سنگین جرائم میں ملوث افغان طالبان پر فیصلہ ‘مشکل’ ہو سکتا ہے: افغان صدر


لویا جرگہ

افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ملک کے لویا جرگہ کے لیے یہ ’مشکل‘ ہو گا کہ وہ ان 400 طالبان کے مستقبل کا فیصلہ کریں جن کو سنگین جرائم کی سزا دیتے ہوئے قید کیا گیا ہے۔

افغانستان کے سرکاری ٹی وی پر براہ راست نشر ہونے والے لویا جرگے کے اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے افغان صدر نے کہا کہ افغان آئین کے مطابق وہ افراد جن کو سزائے موت دی گئی ہے، ان کی سزا معاف نہیں ہو سکتی البتہ کم کر کے عمر قید میں تبدیل کی جا سکتی ہے۔

’ہم اب بہت اہم اور نازک موڑ پر پہنچ گئے ہیں۔ اس موڑ پر فیصلہ کرنا آسان نہیں ہو گا لیکن ہمارے پاس اب صرف دو ہی راستے رہ گئے ہیں۔ فیصلہ لینے کا وقت آن پہنچا ہے۔ ان طالبان پر سنگین جرائم کے الزامات ہیں۔‘

یہ بھی پڑھیے

’رہا ہونے والے طالبان کے خلاف خفیہ ایجنسی این ڈی ایس چھاپے مار رہی ہے‘

بین الافغان مذاکرات تمام طالبان قیدیوں کی رہائی سے مشروط

افغان امن معاہدے کی ’سادگی‘ پیچیدگیوں کا باعث بنے گی؟

اشرف غنی

اشرف غنی نے مزید کہا کہ 29 فروری کو افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان جس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے اس میں ایسا کہیں نہیں درج تھا کہ وہ کون سے 5000 طالبان ہیں جنھیں افغان حکومت کو رہا کرنا ہے۔

لویا جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے ہائی کونسل برائے نیشنل ریکونسیلی ایشن کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے کہا کہ جرگے کا فیصلہ افغان عوام کے لیے بہت اہم ہے اور افغان طالبان کو تنبیہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ جنگ مسلط کر کے جیت نہیں سکتے۔

‘ان کو لگتا ہے کہ وہ جنگ کر کے جیت جائیں گے، لیکن یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ گذشتہ 40 برسوں میں افغانستان میں ہونے والی جنگیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ وہ نہیں جیت سکتے۔’

لویا جرگہ کا انعقاد کرنے کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے عبداللہ عبداللہ نے کہا:

‘ہم عوام کے مشورے اور تجاویز لینے کے پابند ہیں اور اس جرگے کے فیصلہ کی قدر کرتے ہیں۔ افغانستان اس وقت تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر کھڑا ہے اور یہ فیصلہ افغان عوام کے لیے زندگی یا موت کا فیصلہ ہے۔’

خیال رہے کہ امریکہ اور طالبان کے مابین ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں قطر کے دارالخلافہ دوحا میں جس معاہدے پر دستخط کیے گئے تھے اس کے مطابق افغان حکومت کو 5000 طالبان رہا کرنے تھے جس کے عوض طالبان 1000 افغان فوجی اہلکاروں کو رہا کرتے اور اس کے بعد افغان طالبان اور حکومت مذاکرات کے لیے ساتھ بیٹھیں گے۔

حال ہی میں دیے گئے بیان میں افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق اب تک افغان طالبان نے کابل انتظامیہ کے 898 اہلکاروں کو رہا کیا ہے جبکہ افغان حکومت کی جانب سے اب تک 4170 افغان طالبان قیدی رہائی پا چکے ہیں۔

معاہدہ امریکہ طالبان

معاہدے میں شامل ہے کہ اگر طالبان نے پاسداری کی تو امریکہ اور نیٹو کی افواج 14 ماہ میں افغانستان سے نکل جائیں گی

انھوں نے کہا کہ اگر باقی قیدیوں کو رہا کر دیا جاتا ہے تو بین الافغان مذاکرات جلد شروع ہو سکتے ہیں۔

اس سے پہلے سہیل شاہین نے ایک پیغام میں کہا تھا کہ قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہو جائے پھر عید کے بعد بین الافغان مذاکرات شروع کیے جا سکتے ہیں۔

گذشتہ ماہ دیے گئے ایک بیان میں افغان طالبان نے امریکہ سے کہا کہ وہ افغان حکومت پر تمام قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے دباؤ ڈالے اور دوسری صورت میں تنبیہ کی ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو بین الافغان مذاکرات شروع نہیں کیے جائیں گے۔

یہ تنبیہ افغان طالبان کی جانب سے ایک ایسے وقت پر جاری کی گئی ہے جب افغان حکومت کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا ہے کہ افغان طالبان کے 600 قیدیوں کو ان پر دائر مقدمات کی نوعیت کی وجہ سے رہا نہیں کیا جا سکتا۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32499 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp