فلرو دونوں نے اس سوال کو نظرانداز کر دیا۔

اویناش پلییوال اپنی کتاب ’میرے دشمنوں کا دشمن‘ میں لکھتے ہیں، ’انڈیا نے نجیب اللہ کو فضائی یا کسی اور راستے سے کابل سے باہر نکالنے میں کوئی دلچسپی نہیں ظاہر کی جبکہ بطروس غالی سے کہا گیا کہ انڈیا اپنا طیارہ کابل بھیجے گا۔ کہا گیا کہ یہ طیارہ تیار ہے اگر اقوام متحدہ کی طرف سے ایسی کوئی درخواست موصول ہوتی ہے لیکن یہ درخواست کرنے سے پہلے اقوام متحدہ کو اس معاملے پر پاکستان اور مجاہدین سے اتفاق رائے کرنا چاہیے۔ دہلی میں نجیب اللہ کے کنبے کی دیکھ بھال کرنے کے علاوہ، انڈیا نے نجیب اللہ کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔‘

کابل ایئرپورٹ

کابل ایئرپورٹ

بعدازاں، را کے ایک سینیئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر، اویناش پلییوال کو بتایا، ’دکشت اور ان کے ساتھیوں کو نجیب اللہ کو نہ بچانے پر ہمیشہ افسوس رہا۔ ہم نے نجیب کو یقینی طور پر جہاز بھیجا ، اگرچہ ہمارے پاس جہاز نہیں تھا۔ ہمارا خیال تھا کہ مجاہدین انھیں جانے دیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہم نے دنیا میں شور کیا کہ ہم نجیب کو باہر نکال رہے ہیں لیکن ہم نے اس بارے میں مرکزی کردار رشید دوستم سے بات نہیں کی۔‘

1994 میں سچن ایم کے بھدر کمار پاکستان، افغانستان اور ایران ڈیسک سے کابل گئے تھے۔ انھیں ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کابل میں انڈین سفارتخانہ دوبارہ کھولنے کی کوشش کریں اور احمد شاہ مسعود سے نجیب اللہ کو انڈیا جانے کی اجازت دینے کی درخواست کریں۔

لیکن احمد شاہ مسعود نے بھدرا کمار کی اس درخواست کو یہ کہتے ہوئے قبول نہیں کیا کہ یہ مجاہدین کے دیگر رہنماؤں کے لیے قابل قبول نہیں ہو گا۔

احمد شاہ مسعود

احمد شاہ مسعود

پاکستان کی نجیب کو پناہ دینے کی پیشکش

17 اپریل کو جب نجیب اللہ کو انڈیا جانے سے روکا گیا تو پاکستان نے انھیں اپنے سفارتخانے میں سیاسی پناہ کی پیش کش کی۔

پاکستان اور ایران کے نمائندے اس پر تبادلہ خیال کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر پہنچے۔ بینن انھیں نجیب کے سامنے لے گئے۔ فلپ کورون اپنی کتاب ‘ڈومڈ ان افغانستان’ میں لکھتے ہیں، ’نجیب ایران کے نمائندے پر چیخنے لگے۔ ایک وقت تو میں نے محسوس کیا کہ نجیب ایرانی نمائندے کو اٹھا کر کھڑکی سے نیچے پھینک دے گا۔ اس نے ان دونوں سے کہا، مجھے تم پر قطعی اعتبار نہیں۔ میں تم دونوں کو بچانے کی بجائے مرنے کو ترجیح دوں گا دوم مجھے یقین نہیں ہے کہ تم بھی میری حفاظت کرنا چاہتے ہو۔‘

افغان مجاہدین اور طالبان

طالبان نے نجیب کو مار ڈالا اور اس کی لاش کو کھمبے پر لٹکا دیا

نجیب اللہ اگلے ساڑھے چار سال اقوام متحدہ کے دفتر میں رہے۔ 27 ستمبر 1996 کو نجیب اللہ یو این او آفس میں واقع اپنے کمرے سے قاتلوں کی آواز واضح طور پر سن سکتے تھے۔

کابل پر طالبان کی فتح کے دوران، گولوں اور راکٹوں کی آواز پھانسی دینے والے کے آگے بڑھنے کے قدموں کی طرح تھی۔

پھر طالبان فوجیوں کے 15 ٹرک اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر آ کر رکے۔

ہر ٹرک میں 8 سے 10 سپاہی تھے۔ صبح تین بجے نجیب اللہ کو معلوم ہوا کہ اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر تعینات سنتری اچانک وہاں سے غائب ہو گئے۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے ایک اور دفتر سے مدد کا مطالبہ کیا لیکن وہاں سے جواب میں صرف خاموشی ملی۔

طالبان

طالبان

مشہور صحافی ڈینس جانسن نے اپریل 1997 میں ایسکوائر میگزین میں نجیب اللہ کے آخری دن کے عنوان سے لکھا تھا، ’مختصر عرصے میں طالبان جنگجو اقوام متحدہ کے دفتر میں گھس گئے۔ ایک جنگجو نے نوکر سے پوچھا، نجیب اللہ کہاں ہے؟۔ اس نے کچھ بہانہ بنانے کی کوشش کی لیکن وہ مکان میں گھس کر عمارت کی تلاشی لینے لگا۔ چند ہی منٹوں میں اسے نجیب اپنے بھائی شاہ پور یوسف زئی، محافظ جعفر اور سیکریٹری توخی کے ساتھ مل گیا۔

’وہ نجیب اللہ کو گھسیٹ کر کمرے سے باہر لایا۔ نجیب کو بری طرح مارا پیٹا گیا۔ ان کے جنسی عضو کاٹ ڈالے گئے اور پھر سر میں گولی مار دی گئی۔ پہلے ان کی لاش کرین پر لٹکائی گئی اور پھر اسے محل کے قریب ایک کھمبے سے لٹکا دیا گیا تھا۔ نجیب کے مردہ جسم کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور ان کے منہ میں سگریٹ زبردستی ٹھونسی گئی تھی جبکہ جیب میں کٹے پھٹے کرنسی نوٹ بھی دکھائی دے رہے تھے۔ “

नजीबुल्लाह

طالبان کو نجیب سے اس حد تک نفرت تھی کہ انھوں نے ان کی نمازِ جنارہ بھی نہیں پڑھائی۔ نجیب اور ان کے بھائی کی لاشوں کو پھر ریڈ کراس کے حوالے کر دیا گیا جنھوں نے لاش کو صوبہ پکتیا کے شہر گردیز منتقل کیا جہاں احمد زئی قبیلے کے لوگوں نے اسے دفن کر دیا۔

افغانستان میں اب بھی بہت سے لوگ ہیں جو نجیب کی اہلیہ فتانہ اور بیٹیوں کو پناہ دینے پر انڈیا کے شکرگزار ہیں لیکن انھیں یہ بھی شکایت ہے کہ نئے دوست بناتے ہوئے انڈیا نے اپنے پرانے دوست کا ساتھ نہیں دیا اور وہ بھی اس وقت جب اسے اس ساتھ کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32287 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp