بارات ہوائی جہاز سے نکاح فون پر


بڑے میاں صاحب کے دل کے حالات کچھ گڑ بڑ ہو جانے اور ڈاکٹروں کے سفر سے اجتناب کے مشورہ کے باعث فیصلہ کیا گیا کہ فیصل آباد سے اسلام آباد جانے والی چھوٹے میاں صاحب کی بارات بجائے کاروں اور کوچز کے صرف قریبی گھر والوں کی ہمراہی میں ہوائی جہاز پر لے جائی جائے۔ کہ ابھی موٹروے چالو نہ ہونے کی وجہ سے اور سڑک بھی کچھ خراب ہونے کی وجہ سے سفر بھی آٹھ نو گھنٹے کا تھا۔ خوش قسمتی سے پی آئی اے فوکر فلائٹ کے جانے اور واپسی کے اوقات بھی اسی دن تمام رسومات کی بآسانی تکمیل کے بعد واپسی کے لئے بہت مناسب تھے۔

نوے کی دہائی کے ابتدائی ایام کے اس دن ہماری ڈیوٹی صبح گھر سے باراتیوں اور ائر پورٹ تک مشائعت کے لئے جانے والوں کو ہوائی اڈہ پہ چھوڑنے اور شام ڈھلے واپسی پر استقبال کرنے اور گھر لانے کی تھی۔ بارات کے ائر پورٹ ڈیپارچر لاؤنج کے اندر چلے جانے اور پرواز کی روانگی بروقت ہونے کی تسلی کے بعد ہم واپس ہو لئے۔

شام کو ہم سیدھے ائر پورٹ پرواز کے مقررہ وقت پہنچنے کا کنفرم کر کے کوئی نصف گھنٹہ قبل ہی ائر پورٹ پہنچے۔ لاؤنج میں داخل ہوتے ہی حیرانی کا جھٹکا لگا کہ لاؤنج کے دوسرے کونے پر دلہا میاں ابھی تازہ لگتے صبح والے سہرے ہار پہنے ایک دوست کے ساتھ ٹہل رہے۔ یا اللہ یہ فلائٹ اتنی جلدی پہنچ گئی کہ دولہا باہر بھی آ گیا۔ یا ہماری گھڑی خراب ہے اور ہم لیٹ ہیں۔ شرمندگی محسوس ہونا شروع ہی ہوئی تھی کہ باقی باراتی بھی سیٹوں پر براجمان نظر آئے جبکہ استقبال کے لئے متوقع افراد کم ہی تھے۔

اور قریب ہی دلہا کی کزن اپنی شادی سے پہلے ملی بچی ہمیں دیکھ آتی نظر آئی۔ دعا سلام بعد پوچھا ”۔ ہم غالباً لیٹ ہو گئے۔ بیٹی مگر دلہن اور اور اس کے گھر والے کیا ابھی جہاز میں ہیں یا کسی اور جگہ۔“

” اوہ تو انکل آپ نے صبح کے بعد رابطہ نہیں کیا لگتا۔ بارات تو گئی ہی نہ تھی۔“ جھٹکا دوبارہ دس گنا کرنٹ کا لگا۔ اور ایک اونچی سی لمبی سی ’کیا آ آ آ‘ ہمارے منہ سے نکل گئی۔ ”یعنی کیا ہوا۔ مجھے نہیں پتہ۔ کیا کہانی ہے “۔

تو کہانی یوں بنی کہ تمام مسافر بیٹھنے کے بعد جہاز اڑان بھرنے کو تیار ہوا تو رن وے کی طرف ٹیکسی کرنا شروع ہوتے ہی روک دیا گیا انجن بند ہو گئے اور کیبن سے اعلان ہوا کہ کچھ معمولی ٹیکنیکل خرابی کے باعث کچھ دیر انتظار کرنا پڑے گا۔ تھوڑی مزید دیر بعد مسافروں سے واپس لاؤنج میں تشریف لے جانے کی درخواست کر دی گئی۔

اب جہاز نے دس بجے اسلام آباد اترنا تھا وہاں سے بارات بن شادی کے پنڈال اور نکاح کے بعد ایک بجے کھانا تھا۔ یہاں منٹ منٹ باراتیوں پر بھاری تھا۔ موبائل فون کا زمانہ ابھی سالوں دور تھا۔ ائر پورٹ لاؤنج کے پبلک فون مصروف ہو گئے

ادھر سے فون آرہے تھے
آ جا آ جا ترا انتظار ہے
ادھر سے جواب جا رہے تھے
مجبور میرا پیار ہے
جہاز ابھی نہ تیار ہے

ہوائی جہاز کی خرابی ظالم سماج کی شکل راہ روک چکی تھی۔ دلہا والے پی آئی اے افسران کو اپنی مجبوری کا واسطہ دے رہے تھے اور وہاں وہی دہائیوں پرانا جواب آ رہا تھا
تم ہی بتاؤ کیا کریں۔ مجبور تم مجبور ہم

کوئی گیارہ بجے اعلان ہوا مسافر جہاز میں تشریف لے جائیں۔ بجھے چہرے کھل اٹھے باراتی یوں بھاگتے جہاز میں گئے کہ شاید جہاز کے چند منٹ بچ جائیں۔ اور جب پھر جہاز اڑان بھرنے کی تیاری کرنے لگی تو کاک پٹ سے آنے والی آواز ” بجلی کوند جائے گی“ ۔ والا پیغام دے گئی۔

جی ہاں۔ یہ وہ دن تھے جب اسلام آباد ائر پورٹ روزانہ صبح ساڑھے گیارہ ( شاید ) سے پانچ گھنٹے کے لئے مرمت کے لئے بند ہو جاتا تھا اور اس دوران کوئی فلائٹ نہ آ سکتی نہ اڑ سکتی تھی۔ بارات پھر لاؤنج میں تھی۔ اب کے کنٹرول ٹاور نے ظالم سماج کا روپ دھارا تھا۔ پیغام رسانی پھر شروع۔ دلہا اور دلہن دونوں کے نانا حکومت پاکستان کے مرکزی سیکریٹیریٹ میں اعلی عہدے پہ تھے۔ انہوں نے خصوصی اجازت کے لئے بھی تگ و دو کی۔ فوجی ائر پورٹ پر جہاز اتارنے کی اجازت کی درخواست بھی رد ہوئی۔ ادھر مہمان پنڈال میں پہنچنا شروع ہو چکے تھے۔

”آ جا کہیں سے آ جا دل کا قرار لے کے۔ فوجی جہاز ہی۔ کوئی ادھار لے کے“ سے بھی بات نہ بنی تو اچانک ایسے موقعوں پر کراماتی طور کام آنے والے معجزہ کی مانند ایک بزرگ نے تجویز پیش کی کہ بارات گھر واپس جائے ادھر سے نکاح خواں فارم پری مکمل کریں۔ نکاح فون پر پڑھ لیا جائے۔ اور مہمانوں کو کھانا کھلا فارغ ہو کر بارات کی واپسی نشستوں پر دلہن کے گھر والے دلہن کو ساتھ لیے واپسی کی مقررہ فلائٹ پر۔ ( کہ رن وے کھلنے کے بعد جانے والی فلائٹ مقررہ وقت پر واپس آ رہی تھی ) فیصل آباد ائر پورٹ پہنچ جائے۔ اور دلہا اور باراتی دلہن کا استقبال بھی کریں اور دلہا جہاز سے اترتے ہی دلہن کے ساتھ شامل ہو۔

یہاں ظالم سماج کا نیا روپ سامنے کھڑا تھا۔ کچھ اعزا کو فون پہ نکاح پہ اعتراض تھا۔ خدا کا کرنا ہوا متعلقہ علماء سے فتوی ملنے میں دقت نہ ہوئی۔ بارات نے کھانا گھر آ کھایا ٹیلیفون پر ایجاب و قبول اور نکاح ہوا۔ اور اب دلہا ”تیری راہوں میں کھڑے ہیں دل تھام کے“ کا نظارہ بنے رن وے سے لاؤنج کے داخلی دروازے کے سامنے مجسم ”میرا شوق دیکھ۔ مرا انتظار دیکھ“ گنگنا رہے تھے۔

داستان سنتے سنتے جہاز لینڈ کر چکا تھا۔ ادھر سے دلہن لاؤنج میں داخل ہوئی ادھر سے دلہا میاں نصف چکر کاٹ کے ان کے ساتھ ساتھ چل کے آنا شروع ہوئے۔ اور میری نظر میں چک جھمرہ جنکشن ریلوے سٹیشن پہ دیکھا وہ نظارہ گھوم گیا۔ جب سیدھی لائن پر لاہور سے آتی اور چنیوٹ کی طرف سے نصف دائرہ بناتی آتی لائن پر سرگودھا سے آتی ٹرین سٹیشن پر کندھے سے کندھا ملائے داخل ہوئی تھی۔

اور کچھ دیر بعد اپنے حصے کے باراتی کار میں بٹھائے ائر پورٹ سے واپسی پر ہم گنگناتے جا رہے تھے۔
لوگو جو میں جانتی ہوائی جہاز کے دکھ ہوئے
نگر ڈھنڈورا پیٹتی بارات نہ لے جائے کوئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments