سمیع چوہدری کا کالم: کیا روٹ کے پاس کوئی ‘شان مسعود’ ہے؟


شان مسعود

ایک ‘طویل’ بندش کے بعد اب جب کرکٹ لوٹی ہے تو لگتا ہے گویا سانس میں سانس آئی۔ مگر یہاں تو کچھ ایسی کرکٹ ہو رہی ہے کہ سانس میں سانس آ کے نہیں دیتی۔

پہلے شان مسعود نے اس میچ پہ اپنا سحر طاری کیا، پھر شاہین آفریدی اور محمد عباس کے سپیل، اس پہ نسیم شاہ کا ایک برق رفتار بونس سپیل۔ ابھی ہم محمد عباس کی بین سٹوکس والی گیند کے نشے میں چور تھے کہ یاسر شاہ نے بٹلر کو وہ گیند پھینک ڈالی کہ جسے بٹلر ہی کیا، سر ڈبلیو جی گریس بھی ہوتے تو سمجھ نہ پاتے۔

کسی نے درست کہا ہے کہ نشے اکہرے ہی اچھے ہوتے ہیں، ایک نشے پہ دوسرا نشہ چڑھا نہ ہو۔ جب اوپر تلے ایسی سحر انگیز بولنگ ہوئی تو شائقین کی طرح پاکستانی بلے باز بھی ایک عجب سے خمار میں آ گئے اور جلدی سے کوئی ڈیڑھ سیشن میں ہی آ کے چل بھی دیے۔

لیکن اگر اس وکٹ کی حالت دیکھی جائے اور اننگز وار رنز کی شرح میں گھاٹے کا تناسب دیکھا جائے تو یہ احساس تازہ ہوتا ہے کہ شان مسعود کی اننگز کس قدر عظیم تھی۔ ابھی تک اس وکٹ پہ بلے بازوں کے لیے زندگی بحیثیتِ مجموعی مشکل رہی ہے۔

میچ میں اب تک ِگری 28 وکٹوں میں سے 15 ایسی ہیں کہ جہاں بلے باز دہرے ہندسوں تک بھی نہ پہنچ پائے۔ تین اننگز مکمل ہونے کو ہیں اور ابھی تک صرف تین بلے باز 50 کے انفرادی سکور کو عبور کر پائے ہیں۔

ایسے میں شان مسعود کا قد اور بڑھ جاتا ہے کہ بلے بازوں کے لیے ڈراؤنے خواب کی مانند وکٹ پہ کس عزم سے وہ پورے 53 اوورز کھیل گئے۔ اجنبی وکٹوں پہ اتنی دیر تک رکے رہنے کے لیے محض صلاحیت کافی نہیں ہوتی۔ ایک جنون سا چاہیے کہ جہاں کوئی اور وہم بھی سر میں سما نہ پائے۔ یہ جنون تب جنم لیتا ہے جب اچھے کھلاڑی محض ‘اچھائی’ سے ‘عظمت’ کی طرف سفر کا آغاز کرتے ہیں۔

شان مسعود کی اس اننگز میں ہمیں وہ نظر آیا جو پچھلے تین سال میں اس بیٹنگ لائن میں کبھی نظر نہیں آیا۔ جو ٹیم نمبرون ٹیسٹ ٹیم بنی تھی، اس کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ نامہرباں موسموں میں اچانک کوئی ایک جواں مرد ایسی مزاحمت دکھا جاتا تھا کہ میچ کا رخ ہی بدل جاتا۔

چار سال پہلے بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا کہ دنیائے کرکٹ یونس خان کے فٹ ورک کا ٹھٹھہ اڑا رہی تھی اور پھر اچانک اوول میں یونس خان کے قدم ایسے جمے کہ ڈبل سنچری بنا کر جیت پاکستان کی جھولی میں ڈال دی۔

یہاں ابھی ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ شان مسعود کی اننگز نے میچ پاکستان کے نام کر دیا مگر یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ شان کی اننگز نے پاکستان کے لیے ‘شان’ کا معیار طے کر دیا۔ یہ وہ اننگز تھی کہ جس نے بتا دیا، اب اس ٹیم میں محنت کا معیار کہاں تک پہنچ چکا ہے۔

یہ کہا جا سکتا ہے کہ انگلینڈ نے پہلے دن لنچ کے بعد بولنگ ڈسپلن میں غلطیاں کیں، فیلڈنگ میں کئی ایک کوتاہیاں کیں بلکہ شان کو ہی دو زندگیاں دے ڈالیں، مگر یہ سب قسمت کے ہیر پھیر ہوتے ہیں۔ ایک لمحے شاداب خان سلپ میں لگ بھگ ناممکن سا کیچ پکڑتے ہیں اور اگلے لمحے باؤنڈری پہ ایک نہایت آسان سا کیچ ڈراپ کر بیٹھتے ہیں۔

مزید پڑھیے

’قابل اعتماد‘ شاداب کے چرچے، ’سرفراز کو پانی پلانے میں کوئی شرمندگی نہیں ہونی چاہیے‘

دوسرے دن کا کھیل شان مسعود اور پاکستانی بولرز کے نام رہا

بابر اعظم کی نصف سنچری، پاکستان کی پوزیشن مستحکم

کیا 24 برس بعد پاکستان انگلینڈ میں ٹیسٹ سیریز جیت پائے گا؟

کہتے ہیں قسمت بھی دلیروں کا ساتھ دیتی ہے۔ شان مسعود کی کاوش دیکھ کر یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔ گو دوسری اننگز میں ان کا کھاتہ ہی نہ کھل پایا مگر پہلی اننگز میں انہوں نے جو تھکاوٹ اور خسارہ انگلش ڈریسنگ روم کے پلے ڈال دیا، اسی کو چکانے کے لیے انگلینڈ کو کم از کم تین معجزاتی اننگز درکار ہوں گی۔

پوپ اور بٹلر کی جوڑی نے پاکستان پر دباؤ ڈالا اور 65 رنز کی شراکت قائم کی

پوپ اور بٹلر کی جوڑی نے پاکستان پر دباؤ ڈالا اور 65 رنز کی شراکت قائم کی

کیا اس وکٹ پہ تین انگلش بلے باز لمبی اننگز کھیل پائیں گے؟

ویسے تو کرکٹ میں کچھ بھی امکان کے پرے نہیں مگر جس طرح کی بولنگ پاکستانی بولر پہلی اننگز میں کر چکے ہیں، اور جیسے آج انہیں ‘ایشیائی’ سی وکٹ ملے گی تو ریورس سوئنگ اور دو سپنرز کے ساتھ امکانات کا دائرہ کہاں تک پھیل جائے گا!

بہر حال یہ وہی وکٹ ہے جہاں پاکستانی سپنرز پہلے ہی چھ شکار کر چکے ہیں۔

شان مسعود کہہ رہے تھے کہ اگر پاکستان میچ جیت گیا تو پھر وہ اسے اپنی عظیم ترین اننگز میں شمار کریں گے۔ ممکن تو سب کچھ ہے مگر فی الحال کواکب یہی بتاتے ہیں کہ قسمت ایک بار پھر شان مسعود کا ساتھ دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp